گل زیب انجم
محفلین
نہیں جہاں بیگ وہاں ڈیسک نہیں جہاں ڈیسک وہاں بچے نہیں تھے . عقل حیران تھی کہ یہ کس قسم کا زلزلہ تھا. ایک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ چار دن لگاتار کام کرنے کے باوجود ابھی تک کسی زٹیچرز کی باڈی نہیں ملی تھی.
#
بیٹا تم بار بار اُس اندر آتے جاتے ہو تو مجھے ڈر لگتا ہے , اماں ...آپ ویسے ہی ڈرتی رہتی ہیں دیکھنا میں بھاگتے ہوئے جاؤں گا اور فوٹو اٹھا کر لے آؤنگا . ایسی بارش میں بھاگنا بھی ٹھیک نہیں اگر پھسل گے تو کوئی ہڈی ٹوٹ جائے گی . اچھا اماں میں دھیرے دھیرے جاتا ہوں . آپ اس پلیٹ میں کلیجی کی بوٹی نکال دیں , بھائی تڑکے میں بھنی ہوئی کلیجی خوش ہو کر کھاتے ہیں. اماں کو پلیٹ دے کر ابرار تیز قدموں سے مکان کے اندر چلا گیا . اماں کلیجی کی بوٹیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنے لگیں (کیا خبر تھی کہ کلیجہ تو پل بھر میں نکل جاتا ہے ). ابھی ایک دو بوٹیاں ہی نکالی تھیں کہ باہر سے ڈھپ... کی آواز سنائی دی . ... بھاگ کر خیمے سے باہر آئیں دیکھا تو مکان کی چھت دیواروں سیمت گر چکی تھی .... ابرار کدھر ہے ... ابھی یہ سوچ آئی ہی تھی کہ اوسان خطا ہو گے ... آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ... چھت ہی کی طرح گرنے والی تھیں کہ پڑوسن نے سہارا دیتے ہوئے لٹا دیں. آس پاس سے مرد فوراً دوڑے آئے کسی نے بیلچہ اور کسی نے کدال پکڑی فوراً ملبہ ہٹانے لگے تقریباً ایک گھنٹہ بعد ابرار کی لاش ملی تو اس حالت میں کہ بھائی کی فوٹو کو سینے سے لگائے ہوئے تھا جیسے حقیقت میں دونوں بھائی مل رہے ہیں .
#
بچوں کی بُکس نوٹ بُکس مل رہیں تھیں ایک نوٹ بک شفیق ملک نے اٹھائی الٹ پلٹ کر دیکھی اور پھر مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگے ذرا رائیٹنگ دیکھنا . وہ نوٹ بک فیفتھ کلاس کی کسی بچی کی تھی جو بہت ہی خوبصورت طریقے سے استعمال کی جا رہی تھی ہر پیج پر ڈیٹ منشن کی گئی تھی ڈیلی چیکنگ کے باعث ٹیچر کےسائن اور ریمارکس بھی درج تھے.مجھے نوٹ بک اچھی لگی اور بغیر کسی کو دکھائے (وہاں کے مقامی لوگوں کو ) اپنے پاس رکھ لی اس غرض سے کے فرصت کے وقت پڑھوں گا دوسرا میرا مقصد یہ تھا کہ اپنے سکول کے بچوں کو دکھاؤں گا .(اتفاق سے اُس وقت میں بھی ریڈ فاونڈیشن سکول میں مدارس کے فرائض انجام دے رہا تھا )تا کہ وہ بھی ایسی نوٹ بک تیار کیا کریں . بس اسی سوچ سے میں نے وہ نوٹ بک اپنی گاڑی میں رکھ لی .
#
یہ وہی ٹائم تھا جب حمید بس سٹاپ پر پہنچ چکا تھا. بارش لگی ہوئی تھی حمید نے سوچا شاید بارش سے بچنے کے لیے ابرار کسی چھت کے نیچے کھڑا ہو . لیکن چھت بھی تو کہیں نظر نہیں آ رہی تھی بجائے کھڑے رہ کر بھیگنے کے بہتر جانا کہ چلنا شروع کیا جائے یوں وقت کے ساتھ ساتھ سفر بھی کٹ جائے گا . یونہی سوچوں میں گم ابرار کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے چلتا رہا پھر ایک سوچ یہ آئی کہ کوئی نہ کوئی پرابلم ضرور ہے ورنہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ ابرار میرے آگے نہ آتا .
