طارق شاہ
محفلین
غزل
زخموں کے نئے پھول کِھلانے کے لئے آ
پھر موسمِ گُل یاد دلانے کے لئے آ
مستی لئے آنکھوں میں بکھیرے ہوئے زُلفیں
آ، پھر مجھے دِیوانہ بنانے کے لئے آ
اب لُطف اِسی میں ہے، مزا ہے تو اِسی میں!
آ اے مِرے محبُوب! ستانے کے لئے آ
آ، رکھ دَہَنِ زخم پہ، پِھر اُنگلیاں اپنی
دِل بانسری تیری ہے، بجانے کے لئے آ
ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ
دِل سے نہ آ، دُنیا کو دِکھانے کے لئے آ
مانا کہ مِرے گھر سے عداوت ہی تجھے ہے
رہنے کو نہ آ ، آگ لگانے کے لئے آ
پیارے! تِری صُورت سے بھی اچّھی ہے، جو تصوِیر
میں نے، تجھے، رکھّی ہے دِکھانے کے لئے، آ
آشُفتہ کہے ہے، کوئی دِیوانہ کہے ہے
میں کون ہُوں، دُنیا کو بتانے کے لئے آ
کُچھ روز سے ،ہم شہر میں رُسوا نہ ہُوئے ہیں
آ، پھر کوئی اِلزام لگانے کے لئے آ
اب کے جو وہ آ جائے تو عاجزؔ ، اُسے لے کر
محفِل میں غزل اپنی سُنانے کے لئے آ
کلیم عاجز
آخری تدوین: