زخم ہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں بیمار ترے

فوزیہ رباب

محفلین
دل میں تصویر تری آنکھ میں آثار ترے
زخم ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں بیمار ترے

اے شبِ رنج و الم دیکھ ذرا رحم تو کر
آہ کس کرب میں رہتے ہیں عزادار ترے

زعم ہے تجھ کو اگر اپنے قبیلے پہ تو سُن
میرے قدموں میں گرے تھے کبھی سردار ترے

آج بازار میں لائی گئی جب تیری شبیہ
بھاگتے دوڑتے آ پہنچے خریدار ترے

سامنے کیوں تری عصمت پہ اٹھی ہے انگلی
کیوں یہ چرچے ہیں مسلسل پسِ دیوار ترے

ان کے دکھ درد کا تجھ سے بھی مداوا نہ ہوا
اپنی حالت پہ جو ہنستے رہے فنکار ترے

مجھ سے پھر چھٹتے ہوئے ابرِ الم نے یہ کہا
آج کی شام پلٹ آئیں گے غمخوار ترے

جانے کیا رنگ رباب اب انہیں دے گی دنیا
کس قدر درد سے لبریز ہیں اشعار ترے

فوزیہ رباب
 
دل ہاتھوں میں یا جاں ہتھیلی پر تو سنا ہے یہ " زخم ہاتھوں میں " کیا ہے۔ اور پسِ دیوار چرچہ؟ پسِ دیوار چرچہ نہیں سازش ہوتی ہے۔ معذرت لیکن یہ غزل سوائے بحر بندی ، ناقابل فہم موضوعات اور زبردستی بھرتی کے الفاظ یا محض قافیہ پیمائی ہے۔
 
دل ہاتھوں میں یا جاں ہتھیلی پر تو سنا ہے یہ " زخم ہاتھوں میں " کیا ہے۔ اور پسِ دیوار چرچہ؟ پسِ دیوار چرچہ نہیں سازش ہوتی ہے۔ معذرت لیکن یہ غزل سوائے بحر بندی ، ناقابل فہم موضوعات اور زبردستی بھرتی کے الفاظ یا محض قافیہ پیمائی ہے۔
.
 
آخری تدوین:
Top