مدیحہ گیلانی
محفلین
عزیزو! اس کو نہ گھڑیال کی صدا سمجھو
یہ عمرِ رفتہ کی اپنی صدائے پا سمجھو
بجا کہے جسے عالم اسے بجا سمجھو
زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
نہ سمجھو دشتِ شفا خانۂ جنوں ہے یہ
جو خاک سی بھی پڑے پھانکنی، دوا سمجھو
سمجھ تو کور سوادوں کو ہو جو علم نہ ہو
اگر سمجھ بھی نہ ہو کورِ بے عصا سمجھو
پڑے کتاب کے قصوں میں کیا کرو دل صاف
صفا ہو دل تو بہ از روضۃ الصّفا سمجھو
ہنسے جو وہ مرے رونے پہ تو صفِ مژگاں!
نہ سمجھو تم اسے دیوار، قہقہا سمجھو
نفَس کی آمد و شد ہے نمازِ اہلِ حیات
جو یہ قضا ہو تو اے غافلو! قضا سمجھو
تمہاری راہ میں ملتے ہیں خاک میں لاکھوں
اس آرزو میں کہ تم اپنا خاکِ پا سمجھو
دعائیں دیتے ہیں ہم دل سے تیغِ قاتل کو
لبِ جراحتِ دل کو لبِ دعا سمجھو
بہا دیا مرا خوں اس نے اپنے کوچے میں
اسی کو یارو دیَت سمجھو، خوں بہا سمجھو
سمجھ ہے اور تمہاری، کہوں میں تم سے کیا
تم اپنے دل میں خدا جانے سن کے کیا سمجھو
تمہیں ہے نام سے کیا، کام مثلِ آئینہ
جو روبرو ہو اسے صورت آشنا سمجھو
زہے نصیب کہ ہنگامِ مشقِ تیرِ ستم
ہمارے ڈھیر کو تم تودہ خاک کا سمجھو
نہیں ہے کم زرِ خالص سے زردیِ رخسار
تم اپنے عشق کو اے ذوقؔ کیمیا سمجھو