#
یہ دن باغ میں ہمارا آخری دن تھا . وہاں سے ہم مظفرآباد کے لیے عازم سفر ہوئے جب ہم نے مظفرآباد کا دومیل(دو دریاؤں کا سنگم) پُل کراس کیا اُس وقت سہ پہر کے چار بج رہے تھے . مظفرآباد ہمارا دیکھا ہوا شہر تھا لیکن ہم سوچ رہے تھے اگر ہم اکیلے ہوتے تو کبھی نہ پہچانتے . گھڑی پِن چوک سے لے کر طارق آباد کا علاقہ بلکل ملیامیٹ ہو چکا تھا .وہاں اگر کچھ دیکھنے کو تھا تو صرف سائیں سہیلی سرکار کا مزار تھا . مزار سے آگے پرانے سکرٹیریٹ کا ایریا تھا جو اب نہ ہونے کے برابر تھا بازار میں گیلانی ہوٹل اور سول جیل کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی . ہم سی ایم ایچ کی طرف گے اللہ پناہ ...... وہ پورا ایریا چٹیل میدان بنا ہوا تھا پوری بلڈنگ زمین بوس نہیں بلکہ زمین کے اندر دھنس گئی تھی وہ ہسپتال جو اشرف المخلوقات کے لیے جائے امان تھا اب اُس کا نام و نشان تک نہ تھا . یہاں سے ہم چہلہ بانڈی یونیورسٹی کی طرف گے لیکن کیا گے کے وہ بھی اپنی تمام تر تعلیمی دولت کے ساتھ وہاں سے غائب تھی , تاہم ہاسٹل کی ایک عمارت یونیورسٹی کا پتہ دے رہی تھی دریں اثنا ہمارے دوست پروفیسر وحید مراد نے وہ کمرا دکھایا جس کی بالکونی سے انہوں نے چھلانگ لگائی تھی . وہ چھلانگ لگانے سے عمارت کا ملبہ بننے سے تو بچ گئے تھے لیکن یہی ایک بہانہ بنا تھا جس سے اُن کے دونوں مہرے(بیک بون ڈیسک ) سلِپ ہو گئے تھے اور وہ تاحال اُسی عرضے میں مبتلا ہیں . چہلہ بانڈی سے ہم نثار کیمپ کی طرف گے جہاں کا ایک واقعہ میں نے پہلے بتا دیا تھا کہ چند گرین کارڈ اولڈر معصوم اور مصیبت زدہ لوگوں کو جھانسہ دے کر جہلم پکے مکانوں میں لے جانا چاہتے تھے ,لیکن ہماری بروقت انٹری سے اُن کے ادھورے رہ گئے.
شام کا اندھیرا چھائے جا رہا تھا اس لیے ہم واپس العباس ہوٹل آ گئے . وہی ہم نے افطاری کی پھر نماز ادا کی . سردی اور تھکاوٹ نے ستایا تو اسی ہوٹل میں کمرہ لے لیا اور سستانے کی غرض سے لیٹ گئے .
ہمیں جو کمرہ ملا ہمیں ملنے سے پہلے وہ اسٹور ہوا , کیوں کہ پیاز آلو اور دوسری چیزوں کی سیمل یہی پتہ دے رہی تھی اس لیے ہم نے ہوٹل مینجر سے کمرہ بدلنے کا کہا . اب جو کمرہ کمرہ ملا وہ تھا تو کمرہ لیکن زلزلے کے جھٹکوں نے اس کی دیواروں میں بڑی بڑی دراڑیں ڈال دی تھیں ہم سونے کے لیے آئے تھے لیکن کمرے کی صورتحال نے ہماری نیند اُڑا دی آخر رات بارہ بجے دوبارہ چائے کا ارڈر دیا چائے کے آنے تک ہم ایک اور پروگرام بنا چکے تھے . چائے پی کر ہم باہر آ گئے . ہوٹل کے عملے نے ہمیں دیکھا تو پریشان ہو گئے لیکن ہم نے انہیں صرف اتنا کہا کے ہمیں بالا کوٹ جانا ہے .وہ پریشان تھے کہ ریٹرن منی کا مطالبہ کریں گے لیکن ہم نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا اور بالا کوٹ کے لیے روانہ ہو گئے .
