زرداری کی چھ گیندیں

انیسویں صدی کے آسٹریائی مدبر اور چانسلر میٹرنخ کا نام تاریخِ یورپ میں اس لیے رہے گا کیونکہ اس نے اس براعظم میں قیامِ امن کے لیے متحارب بادشاہتوں کو ایک معاہدے میں پرو دیا اور یوں میٹرنخ یورپی سیاست و سفارت کا وہ جادوگر کہلایا جو مورخ کے بقول بیک وقت مختلف سائز کی پانچ گیندیں ہوا میں اچھالنے پر قادر تھا۔ لیکن میٹرنخ کی یہ کرتب بازی بھی اس کے بعد یورپ کو ٹکراؤ سے نہ بچا سکی جس کا نتیجہ پہلی عالمگیر جنگ کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔

مجھے یقین ہے کہ دل اور کمر کی تکلیف میں مبتلا پاکستانی سیاست کے میٹرنخ آصف علی زرداری کو گیندیں ہوا میں اچھالنے کا تھکا دینے والا کرتب دکھانے کا بالکل شوق نہیں لیکن کیا کیا جائے کہ حالات نے انکے ہاتھ میں پانچ کے بجائے چھ گیندیں تھما دی ہیں۔

پہلی گیند پر امریکی جھنڈا بنا ہوا ہے۔ یہ گیند اس شرط پر اچھالنے کے لیے دی گئی ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ خداوندِ کریم کی وہ امانت ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کے توسط سے امریکی مشاورت کے ساتھ استعمال کریں گے۔

دوسری گیند صدر پرویز مشرف نے اسٹیبلشمنٹ کے چمڑے سے سی کر ملک محمد قیوم اور سید شریف الدین پیرزادہ کے ہاتھوں قومی مصالحتی آرڈیننس کے لفافے میں کرتب باز کے لیے بھجوائی ہے۔

تیسری گیند پر ورثے میں ملی پیپلز پارٹی کا نام لکھا ہوا ہے جسے بارہ برس کی صحرا نوردی کے بعد اقتدار کی چھاؤں نصیب ہوئی ہے اور پارٹی میں اوپر سے نیچے تک کسی کو شوق نہیں کہ اتنی محنت سے حاصل ہونے والے پھل دار درخت کی چھاؤں تھوڑے ہی عرصے میں اصول پسندی کی تیز دھوپ کی نذر ہو جائے۔

چوتھی گیند میاں نواز شریف کے نام کی ہے۔جسے فی الحال کسی صورت زمین پر نہیں گرنا چاہیے ورنہ کرتب دکھانے والے کا نہ صرف توازن بگڑ سکتا ہے بلکہ تماشائیوں میں ممکنہ ہلچل کے سبب شو بھی خراب ہو سکتا ہے۔

پانچویں گیند ایم کیو ایم کی ہے جسے سنبھالنا اگرچہ ایک کٹھن مرحلہ ہے لیکن اگر یہ ہاتھ سے چھوٹتی ہے تو سیدھی پاکستان کے اقتصادی پھیپھڑے یعنی کراچی پر گرے گی۔

اور چھٹی گیند عدلیہ کی ہے، جو سائز میں تو چھوٹی ہے لیکن گرم آلو کی طرح ہے۔ بھلے ہتھیلیاں جل جائیں لیکن کرتب باز کے مسکراتے چہرے کا رنگ تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔

کرتب باز کا فن یہ ہے کہ وہ کتنی دیر تک ان چھ گیندوں کو ہوا میں رکھ کر بھوکے پیٹ تماشائیوں کو سکتے میں رکھ سکتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ آصف علی زرداری کی سچویشن میں جو کوئی بھی ہوتا وہ اس کے سوا کیا کرتا جو زرداری صاحب کو کرنا پڑ رہا ہے۔

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

(بی بی سی ڈاٹ کام پر 27 اپریل 2008 کو شائع ہوا)
 
