فرخ منظور
لائبریرین
زرہِ صبر سے پیکانِ ستم کھینچتے ہیں
ایک منظر ہے کہ ہم دم ہمہ دم کھینچتے ہیں
شہر کے لوگ تو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مہر
اُن لکیروں سے عبارت ہے جو ہم کھینچتے ہیں
حکم ہوتا ہے تو سجدے میں جھکا دیتے ہیں سر
اذن ملتا ہے تو شمشیر دودم کھینچتے ہیں
ان ہی رستوں میں انہی خوں سے بھری گلیوں میں
کوئی دن اور کہ ہم لاشہ جم کھینچتے ہیں
آشیانوں کو پلٹتے ہوئے طائر سرِ شام
لوح اُمید پہ نقشِ غم وہم کھینچتے ہیں
ہم فقیروں کو تو بس نامِ خدا کافی ہے
ہم کہاں منتِ اربابِ حشم کھینچتے ہیں
(افتخار عارف)
ایک منظر ہے کہ ہم دم ہمہ دم کھینچتے ہیں
شہر کے لوگ تو اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مہر
اُن لکیروں سے عبارت ہے جو ہم کھینچتے ہیں
حکم ہوتا ہے تو سجدے میں جھکا دیتے ہیں سر
اذن ملتا ہے تو شمشیر دودم کھینچتے ہیں
ان ہی رستوں میں انہی خوں سے بھری گلیوں میں
کوئی دن اور کہ ہم لاشہ جم کھینچتے ہیں
آشیانوں کو پلٹتے ہوئے طائر سرِ شام
لوح اُمید پہ نقشِ غم وہم کھینچتے ہیں
ہم فقیروں کو تو بس نامِ خدا کافی ہے
ہم کہاں منتِ اربابِ حشم کھینچتے ہیں
(افتخار عارف)