معظم علی کاظمی
محفلین
کس کا دل زیرِ خاک پھر چمکا
زخم تازہ ہوا ہے مرہم کا*
کب تلک رہیے بس سخن ور ہی
وہ تو پردہ تھا ذوقِ ماتم کا
کونسے طرز کی خوشامد ہے
آنکھ خاموش کر کے دل چمکا
کچھ نہیں عنقا ما سوائے خیال
میں مسافر ہوں لاکھ عالم کا
تا قیامت بنے تو کس سے بنے
روح بیدل کی دل معظم کا
*زخم تازہ ہوئے تو محاورہ ہے لیکن اس کا نہیں پتہ۔
زخم تازہ ہوا ہے مرہم کا*
کب تلک رہیے بس سخن ور ہی
وہ تو پردہ تھا ذوقِ ماتم کا
کونسے طرز کی خوشامد ہے
آنکھ خاموش کر کے دل چمکا
کچھ نہیں عنقا ما سوائے خیال
میں مسافر ہوں لاکھ عالم کا
تا قیامت بنے تو کس سے بنے
روح بیدل کی دل معظم کا
*زخم تازہ ہوئے تو محاورہ ہے لیکن اس کا نہیں پتہ۔