ہم نے نیلم برج کراس کیا اور لوہار گلی کی طرف ٹرن لے لیا . لوہار گلی کے بڑے موڑ پہنچ کر ایک ایمبولینس کو راستہ دیا جو ہمارے پیچھے آ رہی تھی .، رستہ دینے کے لیے ایک گاڑی کو مکمل روکنا پڑتا تھا تب دوسری گاڑی کراس ہو سکتی تھی . ایمبولینس والوں سے ایمرجنسی کے متعلق پوچھا تو بتانے لگے العباس ہوٹل کی شمالاً دیوار گر گئی ہے جس سے چار زخمی اور دو آدمی مر گئے ہیں اب سیریس مریضوں کو ایبٹ آباد لے کر جا رہے ہیں .
ہم سب ایک دوسرے کا مونہہ دیکھنے لگے کیوں کہ یہ وہی دیوار تھی جس نے ہماری نیند چُرا لی تھی .
گڑھی حبیب اللہ سے دائیں ٹرن لے کر بالا کوٹ کو روانہ ہو گئے . راستے میں ایک جگہ چائے پی کر پھر بالا کوٹ کی طرف روانہ ہو ئے .
سحری کے وقت ہم بالا کوٹ پہنچ چکے تھے جہاں لوگ سڑک کنارے ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے اور جسم کو گرم رکھنے کے لیے لکڑیوں کی آگ تاپ رہے تھے . ہم نے سڑک کنارے کنارے ایک چکر لگایا ایک مناسب جگہ دیکھ کر کچھ آدمیوں سے کھانے کا پوچھا کہنے لگے صرف ابلے چاول ہیں اور کچھ نہیں ہے . ہم نے کہا ہمارے پاس چاول اور دال بھی ہے صرف پکا کر دے دو انہوں نے حامی بھر لی . تھوڑی دیر میں انہوں نے دال چاول مکس ہی بنا کر دے دیے جو ہم نے سحری کے کھانے کی حثیت سے کھا کر روزہ رکھ لیا . تھوڑی روشنی پھیلی تو ارد گرد دیکھا . سنا کرتے تھے کہ بالا کوٹ بہت خوب صورت علاقہ ہے آج ہم اسے بانفس نفیس دیکھ رہے تھے . آج بھی کھنڈرات سے لگتا تھا کہ محل خوب صورت ہوا ہو گا . برلب دریا سانپ کی طرح رینگتی سڑک کے دونوں کناروں پہ بنی دکانیں دکانوں کے عقب میں اور پہاڑ کے دامن میں بنی بستی دریا کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے پُل پُل کے اوپر تھڑا بانوں اور چھابڑی پھیروں کا رش سبزیوں اور سواریوں سے لدی جیپیں ہمہ وقت پُل سے آر پار آتی جاتی . سب کچھ ہوا ہو گا لیکن اب سب کچھ ملبے کا ڈھیر تھا . پُل کے مغربی کنارے پر بنی ایک خوبصورت مسجد تھی جو باذوق لوگوں کے ذوق کا پتہ دے رہی تھی زلزلے سے جنوبی کونہ شہید ہو چکا تھا لیکن پھر بھی خوبصورت لگ رہی تھی دو تین الیکٹرونکس کی دکانیں تھی جو آدھی زمین کے اندر اور آدھی باہر تھی لیکن اُن کی چھت اس طرح سے سامان کے اوپر بیٹھ گئ تھی کہ کوئی سامان نکال نہیں سکتا تھا . پُل کے نیچے سے وادی کاغان سے نکلتا ہوا دریاِ کاغان بہہ رہا تھا جس کا پانی نیلگوں تھا. خدا کی قدرت تھی کہ پہاڑی علاقہ بارشوں کا موسم زلزلے سے جبکہ پہاڑ کھیت کھلیان مکانات اور سڑکیں دریا برد ہو چکی تھیں لیکن پھر پانی کے رنگ میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا . یہی دریا دریائے کنہار اور دریائے شفاء کے نام سے بھی مشہور ہے . بہت لمبی مسافت کے بعد مظفرآباد ریڑا کے مقام پر دریائے جہلم میں گر کر اسی نام سے منسوب ہو جاتا ہے .
#
اُس نے ایک ابھری ہوئی جگہ پونہچ کر اپنے گاؤں کی طرف دیکھا جہاں صرف خیمہ بستی ہی نظر آ رہی تھی کسی مکان نام کی کوئی چیز نہیں تھی زہن میں خیال آیا کہ ابرار نے کہا تھا ہمارا مکان ابھی باقی ہے ..... تھوڑا چلا پھر رک کر نگاہ ڈالی لیکن کہیں مکان نظر نہیں آیا . سوچا شاید بارش کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا . ایک نشیب کے بعد نالہ پار کیا پھر اونچائی کی طرف بڑھنے لگا . کچھ دیر چلنے کے بعد ایسی جگہ پونہچ گیا جہاں سے گاؤں واضح نظر آنے لگا . جب گاؤں واضح نظر آنے لگا تو تب خدشات بھی بڑھنے لگے لوگوں کو ایک ہی جگہ جمع دیکھ کر پریشان ہوا اور خیالانہ گردن ہلاتے ہوئے گویا ہوا ضرور کوئی نیا حادثہ ہوا ہے جس وجہ سے ابرار آگے نہیں آیا .
اب حمید نے رفتار تیز کر لی، بارش پھسلن راستے کے نشب و فراز سبھی تو تھکن کا سبب بنے ہوئے تھے پھر بھی انجانے خدشے کے تحت جلد قدم اٹھانے لگا . تقریباً بیس پچیس منٹ کے بعد گھر پہنچ چکا تھا جہاں کچھ لوگ ابرار کو بھائی سے ملانے کے لیے نہلا رہے تھے . سر سے اب بھی تازہ تازہ خون نکل رہا تھا . ابرار کا غسل آخر دیکھ کر حمید سے صبر و ضبط کا دامن چھوٹ گیا. بیشک حمید ایک جری مرد اور دلیر فوجی تھا لیکن آنسوؤں اور آہوں سے کہاں چارہ تھا . حالات کے پیش نظر تدفین کا کام جلد کیا گیا لیکن درد تھا کے مندمل ہی نہیں ہو رہا تھا .ابرار کی یادیں جگہ جگہ بسیرا کیے ہوئے تھیں . تڑکے سے کلیجی لے کر رکھنا , اماں سے باتیں کرنا اپنی ناراضگی جتلانا پھر فوٹو کو دیکھنے بار بار جانا آخر وہی فوٹو سینے سے لگائے ہوئے ایفائے عہد کر جانا کہ میں بھائی سے نہیں ملوں گا.
#
بالا کوٹ واقع بہت ہی بلند پہاڑ تھا اور اس پہاڑ پر صرف دو ہی مکان تھے اور دونوں ایسے تھے جنھیں زلزلے کی خبر تک نہ ہوئی . جبکہ اس پہاڑ کے دامن میں آباد بستی کا کوئی اَتا پتا تک نہ تھا. پُل کے اُس پار ایک مسجد بچی تھی اور کوٹ کے اوپر دو مکان ، جو لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ " وہی اللہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے سات آسمان بنائے اور کھڑے کر دیے " .
عقل حیران تھی کہ کوٹ (پہاڑ ) کے اوپر والے لوگ کہہ رہے تھے جب زلزلہ آیا اس وقت ہم مکان کے اندر تھے ہم نے صرف ایک گونج سی سنی جب باہر نکل کر بازار کی طرف دیکھا تو یہی پتہ چل رہا تھا کہ زمین کا پیٹ پھٹ چکا ہے اور ساری دنیا اندر دھنستی جا رہی ہے . پُل کے اس پار جو ہوٹل تھا اُس کی چار منزلہ تھا لیکن صرف چوتھی منزل کی چھت نظر آ رہی تھی باقی منزلیں کہاں گئی اللہ ہی جانتا ہے .
صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے میں پُل پہ کھڑا نیلگوں شفاف پانی کو دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی بالا کوٹ کے متعلق سوچ رہا کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی نمبر دیکھا تو میری والدہ ماجدہ کا تھا او کے کی پریس کرتے ہی جلدی سے پہلے بسم اللہ اور پھر السلام علیکم کہا . انہوں نے ہماری عافیت جاننے کے بعد گھر لوٹنے کا حکم فرمایا . ہم اُسی دن بالا کوٹ کو خیر آباد کہتے ہوئے براستہ ایبٹ آباد راولپنڈی آئے اور پھر گھر روانہ ہو گئے . ایبٹ آباد شہر میں ہماری گاڑی ایسی گاڑی سے ٹکرا گئی جسمیں قانون ہی قانون یعنی سول جج صاحب بیٹھے ہوئے تھے لیکن مسلہء ادھر اُدھر سے سوری کہہ لینے سے ہی ختم ہو گیا .اس وقت گاڑی ڈاکٹر اعجاز ڈرائیو کر رہے تھے شبریز تیلا جو لاسٹ سیٹ پر برجمان تھے آواز لگانے کے انداز میں پوچھنے لگے ڈاکٹر جی گاڑی کیسے ٹکرائی ہے . ڈاکٹر اعجاز کہنے لگے دونوں گاڑیوں کے بیچ وقفہ کم تھا اُن کے اچانک بریک لگانے سے گاڑی ٹکرا گئی . شبریز تیلا جو پہلے ہی اسی تاڑ میں تھے کہنے لگے کیا آپ نے یہ نہیں پڑھا کہ اولاد میں اور گاڑی میں وقفہ ضروری ہے . ان کا یہ کہنا ہی تھا کہ سب ساتھیوں کا قہقہ نکل گیا .
یوں ہم صبح نو بجے کے چلے ہوئے دوسرے دن کی سحری کے وقت گھر پہونچے . دن کا کچھ حصہ سونے میں اور کچھ باتوں میں گزر گیا . اسی رات نماز تراویح کے لیے مسجد گیا تو بعد نماز تراویح ایک مولانا کی تقریر سنُی جو اس غرض سے تقریر فرما رہے تھے کہ ہمارے ہاں متاثرین زلزلہ خیمہ زن ہیں جن کے لیے کپڑے اور بستر وغیرہ چاہیے . مولانا ریلیف لینے چکوال سے کشمیر تشریف لائے تھے اور جو واعظ فرما رہے تھے اس میں حسب روایات طوالت کے لیے (کیوں کے اکثر مولوی بات کی گہرائی کو لمبائی سے پورا کرتے ہیں) بار بار یہ الفاظ دھرا رہے تھے جب لوگ اللہ کے نافرمان ہو جاتے تو اُن پر عذاب نازل ہو جاتا ہے . اُدھر فحاشی پھیل چکی تھی لوگ نافرمان ہو چکے تھے اس لیے زلزلہ آیا ہے . اب مولانا کشمیر سے کشمیریوں کے لیے چندا جمع کر رہے تھے اور ساتھ ہی کشمیریوں کو موردالزام ٹھہرا رہے تھے . تب ہمارے ایک دوست چودھری محمود شاہد (اللہ اُن پر اپنی رحمت فرمائے ، آج ہم میں جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں ) جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اُنہوں نے مولوی صاحب پر ایک سوال کیا، کہ مولانا صاحب بتائیے گا کے زلزلہ نظامِ قدرت ہے یا کے عذاب قدرت ہے ! اور اگر یہ عذاب قدرت تھا تو پھر کشمیر کے دوسرے اضلاع پر کیوں نہیں آیا . آزاد کشمیر تو سارا ایک جیسا ہے . تب مولانا صاحب اپنے سفید چٹے دانتوں کا درشن کراتے ہوئے کہنے لگے او جی آپ تو ماشاء اللہ وکیل ہیں میں آپ کو کیا بتاؤں.