زرداری ایک اور گیند بلکہ گیندے کو بھی سنبھالے ہوئے ہے جو زیادہ مشکل کام ہے اور یہ گیند بار بار نیچے گربھی رہی ہے کیونکہ یہ نفرت و تعصب زدہ ان لالچی بلیوں کی ہے جو ملڑی کے جوتوں میں‌بیٹھی اس کرتب کو دیکھ رہی ہیں اور اس انتظار میں‌ہیں کہ کب یہ گیند گرے اور ان کی قسمت جاگے اور وہ یہ گیند اٹھا کر اپنے اقاوں سے انعام حاصل کریں۔
 

خرم

محفلین
ہمت بھائی زرداری تو خود ملٹری اور امریکہ سے سمجھوتے کر کے اقتدار میں آیا ہے۔ اس سے گیند لیکر ملٹری اور کسی کو گیند کیوں دے گی؟ جو پسندیدہ ہیں وہ ابھی تک انتقام کو نہیں بھولے اس لئے گیند ابھی زرداری کے پاس ہی رہے گی۔:)
 
ہمت بھائی زرداری تو خود ملٹری اور امریکہ سے سمجھوتے کر کے اقتدار میں آیا ہے۔ اس سے گیند لیکر ملٹری اور کسی کو گیند کیوں دے گی؟ جو پسندیدہ ہیں وہ ابھی تک انتقام کو نہیں بھولے اس لئے گیند ابھی زرداری کے پاس ہی رہے گی۔:)
ملڑی تو اپنی گیند اپنے پاس ہی رکھتی ہے وہ کسی کو نہیں‌دیتی۔ یہ تو اس نے ریٹائرڈ مشرف کو نہیں‌دی زرداری کو کیا دے گی۔ زرداری نے ملٹری سے نہیں‌مشرف سے ڈیل کی ہوگی۔ جس پر لالچی و تعصبی بلیوں کی گیند اب زرداری کے ہاتھ میں ہے جو اگر گرگئی تو منتظر بلیاں جھپٹ کر پھر ملڑی کے قدموں‌ میں سر رکھ دیں گی۔
 

خرم

محفلین
ارے بھولے ہمت بھائی۔ گیند کرائے پر دی جاتی ہے ہمیشہ۔ اس لئے کہ کسی میں بھی جرات نہیں کہ اس گیند کو اپنا سکے۔ سارے ہی کرایہ طے کرتے ہیں اور کچھ دیر گیند ہوا میں اچھال کر پھر یا تو خود ہی واپس کر دیتے ہیں یا پھر یہ ان سے واپس لے لی جاتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ جب آپ نے ایک چیز کرائے پر لی کسی سے تو اس کی ملکیت بھی اس چیز پر تسلیم کرلی۔ پھر شور مچانا ذرا ناانصافی لگتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
ہمت بھیا آداب عرض ہے۔۔
ابھی ابھی کراچی میں یکے بعد دیگرے7 بم دھماکے ہوئے ہیں۔
اس میں شور عوام مچا رہے ہیں۔۔ ان کو گیند کون دے گا ؟
اور دھماکے پٹھان اکثریتی مضافاتی پٹی پر ہوئے ہیں اس میں کردار
فرعونِ وقت مشرف کی چاپلوسی میں پیش پیش پی پی پی کے زردای
کی بغل بچہ اور حلیف گروہ ایم کیو ایم کا ہے 72 گھنٹے قبل موصوف
نے شراب کے نشہ میں بک دیا تھا کہ کراچی کو مذہبی انتہا پسندوں سے
خطرہ ہے ، اس بیان کے بعد یہ دھماکے ۔۔۔؟ چہ معنی است ؟؟ پہلے تو نہیں
ہوئے تھے ۔۔۔ جو ہوئے وہ شیعہ سنی فسادات کے نام پر ہوئے یا سیاسی ۔
ابھی ابھی موصوف ناے فرمایا کہ ’’عوام ’’متحد‘“ رہیں اور شر پسندوں پر ’’نظر‘“
رکھیں۔۔۔ ‘‘ ۔۔ کیسا بچگانہ بیان ہے نا۔۔ ہمت بھائی ۔۔۔ آئیے اس کو ڈی کوڈ کرتے
ہیں۔۔۔ ’’ خواص متحد رہیں (عوام مرتے رہیں)، شرپسند (ہمارے ہیں ) ۔۔۔
نظر نہ رکھیں ‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شروع میں حکومت نے احسن اقدام کیا تھا فاٹا میں
مذاکرات کرکے اس طرح کے معاملات پر قابو پالیا تھا ۔۔ پھر قادیانی رحمان ملک نے
اپنے تخم گیر۔۔۔۔۔ امریکی باپ دادا کی ایما پر آپریشن شروع کردیا ۔۔ اور یہ سلسلہ
اب پھر شروع ہوگیا ہے ۔۔ کل اسلام آباد۔ اور آج کراچی۔۔۔
حکومت کوچاہیئے کہ حوش کے ناخن لے۔۔ مشرف اور قافیے جس وجہ سے معطون ہوئے
Ppp بھی وہی کرنے جارہی ہے۔۔۔
عوام مرت ہیں تو مرتے رہیں۔۔۔ یہ بیانات کی جگالی کے بعد اپنے یخ بستہ کمروں میں
آرام کی نیند سوتے ہیں۔۔۔

