محسن وقار علی
محفلین
پچھلے دنوں ہم نے ’’پاکستان مقروض پارٹی‘‘ کا ذکر کیا کیا کہ یہاں وہاں سے طرح طرح کے سوالات داغے جانے لگے حالانکہ ہم نے صر ف دل لگی کی تھی لیکن یار لوگوں نے ہمیں اس لارجسٹ لارجسٹ اینڈ لارجسٹ پی ایم پی یعنی پاکستان مقروض پارٹی کا خود ساختہ ترجمان فرض کر لیا چنانچہ ایک رکن رکین نے پوچھا ہے کہ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس پارٹی کا ہر رکن پیدائش سے بھی پہلے مقروض کیسے ہو جاتا ہے، وجہ تو اس کی ہمیں بھی معلوم نہیں ہے کیوں کہ یہ صرف وہ لوگ بتا سکتے ہیں جو جاتے جاتے بھی اپنے لیے تاحیات وظائف و مراعات منظور کر لیتے ہیں۔
ایوب خان اور افغانستان کے مارشل فہیم کا لوگ اس وجہ سے مذاق اڑاتے ہیں کہ انھوں نے خود کو خود ہی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے لی تھی لیکن یہ بھولے بادشاہ اتنا نہیں جانتے کہ پاکستان میں ایک سے ایک بڑھ کر مارشل پڑا ہوا ہے بلکہ ان میں کچھ مارشلائیں بھی ہیں جو نہ صرف خود کو ترقی دیتے ہیں بلکہ ایکسٹینشن بھی دے دیتے ہیں اور جہاں تک تاحیات مراعات کا تعلق ہے تو مارشل کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا چاہے وہ کوئی فوجی مارشل ہو یا سول مارشل ہو، ویسے ہونا بھی یہی چاہیے کیوں کہ جو لوگ عہدے پر رہ کر پاکستانی ’’روپے‘‘ کے خلاف جہاد کر کے اس کے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں تا حیات مراعات لینا ان کا حق ہو جاتا ہے۔
جنگ تو وہ کرتے رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کسی باہر کے دشمن پر حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا اور اپنے ہی ملک اور عوام پر حملہ آور ہو کر گزارنا پڑتا ہے لیکن جنگ تو جنگ ہوتی ہے چاہے کسی کے بھی خلاف لڑی گئی ہو۔ خیر تو آج کل بہت سارے بزرجمہر ’’تاحیات مراعات‘‘ پر انگشت نمائی کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ اس کا جواز کیا ہے یہ لوگ ایسا کیا کر چکے ہیں جو تاحیات مراعات کی جھولیاں بھر رہے ہیں حالانکہ عہدے پر رہتے ہوئے یہ اتنا کچھ اپنے گھروں بلکہ آس پاس کے گھروں میں بھی ڈال چکے ہیں کہ کم از کم سات پشتیں تو آرام سے کھا بھی سکتی ہیں اور دونوں ہاتھوں سے لٹا لٹا کر خرچ بھی کر سکتی ہیں اور نہ ہی یہ لوگ پہلے سے کچھ غریب یا تہی دست تھے سارے ہی ویمپائر خاندانوں سے ہیں۔
جو عرصہ دراز سے پہلے مغلیہ، سکھیہ یا انگریزیہ دور میں ویمپائر بنے تھے اور تب سے اب تک عوام کی شہ رگ میں اپنے دانت گاڑے ہوئے ہیں، ایسی گھٹیا اور ناقص قسم کی سوچ صرف اور صرف پاکستان مقروض پارٹی ہی کے کسی نادان دوست میں آ سکتی ہے آخر جب ان کے کارنامے تا حیات زندہ رہیں گے تو تا حیات مراعات کے حق دار کیوں نہیں ہوں گے۔ پاکستان پر چڑھا ہوا قرضہ، تقریباً تمام محکموں کا خسارہ اور جمہوریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مقروض پارٹی کا نصیبہ کر دیئے گئے ہیں یا نہیں؟ کیا یہ ان کے کارنامے نہیں ہیں؟ اب اتنے کارناموں کا صلہ کم از کم تا حیات مراعات تو ہونا ہی چاہیے نا
دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہیے
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے یہ سب کچھ مقروض پارٹی کے کچھ شر پسندوں کا کیا دھرا ہے جو اب تک کچھ بھی نہیں کہہ رہے تھے، لیکن ایک محترمہ نے اپنے لیے کچھ معمولی سی مراعات کیا منظور کروائیں کہ لوگ جل بھن کر رہ گئے۔ آپ جان گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ اسپیکرہ محترمہ کی طرف ہے۔ انھوں نے اپنے لیے کچھ منظور فرمایا یا شوہر کے پچاس کروڑ کا قرضہ معاف فرمایا تو کیا قیامت ٹوٹ گئی، مرے پہ سو درے ہی کی تو بات ہے اور مراعات بھی کتنی حقیر سی، پانچ ملازم ایک بنگلہ اور اس کے اخراجات، زیادہ سے زیادہ بیس پچیس عام خاندانوں جتنا خرچہ ہی تو آئے گا اور پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ بنگلے گاڑی دفتر اور ٹیلی فون کے لیے آٹھ دس لوگوں کو روزگار بھی تو مل جاتا ہے۔
یہ لوگ مثبت رخ تو دیکھتے نہیں ہمیشہ منفی پہلو پر ہی نظر رکھتے ہیں اور پھر پاکستان مقروض پارٹی ہے نا۔ اونٹ کی پیٹھ پر ایک چھلنی زیادہ رکھنے سے اونٹ کی کہیں کمر تو نہیں ٹوٹ جائے گی زیادہ سے زیادہ مر جائے گا لیکن جانور تو مرتے رہتے ہیں اور اپنی اولاد تو چھوڑ جاتے ہیں۔ اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں یعنی پاکستان مقروض پارٹی کتنی رقم کی دین دار ہے یعنی اس کے ہر رکن پر چاہے وہ پیدا ہوا ہو یا ابھی تک انڈے ہی میں، کتنا ہی قرضہ چڑھا ہوا ہے اس کا تھوڑا سا اندازہ لگا لیتے ہیں اگرچہ ہم ریاضی دان نہیں ہیں اور جو دوسرے ظاہر و باطن قرضے چڑھے ہوئے ہیں وہ ایک الگ ہیں لیکن موٹے موٹے راونڈ فگرز میں پاکستان پر واجب الادا قرضہ صرف 15000 ارب بتایا جاتا ہے جو یقیناً ڈالروں میں ہو گا کیوں کہ بیرونی طور پر پاکستانی سکہ قابل قبول نہیں ہے۔
اب اس پندرہ ہزار ارب کو پاکستان مقروض پارٹی کے اراکین پر ڈال دیجیے جن کی تعداد تقریباً پندرہ کروڑ ہی ہو گی کیوں کہ ایک دو کروڑ لوگ وہ ہیں جو پی ایم پی کے نہیں دوسری پارٹیوں کے ممبرز ہیں اور پیدائشی طور پر اس قرضے کے دین دار نہیں ہیں کیوں کہ جس طرح قانون بنانے والے اور قانون بھگتنے والے الگ الگ ہوتے ہیں اسی طرح قرضہ لینے والے اور قرضہ دینے والے بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ جو قرضے لیتے ہیں وہ دیتے نہیں بلکہ معاف کراتے ہیں اور جو دیتے ہیں وہ لیتے نہیں کیوں کہ لیتے تو پھر دیتے کیسے؟ معاف کیوں نہ کراتے یہ تھوڑا سا الجبرے کا سوال ہے اس لیے صاف صاف بات یہ ہے کہ قرضہ بھی پندرہ ہزار ارب اور مقروض بھی پندرہ کروڑ، سیدھا سادا حساب ہے ہر کروڑ لوگوں کو ایک ہزار ارب دینا ہے۔
اگر صرف ایک سو ہوتے تو حساب آسان تھا لیکن معاملہ اب ہماری حساب دانی سے نکل گیا ہے اس لیے آپ خود ہی حساب کتاب کر کے طے کر لیجیے کہ اس میں سے کتنا آپ کو دینا ہے اور کتنا ان چوزوں کو جو ابھی انڈوں کے اندر ہی ہیں۔ ممکن ہے آپ کے ’’دل نادان‘‘ میں یہ خوش کن خیال آئے کہ پھر تو بات بن گئی ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں تو اس قرضے کو ادا کر ہی دیں گی۔ تو زیادہ نتھنے پھلانے کی ضرورت نہیں ادھر قرضہ چڑھانے والوں کی نسلیں بھی تو بانجھ نہیں ہوئی ہیں ان میں بھی تو اضافہ برابر جاری ہے چنانچہ آپ کی آنے والی نسلوں کے لیے ان کی آنے والی نسلیں بھی تو قرضہ لیں گی