دوسرے دن کی صبح تک ہم فریش ہو چکے تھے نارمل تیاری کے بعد ہم سکول گے. اسٹاف سے ملے اور اُن کو بھی پوری داستانِ سفر اور روئیداد زلزلہ سنائی. بچے (سٹوڈنٹس ) بھی ہماری باتیں سُن رہے تھے . اس وقت ہمارے پاس سینئر کلاس ساتویں تھی ہم نے وہ نوٹ بک ان کو دکھائی جو ہم وہاں سے ساتھ لائے تھے. ہم مصروفیات کے باعث وہ نہ پڑھ سکے تھے. جب وہی نوٹ بک ہمارے
سکول کی ٹیچر نے دیکھی تو اُس کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں. تھوڑی دیر اور نوٹ بک دیکھتے رہنے کے بعد آبدیدہ آنکھیں خشک کرتے ہوئے کہنے لگی سر (sir) کیا آپ جانتے ہیں کے اس بچی کو 9 اکتوبر کے لیے کیا ہوم ورک ملا تھا ? ہم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں . تب اُس نے وہ کیوسچن دکھایا جس کا جواب بچی نے 9 اکتوبر 2005 کو لیکھ کر چیک کروانا تھا کہ " زلزلے کیوں آتے ہیں ".
#
بیٹا تم بار بار اُس اندر آتے جاتے ہو تو مجھے ڈر لگتا ہے , اماں ...آپ ویسے ہی ڈرتی رہتی ہیں دیکھنا میں بھاگتے ہوئے جاؤں گا اور فوٹو اٹھا کر لے آؤنگا . ایسی بارش میں بھاگنا بھی ٹھیک نہیں اگر پھسل گے تو کوئی ہڈی ٹوٹ جائے گی . اچھا اماں میں دھیرے دھیرے جاتا ہوں . آپ اس پلیٹ میں کلیجی کی بوٹی نکال دیں , بھائی تڑکے میں بھنی ہوئی کلیجی خوش ہو کر کھاتے ہیں. اماں کو پلیٹ دے کر ابرار تیز قدموں سے مکان کے اندر چلا گیا . اماں کلیجی کی بوٹیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنے لگیں (کیا خبر تھی کہ کلیجہ تو پل بھر میں نکل جاتا ہے ). ابھی ایک دو بوٹیاں ہی نکالی تھیں کہ باہر سے ڈھپ... کی آواز سنائی دی . ... بھاگ کر خیمے سے باہر آئیں دیکھا تو مکان کی چھت دیواروں سیمت گر چکی تھی .... ابرار کدھر ہے ... ابھی یہ سوچ آئی ہی تھی کہ اوسان خطا ہو گے ... آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ... چھت ہی کی طرح گرنے والی تھیں کہ پڑوسن نے سہارا دیتے ہوئے لٹا دیں. آس پاس سے مرد فوراً دوڑے آئے کسی نے بیلچہ اور کسی نے کدال پکڑی فوراً ملبہ ہٹانے لگے تقریباً ایک گھنٹہ بعد ابرار کی لاش ملی تو اس حالت میں کہ بھائی کی فوٹو کو سینے سے لگائے ہوئے تھا جیسے حقیقت میں دونوں بھائی مل رہے ہیں .