والسلام
 

خرم

محفلین
مغل صاحب آپ کیا فاٹا میں جاری " قبائلی اسلامائزیشن" سے متفق ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا آپ اپنے اہل خانہ سمیت وہاں جا بسنے پر تیار ہیں؟ سوال ترش ہے لیکن کسی چیز کی حمایت اسی صورت کی جاسکتی ہے جب آپ اپنے لئے بھی وہی بہتر سمجھیں جو آپ اوروں کے لئے پسند کرتے ہیں۔ طالبان صرف اور صرف دین کی انتہائی غلط تشریح کے ذریعے تمام معاشرہ کو محکوم کرنا چاہتے ہیں۔ نہ ان کا قول سچا ہے اور نہ عمل اسلام اور شریعت پر ہے۔ خدا کے لئے ان کے گناہ میں حصہ دار نہ بنیں۔
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب آپ کیا فاٹا میں جاری " قبائلی اسلامائزیشن" سے متفق ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا آپ اپنے اہل خانہ سمیت وہاں جا بسنے پر تیار ہیں؟ سوال ترش ہے لیکن کسی چیز کی حمایت اسی صورت کی جاسکتی ہے جب آپ اپنے لئے بھی وہی بہتر سمجھیں جو آپ اوروں کے لئے پسند کرتے ہیں۔ طالبان صرف اور صرف دین کی انتہائی غلط تشریح کے ذریعے تمام معاشرہ کو محکوم کرنا چاہتے ہیں۔ نہ ان کا قول سچا ہے اور نہ عمل اسلام اور شریعت پر ہے۔ خدا کے لئے ان کے گناہ میں حصہ دار نہ بنیں۔


آداب جناب۔
یقیناً " قبائلی اسلامائزیشن" کے حق میں نہیں ہوں۔ جسے دیکھو رونا رو رہا ہوتا ہے کہ شریعت کا نظام شریعت کا نظام۔۔
ارے بھئی 6 فٹ کے جسم پر تو شریعت لاگو کرتے نہیں۔۔ ۔۔ اور۔۔ چلے ہیں زمین پر لاگو کرنے۔۔لیکن میں اس حق میں ضرور ہوں کہ یہ معاملہ جیسے کہ ہم سب نے دیکھا ہے کہ مذاکرات سے اچھا خاصا حل ہوا ہے۔۔تو اسلحہ کے زور سے کیوں۔۔۔ فساد پھیلایا جارہا ہے۔۔۔ رہی بات یہ کہ ’’غلط تشریح اور گمراہ کرنے کی‘‘ تو قبلہ آپ نے ایک مثل سنی ہوگی ’’ جس کا کھانا اسی کا گانا ‘‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا باسی ایسی ہی بات کرسکتا ہے۔اس تمام معاملے صرف ان سادہ لوح ’’طالبانوں‘‘ کا 10 فیصد حصہ ہے 90 فیصد استعمار (امریکہ برطانیہ اسرائیل بشمول پاکستانی ایجنسیوں)کایہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان ’’ طالبان ‘‘ کو بنایا کس نے تھا ،، اسلحہ ، تربیت اور ڈالرز کس نے دیئے تھے۔امریکہ روس کی جنگ میں پاکستان کے غداروں ( ملا رہنما صف اول ہیں اس میں ) نے اس ملک اور عوام کو جنگ کے جہنم میں جھونک دیا۔۔۔
موضوع توخیر تشنہ ہے ۔ مگر باقی آپ کے مراسلے کے بعد عرض کروں گا۔
والسلام
 

