زخم کہنے کو تو ، پرانے ہوگئے
روح میں مگر ، کئی خانے ہوگئے
جب بھی بڑھا ، میں ساحل کی طرف
کنارے اور بھی ، بیگانے ہوگئے
اس قدر تسلسل تھا ، جدائی میں
تعلقات سب ہمارے ، فسانے ہوگئے
اس کی باتیں اور لہجہ ، یاد نہیں
اس سے بچھڑے ، اب زمانے ہوگئے
محبت ہی نہیں لگا روگ ہمیں
مرنے کے ایسے ، کئی بہانے ہوگئے
میرے ہونٹوں پہ ، سلگے جو نوحے ظفر
اس کے لبوں کے، وہ ترانے ہوگئے
روح میں مگر ، کئی خانے ہوگئے
جب بھی بڑھا ، میں ساحل کی طرف
کنارے اور بھی ، بیگانے ہوگئے
اس قدر تسلسل تھا ، جدائی میں
تعلقات سب ہمارے ، فسانے ہوگئے
اس کی باتیں اور لہجہ ، یاد نہیں
اس سے بچھڑے ، اب زمانے ہوگئے
محبت ہی نہیں لگا روگ ہمیں
مرنے کے ایسے ، کئی بہانے ہوگئے
میرے ہونٹوں پہ ، سلگے جو نوحے ظفر
اس کے لبوں کے، وہ ترانے ہوگئے