#
بچوں کی بُکس نوٹ بُکس مل رہیں تھیں ایک نوٹ بک شفیق ملک نے اٹھائی الٹ پلٹ کر دیکھی اور پھر مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگے ذرا رائیٹنگ دیکھنا . وہ نوٹ بک فیفتھ کلاس کی کسی بچی کی تھی جو بہت ہی خوبصورت طریقے سے استعمال کی جا رہی تھی ہر پیج پر ڈیٹ منشن کی گئی تھی ڈیلی چیکنگ کے باعث ٹیچر کےسائن اور ریمارکس بھی درج تھے.مجھے نوٹ بک اچھی لگی اور بغیر کسی کو دکھائے (وہاں کے مقامی لوگوں کو ) اپنے پاس رکھ لی اس غرض سے کے فرصت کے وقت پڑھوں گا دوسرا میرا مقصد یہ تھا کہ اپنے سکول کے بچوں کو دکھاؤں گا .(اتفاق سے اُس وقت میں بھی ریڈ فاونڈیشن سکول میں مدارس کے فرائض انجام دے رہا تھا )تا کہ وہ بھی ایسی نوٹ بک تیار کیا کریں . بس اسی سوچ سے میں نے وہ نوٹ بک اپنی گاڑی میں رکھ لی .
#
یہ وہی ٹائم تھا جب حمید بس سٹاپ پر پہنچ چکا تھا. بارش لگی ہوئی تھی حمید نے سوچا شاید بارش سے بچنے کے لیے ابرار کسی چھت کے نیچے کھڑا ہو . لیکن چھت بھی تو کہیں نظر نہیں آ رہی تھی بجائے کھڑے رہ کر بھیگنے کے بہتر جانا کہ چلنا شروع کیا جائے یوں وقت کے ساتھ ساتھ سفر بھی کٹ جائے گا . یونہی سوچوں میں گم ابرار کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے چلتا رہا پھر ایک سوچ یہ آئی کہ کوئی نہ کوئی پرابلم ضرور ہے ورنہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ ابرار میرے آگے نہ آتا .
#
یہ دن باغ میں ہمارا آخری دن تھا . وہاں سے ہم مظفرآباد کے لیے عازم سفر ہوئے جب ہم نے مظفرآباد کا دومیل(دو دریاؤں کا سنگم) پُل کراس کیا اُس وقت سہ پہر کے چار بج رہے تھے . مظفرآباد ہمارا دیکھا ہوا شہر تھا لیکن ہم سوچ رہے تھے اگر ہم اکیلے ہوتے تو کبھی نہ پہچانتے . گھڑی پِن چوک سے لے کر طارق آباد کا علاقہ بلکل ملیامیٹ ہو چکا تھا .وہاں اگر کچھ دیکھنے کو تھا تو صرف سائیں سہیلی سرکار کا مزار تھا . مزار سے آگے پرانے سکرٹیریٹ کا ایریا تھا جو اب نہ ہونے کے برابر تھا بازار میں گیلانی ہوٹل اور سول جیل کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی . ہم سی ایم ایچ کی طرف گے اللہ پناہ ...... وہ پورا ایریا چٹیل میدان بنا ہوا تھا پوری بلڈنگ زمین بوس نہیں بلکہ زمین کے اندر دھنس گئی تھی وہ ہسپتال جو اشرف المخلوقات کے لیے جائے امان تھا اب اُس کا نام و نشان تک نہ تھا . یہاں سے ہم چہلہ بانڈی یونیورسٹی کی طرف گے لیکن کیا گے کے وہ بھی اپنی تمام تر تعلیمی دولت کے ساتھ وہاں سے غائب تھی , تاہم ہاسٹل کی ایک عمارت یونیورسٹی کا پتہ دے رہی تھی دریں اثنا ہمارے دوست پروفیسر وحید مراد نے وہ کمرا دکھایا جس کی بالکونی سے انہوں نے چھلانگ لگائی تھی . وہ چھلانگ لگانے سے عمارت کا ملبہ بننے سے تو بچ گئے تھے لیکن یہی ایک بہانہ بنا تھا جس سے اُن کے دونوں مہرے(بیک بون ڈیسک ) سلِپ ہو گئے تھے اور وہ تاحال اُسی عرضے میں مبتلا ہیں . چہلہ بانڈی سے ہم نثار کیمپ کی طرف گے جہاں کا ایک واقعہ میں نے پہلے بتا دیا تھا کہ چند گرین کارڈ اولڈر معصوم اور مصیبت زدہ لوگوں کو جھانسہ دے کر جہلم پکے مکانوں میں لے جانا چاہتے تھے ,لیکن ہماری بروقت انٹری سے اُن کے ادھورے رہ گئے.