خرم

محفلین
مغل بھیا کیا حل ہوا مذاکرات سے؟ صرف یہ حل ہوا کہ طالبان نے مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے حامی تمام سرداروں کا جھٹکا کردیا۔ اور ہر امن معاہدہ کے بعد انہوں نے اپنی گرفت مزید علاقوں پر مضبوط کرلی۔ کیا حل صرف یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لئے سکون ہو اور اس کے بعد مزید لوگ اس جہنم میں گرفتار ہو جائیں؟ اگر طالبان کو سرحد میں اپنی حکومت کرنے کی آزادی دی جاسکتی ہے تو مجھے نارووال میں حکومت کرنے کی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی؟ مذاکرات سے معاملہ تب حل ہوا سمجھیں ہم جب طالبان نے افغانستان جا کر حملے کرنا، پاکستان میں لوگوں کو مارنا اور سکول وغیرہ جلانا بند کردیا ہو اور ایک محب وطن شہری کی طرح رہنا شروع کر دیا ہو۔ کوئی بھی چیز اس کے برعکس صرف ایک دھوکا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ باقی جہاں تک آپ کی مثال کی بات ہے تو بھیا کھاتے تو ہم صرف اللہ کا دیا ہیں۔ نہ ہم پر امریکہ کا کوئی احسان ہے اور نہ پاکستان کا۔ ہاں پاکستان سے اس لئے محبت ہے کہ آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ اس کا کوئی دین نہیں جسے اپنے وطن سے محبت نہیں۔ اور میں تو خواہشمند ہوں کہ میرا وطن اس دنیا کا سب سے خوشحال، سب سے ترقی یافتہ، سب سے طاقتور ملک ہو۔ اس مقصد کے لئے جو مجھے سے بن پڑتا ہے میں کرتا ہوں اور اللہ کا شکر ہے میرے دل کو یہ اطمینان ہے کہ پاکستان کو کبھی میری ذات کیوجہ سے نقصان نہیں پہنچا۔ دفتروں میں دھکے کھالئے لیکن اپنے آرام کے لئے رشوت دے کر کسی کا حق نہیں مارا۔ افسروں سے جھگڑا کر لیا لیکن کسی دلال کو پیسے دے کر کام نہیں نکلوایا۔ یہاں بھی شور مچاتے رہتے ہیں کہ شائد کسی کے دل میں ہماری بات اُتر جائے۔ جب اللہ اس سے بڑھ کر توفیق دے گا تو انشاء اللہ وہ بھی کر گزریں گے۔ باقی رہ گئی بات طالبان کے بنانے کی تو جنہوں نے بنایا ہے وہ مٹا بھی دیں گے۔ آپ کیوں ہمدردی کرتے ہیں ان سے؟ اگر ان لوگوں کی حکومت ہو گئی تو صائمہ کا کیا ہوگا؟ کبھی سوچا آپ نے؟ پھر کیوں ان سے ہمدردی؟ ایجنسیوں کا کام حکومتیں بدلنا یقیناً نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کوئی بھی ظلم کو ظلم سے بدلنے کی کوشش کرے اس کی حمایت کر دی جائے۔ پاکستان کے اندر صرف پاکستان کی عملداری ہونی چاہئے۔ پہلے آپ اپنے لوگوں سے اس کی پابندی کروائیں اور پھر دوسرے ممالک سے اس کی توقع کریں۔
 

مغزل

محفلین
خرم صاحب میں نے گزارش کی ہے نا کہ ۔۔ جو آپ دیکھ رہے ہیں اس میں 10 فیصد لوگ ’’طالبان‘‘ ہیں۔
باقی ’’ ظالمان‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ میں ان کا حامی نہیں ہوں۔۔ لیکن جو اچھائی برے میں بھی نظر آئے اسے تسلیم کرتا ہوں
یہ لوگ اپنی اقدار کے مارے ہوئے ہیں۔۔ دشمن بھی گھر آجائے ۔۔۔ تو خود کو تباہ کردیتے ہیں ۔۔ مگر گھر آئے مہمان
کی حفاظت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔پھر ایک بات اور کہ میں نے انہیں ۔۔۔ ان کے درمیان رہ کے دیکھا ہے۔۔ کہ یہ کیسے لوگ ہیں۔
میڈیا اور ایجنسی کی لن ترانیاں میری رائے نہیں بدل سکتیں۔۔۔ رہی بات صائمہ (آمنہ) کی تو ۔ میرا ایمان ہے ۔۔۔ اگر کبھی ایسا
وقت آگیا تو یہ لوگ میری بیٹی کی عزت اور حفاظت میرے ماں باپ اور خود مجھ سے بڑھ کے کریں گے۔۔ جب یہ روشن خیال
تماشہ دیکھنے والے اور تالیاں پیٹنے والے ہونگے۔۔۔۔

سڑکوں پہ ناچتی ہیں کنیزیں بتول کی
اور تالیاں بجاتی ہے ’’امت‘‘ رسول کی

والسلام
 

خرم

محفلین
بھیا یہیں ہیں جانا کہاں ہے۔ اپنی روایات اور اقدار کے مارے ہوئے ہیں۔ یہ بات آپ نے خوب کہی بھیا۔ وہ کیا کہا کرتے تھے مکہ کے لوگ کہ کیا ہم اس طریق کو چھوڑ دیں جو ہمارے باپ دادا کے دور سے چلا آرہا ہے؟ روایات پرستی اسی صورت میں قابل تعریف ہوتی ہے جب قانون اور انصاف کی سربلندی کے لئے ہو۔ اور ویسے بھی اگر یہ اتنے ہی روایت پسند ہیں جیسا کہ انہیں بتایا جاتا ہے تو پھر راتوں رات مورچے چھوڑ کر بغلی دروازے سے کیوں نکل گئے؟ افغانستان کی لڑائی لڑنے کے لئے عرب، ازبک اور دوسرے مقامات سے جہاز بھر بھر کے لوگ کیوں لائے گئے؟ ان کی روایت صرف ان کے پہاڑ ہیں وگرنہ ایک دن بھی نہیں لگتا ان روایات کی دُم سیدھی ہوتے ہوئے۔ معاف کیجئے گا میرے الفاظ کو لیکن میں تنگ آگیا ہوں یہ بڑھکیں سُن سُن کر۔ جب کوئی بات ہوئی بھاگ کر پہاڑ پر چڑھ گئے اور دُبک کر بیٹھ گئے۔ معاملہ ٹھنڈا ہوا تو پھر نیچے اُتر آئے اور پھر چھیڑ خانی شروع کردی۔ اتنے باہمت ہیں تو پھر جس میدان میں آکر اوروں کو لڑنے کا کہتے ہیں اسی میدان میں خود آکر ایک دفعہ معاملہ بے باق کرلیں۔
اور صائمہ (آمنہ) کے متعلق آپ نے بات کہی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی ایسا موقع آئے کہ اسے آپ کے سوا کسی اور کی ضرورت پڑے۔ باقی آپ کے اعتماد کے متعلق صرف یہ کہوں گا کہ انسانی تجارت میں ان لوگوں کے کردار پر کبھی ریسرچ کیجئے گا۔ جو لوگ کسی قاعدے کسی قانون کو نہیں مانتے، جہالت اور ہٹ دھرمی جن کے مزاج کا عضوکبیر ہے ان پر آپ اپنی بیٹی کے معاملہ میں بھروسا کیجئے گا؟ معاف کیجئے گا، میں بھی پختونوں کے قریب رہا ہوں اور انہیں میں نے کسی بھی دوسری قوم سے بڑھ کر دلیر، راست گو، وفادار نہیں دیکھا بلکہ اکثر معاملات میں تو بات اس سے قطعاً برعکس ہی نکلی جو ہمیں کتابوں میں رٹایا جاتا ہے۔
 
Top