فائزہ ندیم
محفلین
مجھے آصف شفیع کی کتاب تیرے ہمراہ چلنا ہے سے یہ غزل پسند آئی۔ آپ لوگوں کے ساتھ شیئر کر رہی ہوں۔
زخموں کو تم پھول کہو اور مت دیکھو کوئی خواب
جینے ہے تو سیکھنے ہوں گے جینے کے آداب
جانے کیا کچھ سوچتے سوچتے آنکھیں ہو گئیں نم
حد نظر تک سامنے تھا اک اشکوں کا تالاب
اتنی جلدی جاناں! کیسے فصل ہری یہ ہو گی
کھیت وفا کے رفتہ رفتہ ہوتے ہیں سیراب
موت کی دیمک زیست شجر کو چاٹتی رہتی ہے
دیکھتے دیکھتے ہو جاتا ہے ہر چہرہ نایاب
جانے کون سی قوت میرے دکھ پر غالب آئی
اتنے تو مظبوط نہیں تھے ورنہ یہ اعصاب
وقت کی لہریں پل پل آصف ٹوٹتی رہتی ہیں
سوچ کے دریا میں بن جاتے ہیں ہر سو گرداب
زخموں کو تم پھول کہو اور مت دیکھو کوئی خواب
جینے ہے تو سیکھنے ہوں گے جینے کے آداب
جانے کیا کچھ سوچتے سوچتے آنکھیں ہو گئیں نم
حد نظر تک سامنے تھا اک اشکوں کا تالاب
اتنی جلدی جاناں! کیسے فصل ہری یہ ہو گی
کھیت وفا کے رفتہ رفتہ ہوتے ہیں سیراب
موت کی دیمک زیست شجر کو چاٹتی رہتی ہے
دیکھتے دیکھتے ہو جاتا ہے ہر چہرہ نایاب
جانے کون سی قوت میرے دکھ پر غالب آئی
اتنے تو مظبوط نہیں تھے ورنہ یہ اعصاب
وقت کی لہریں پل پل آصف ٹوٹتی رہتی ہیں
سوچ کے دریا میں بن جاتے ہیں ہر سو گرداب