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ’’ناخن‘‘ نہ بڑھ آئیں گے کیا
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
ایوب خان اور افغانستان کے مارشل فہیم کا لوگ اس وجہ سے مذاق اڑاتے ہیں کہ انھوں نے خود کو خود ہی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دے لی تھی لیکن یہ بھولے بادشاہ اتنا نہیں جانتے کہ پاکستان میں ایک سے ایک بڑھ کر مارشل پڑا ہوا ہے بلکہ ان میں کچھ مارشلائیں بھی ہیں جو نہ صرف خود کو ترقی دیتے ہیں بلکہ ایکسٹینشن بھی دے دیتے ہیں اور جہاں تک تاحیات مراعات کا تعلق ہے تو مارشل کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا چاہے وہ کوئی فوجی مارشل ہو یا سول مارشل ہو، ویسے ہونا بھی یہی چاہیے کیوں کہ جو لوگ عہدے پر رہ کر پاکستانی ’’روپے‘‘ کے خلاف جہاد کر کے اس کے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں تا حیات مراعات لینا ان کا حق ہو جاتا ہے۔
جنگ تو وہ کرتے رہے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کسی باہر کے دشمن پر حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا اور اپنے ہی ملک اور عوام پر حملہ آور ہو کر گزارنا پڑتا ہے لیکن جنگ تو جنگ ہوتی ہے چاہے کسی کے بھی خلاف لڑی گئی ہو۔ خیر تو آج کل بہت سارے بزرجمہر ’’تاحیات مراعات‘‘ پر انگشت نمائی کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ اس کا جواز کیا ہے یہ لوگ ایسا کیا کر چکے ہیں جو تاحیات مراعات کی جھولیاں بھر رہے ہیں حالانکہ عہدے پر رہتے ہوئے یہ اتنا کچھ اپنے گھروں بلکہ آس پاس کے گھروں میں بھی ڈال چکے ہیں کہ کم از کم سات پشتیں تو آرام سے کھا بھی سکتی ہیں اور دونوں ہاتھوں سے لٹا لٹا کر خرچ بھی کر سکتی ہیں اور نہ ہی یہ لوگ پہلے سے کچھ غریب یا تہی دست تھے سارے ہی ویمپائر خاندانوں سے ہیں۔
جو عرصہ دراز سے پہلے مغلیہ، سکھیہ یا انگریزیہ دور میں ویمپائر بنے تھے اور تب سے اب تک عوام کی شہ رگ میں اپنے دانت گاڑے ہوئے ہیں، ایسی گھٹیا اور ناقص قسم کی سوچ صرف اور صرف پاکستان مقروض پارٹی ہی کے کسی نادان دوست میں آ سکتی ہے آخر جب ان کے کارنامے تا حیات زندہ رہیں گے تو تا حیات مراعات کے حق دار کیوں نہیں ہوں گے۔ پاکستان پر چڑھا ہوا قرضہ، تقریباً تمام محکموں کا خسارہ اور جمہوریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مقروض پارٹی کا نصیبہ کر دیئے گئے ہیں یا نہیں؟ کیا یہ ان کے کارنامے نہیں ہیں؟ اب اتنے کارناموں کا صلہ کم از کم تا حیات مراعات تو ہونا ہی چاہیے نا
دے داد اے فلک دل حسرت پرست کی
ہاں کچھ نہ کچھ تلافی مافات چاہیے
ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے یہ سب کچھ مقروض پارٹی کے کچھ شر پسندوں کا کیا دھرا ہے جو اب تک کچھ بھی نہیں کہہ رہے تھے، لیکن ایک محترمہ نے اپنے لیے کچھ معمولی سی مراعات کیا منظور کروائیں کہ لوگ جل بھن کر رہ گئے۔ آپ جان گئے ہوں گے کہ ہمارا اشارہ اسپیکرہ محترمہ کی طرف ہے۔ انھوں نے اپنے لیے کچھ منظور فرمایا یا شوہر کے پچاس کروڑ کا قرضہ معاف فرمایا تو کیا قیامت ٹوٹ گئی، مرے پہ سو درے ہی کی تو بات ہے اور مراعات بھی کتنی حقیر سی، پانچ ملازم ایک بنگلہ اور اس کے اخراجات، زیادہ سے زیادہ بیس پچیس عام خاندانوں جتنا خرچہ ہی تو آئے گا اور پھر یہ بھی تو دیکھئے کہ بنگلے گاڑی دفتر اور ٹیلی فون کے لیے آٹھ دس لوگوں کو روزگار بھی تو مل جاتا ہے۔
یہ لوگ مثبت رخ تو دیکھتے نہیں ہمیشہ منفی پہلو پر ہی نظر رکھتے ہیں اور پھر پاکستان مقروض پارٹی ہے نا۔ اونٹ کی پیٹھ پر ایک چھلنی زیادہ رکھنے سے اونٹ کی کہیں کمر تو نہیں ٹوٹ جائے گی زیادہ سے زیادہ مر جائے گا لیکن جانور تو مرتے رہتے ہیں اور اپنی اولاد تو چھوڑ جاتے ہیں۔ اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں یعنی پاکستان مقروض پارٹی کتنی رقم کی دین دار ہے یعنی اس کے ہر رکن پر چاہے وہ پیدا ہوا ہو یا ابھی تک انڈے ہی میں، کتنا ہی قرضہ چڑھا ہوا ہے اس کا تھوڑا سا اندازہ لگا لیتے ہیں اگرچہ ہم ریاضی دان نہیں ہیں اور جو دوسرے ظاہر و باطن قرضے چڑھے ہوئے ہیں وہ ایک الگ ہیں لیکن موٹے موٹے راونڈ فگرز میں پاکستان پر واجب الادا قرضہ صرف 15000 ارب بتایا جاتا ہے جو یقیناً ڈالروں میں ہو گا کیوں کہ بیرونی طور پر پاکستانی سکہ قابل قبول نہیں ہے۔
اب اس پندرہ ہزار ارب کو پاکستان مقروض پارٹی کے اراکین پر ڈال دیجیے جن کی تعداد تقریباً پندرہ کروڑ ہی ہو گی کیوں کہ ایک دو کروڑ لوگ وہ ہیں جو پی ایم پی کے نہیں دوسری پارٹیوں کے ممبرز ہیں اور پیدائشی طور پر اس قرضے کے دین دار نہیں ہیں کیوں کہ جس طرح قانون بنانے والے اور قانون بھگتنے والے الگ الگ ہوتے ہیں اسی طرح قرضہ لینے والے اور قرضہ دینے والے بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ جو قرضے لیتے ہیں وہ دیتے نہیں بلکہ معاف کراتے ہیں اور جو دیتے ہیں وہ لیتے نہیں کیوں کہ لیتے تو پھر دیتے کیسے؟ معاف کیوں نہ کراتے یہ تھوڑا سا الجبرے کا سوال ہے اس لیے صاف صاف بات یہ ہے کہ قرضہ بھی پندرہ ہزار ارب اور مقروض بھی پندرہ کروڑ، سیدھا سادا حساب ہے ہر کروڑ لوگوں کو ایک ہزار ارب دینا ہے۔
اگر صرف ایک سو ہوتے تو حساب آسان تھا لیکن معاملہ اب ہماری حساب دانی سے نکل گیا ہے اس لیے آپ خود ہی حساب کتاب کر کے طے کر لیجیے کہ اس میں سے کتنا آپ کو دینا ہے اور کتنا ان چوزوں کو جو ابھی انڈوں کے اندر ہی ہیں۔ ممکن ہے آپ کے ’’دل نادان‘‘ میں یہ خوش کن خیال آئے کہ پھر تو بات بن گئی ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں تو اس قرضے کو ادا کر ہی دیں گی۔ تو زیادہ نتھنے پھلانے کی ضرورت نہیں ادھر قرضہ چڑھانے والوں کی نسلیں بھی تو بانجھ نہیں ہوئی ہیں ان میں بھی تو اضافہ برابر جاری ہے چنانچہ آپ کی آنے والی نسلوں کے لیے ان کی آنے والی نسلیں بھی تو قرضہ لیں گی
دوست غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ’’ناخن‘‘ نہ بڑھ آئیں گے کیا
بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس