زخم اِتنے ہیں کیا دیکھائیں ہم - ذرّہ حیدرآبادی

کاشفی

محفلین
غزل
(ذرّہ حیدرآبادی - حیدرآباد دکن)

زخم اِتنے ہیں کیا دیکھائیں ہم
دل یہ کرتا ہے بھول جائیں ہم

پیار اُن سے ہمیشہ رہتا ہے
جِن سے دھوکا ہمیشہ کھائیں ہم

آگئی ہے بہار گلشن میں
تم بھی آؤ تو مُسکرائیں ہم

آج ہم سے مِلو اکیلے میں
دل کی حالت تمہیں بتائیں ہم

آؤ اُس کو بھی بے وفا بولیں
دل کو اپنے ہی کیوں رُلائیں ہم

ہو کہ تنہا یہ سوچتے ہیں اب
کِس سے بولیں کسے ستائیں‌ ہم

وہ جو کرتا ہے شاعری ذرّہ
اُس کی غزلیں تمہیں سنائیں ہم
 

الف عین

لائبریرین
یہ صاحب آج کل شاید امریکہ میں ہیں اور انٹر نیٹ پر انگریزی یعنی رومن یا تصویروں میں اپنا بے بحرا کلام اکثر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ ویسے معلوم ہوا تھا کہ پچھلے سال حیدر آباد آئے تھے اور اپنی کتاب بھی اپنی دولت کے بل بوتے پر بڑی آرٹسٹک چھپوائی تھی۔ علی گڑھ اردو کلب یاہو گروپ میں بھی وہی حال ہے حالانکہ علی گڑھ سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
ایک غزل اور بھی کل پوسٹ ہوئی تھی یہاں، اس میں تو صاف اوزان کی غلطی تھی۔ اس غزل میں نہیں ہے لیکن غزل بھی خاص نہیں۔ نہ جانے کاشفی کو کیوں پسند آئی جو محنت کر کے تصویر یا رومن کو اردوا لیا؟؟
 

کاشفی

محفلین
یہ صاحب آج کل شاید امریکہ میں ہیں اور انٹر نیٹ پر انگریزی یعنی رومن یا تصویروں میں اپنا بے بحرا کلام اکثر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ ویسے معلوم ہوا تھا کہ پچھلے سال حیدر آباد آئے تھے اور اپنی کتاب بھی اپنی دولت کے بل بوتے پر بڑی آرٹسٹک چھپوائی تھی۔ علی گڑھ اردو کلب یاہو گروپ میں بھی وہی حال ہے حالانکہ علی گڑھ سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
ایک غزل اور بھی کل پوسٹ ہوئی تھی یہاں، اس میں تو صاف اوزان کی غلطی تھی۔ اس غزل میں نہیں ہے لیکن غزل بھی خاص نہیں۔ نہ جانے کاشفی کو کیوں پسند آئی جو محنت کر کے تصویر یا رومن کو اردوا لیا؟؟

السلام علیکم سر۔۔۔ آپ بہتر جانتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔ مجھے یہ غزل اچھی لگی ہے۔۔۔۔۔۔ غلطی ہوگئی ہے تو معذرت۔۔ خوش رہیں۔۔جیتے رہیں۔۔
 
Top