شام کی غزل برائے اصلاح کو ہم نےیوں کوشش کی ہے ۔ دو مختلف بحروں میں۔ کیا خیال ہے؟
زخم سینے کے مرے جو بن گئے ناسور آج
گوچھپانے میں انہیں ہم ان سے ہوگئے دور آج
جانے کیا پنہاں تھا انکی اک نظر میں آج شب
مے کدے کے سارے شیشے ہوگئے ہیں چور آج
وہ جو تیرے بن نہ اک لمحہ کہیں رہتے تھے ہم
تیری ہی باتوں سے ہوگئے ہیں بہت رنجور آج
آج مجھ کو وہ بلانے سے ہیں عاری، دیکھ لو!
میری غزلوں سےہوئے ہیں جو بہت مشہور آج
اب کسی جانب نہیں جو دیکھ پاتے ہم بھلا
تیری یادوں میں ہوئے یوں صید اور محصور آج
زخم سینے کے جو ناسور ہوئے ہیں
غم چھپائے دلِ مہجور ہوئے ہیں
جانے کیا رمزتھا ساقی کی نظر میں
شیشے مئے خانے کے سب چور ہوئے ہیں
بن تیرے وہ جو نہ رہ پاتے تھے اِک پل
تیری باتوں سے ہی رنجور ہوئے ہیں
آج مجھ کو وہ بلانے سے ہیں عاری
میری غزلوں سے جو مشہور ہوئے ہیں
اب کسی سمت نہیں دیکھ سکےہیں
تیری یادوں میں یوں محصور ہوئے ہیں