سیما علی
لائبریرین
زخمِ احساس اگر ہم بھی دِکھانے لگ جائیں
شہر کے شہر اِسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں
جس کو ہر سانس میں محسوس کیا ہے ہم نے
ہم اُسے ڈُھونڈنے نِکلیں، تو زمانے لگ جائیں
اَبر سے اَب کے ہَواؤں نے یہ سازش کی ہے
خُشک پیڑوں پہ ثمر پھر سے نہ آنے لگ جائیں
کاش اب کے تِرے آنے کی خبر سَچّی ہو
ہم مُنڈیروں سے پرندوں کو اُڑانے لگ جائیں
شعر کا نشہ جو اُترے کبھی اِک پَل کے لئے
زندگی ہم بھی تِرا قرض چُکانے لگ جائیں
سوچتے یہ ہیں تِرا نام لِکھیں آنکھوں پر
چاہتے یہ ہیں تُجھے سب سے چُھپانے لگ جائیں
اِس طرح دِن کے اُجالے سے ڈرے لوگ، سلیمؔ
شام ہوتے ہی چراغوں کو بُجھانے لگ جائیں
-----------------------
شہر کے شہر اِسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں
جس کو ہر سانس میں محسوس کیا ہے ہم نے
ہم اُسے ڈُھونڈنے نِکلیں، تو زمانے لگ جائیں
اَبر سے اَب کے ہَواؤں نے یہ سازش کی ہے
خُشک پیڑوں پہ ثمر پھر سے نہ آنے لگ جائیں
کاش اب کے تِرے آنے کی خبر سَچّی ہو
ہم مُنڈیروں سے پرندوں کو اُڑانے لگ جائیں
شعر کا نشہ جو اُترے کبھی اِک پَل کے لئے
زندگی ہم بھی تِرا قرض چُکانے لگ جائیں
سوچتے یہ ہیں تِرا نام لِکھیں آنکھوں پر
چاہتے یہ ہیں تُجھے سب سے چُھپانے لگ جائیں
اِس طرح دِن کے اُجالے سے ڈرے لوگ، سلیمؔ
شام ہوتے ہی چراغوں کو بُجھانے لگ جائیں
-----------------------