شام کا اندھیرا چھائے جا رہا تھا اس لیے ہم واپس العباس ہوٹل آ گئے . وہی ہم نے افطاری کی پھر نماز ادا کی . سردی اور تھکاوٹ نے ستایا تو اسی ہوٹل میں کمرہ لے لیا اور سستانے کی غرض سے لیٹ گئے .
ہمیں جو کمرہ ملا ہمیں ملنے سے پہلے وہ اسٹور ہوا , کیوں کہ پیاز آلو اور دوسری چیزوں کی سیمل یہی پتہ دے رہی تھی اس لیے ہم نے ہوٹل مینجر سے کمرہ بدلنے کا کہا . اب جو کمرہ کمرہ ملا وہ تھا تو کمرہ لیکن زلزلے کے جھٹکوں نے اس کی دیواروں میں بڑی بڑی دراڑیں ڈال دی تھیں ہم سونے کے لیے آئے تھے لیکن کمرے کی صورتحال نے ہماری نیند اُڑا دی آخر رات بارہ بجے دوبارہ چائے کا ارڈر دیا چائے کے آنے تک ہم ایک اور پروگرام بنا چکے تھے . چائے پی کر ہم باہر آ گئے . ہوٹل کے عملے نے ہمیں دیکھا تو پریشان ہو گئے لیکن ہم نے انہیں صرف اتنا کہا کے ہمیں بالا کوٹ جانا ہے .وہ پریشان تھے کہ ریٹرن منی کا مطالبہ کریں گے لیکن ہم نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا اور بالا کوٹ کے لیے روانہ ہو گئے .
ہم نے نیلم برج کراس کیا اور لوہار گلی کی طرف ٹرن لے لیا . لوہار گلی کے بڑے موڑ پہنچ کر ایک ایمبولینس کو راستہ دیا جو ہمارے پیچھے آ رہی تھی .، رستہ دینے کے لیے ایک گاڑی کو مکمل روکنا پڑتا تھا تب دوسری گاڑی کراس ہو سکتی تھی . ایمبولینس والوں سے ایمرجنسی کے متعلق پوچھا تو بتانے لگے العباس ہوٹل کی شمالاً دیوار گر گئی ہے جس سے چار زخمی اور دو آدمی مر گئے ہیں اب سیریس مریضوں کو ایبٹ آباد لے کر جا رہے ہیں .
ہم سب ایک دوسرے کا مونہہ دیکھنے لگے کیوں کہ یہ وہی دیوار تھی جس نے ہماری نیند چُرا لی تھی .
گڑھی حبیب اللہ سے دائیں ٹرن لے کر بالا کوٹ کو روانہ ہو گئے . راستے میں ایک جگہ چائے پی کر پھر بالا کوٹ کی طرف روانہ ہو ئے .
سحری کے وقت ہم بالا کوٹ پہنچ چکے تھے جہاں لوگ سڑک کنارے ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے اور جسم کو گرم رکھنے کے لیے لکڑیوں کی آگ تاپ رہے تھے . ہم نے سڑک کنارے کنارے ایک چکر لگایا ایک مناسب جگہ دیکھ کر کچھ آدمیوں سے کھانے کا پوچھا کہنے لگے صرف ابلے چاول ہیں اور کچھ نہیں ہے . ہم نے کہا ہمارے پاس چاول اور دال بھی ہے صرف پکا کر دے دو انہوں نے حامی بھر لی . تھوڑی دیر میں انہوں نے دال چاول مکس ہی بنا کر دے دیے جو ہم نے سحری کے کھانے کی حثیت سے کھا کر روزہ رکھ لیا . تھوڑی روشنی پھیلی تو ارد گرد دیکھا . سنا کرتے تھے کہ بالا کوٹ بہت خوب صورت علاقہ ہے آج ہم اسے بانفس نفیس دیکھ رہے تھے . آج بھی کھنڈرات سے لگتا تھا کہ محل خوب صورت ہوا ہو گا . برلب دریا سانپ کی طرح رینگتی سڑک کے دونوں کناروں پہ بنی دکانیں دکانوں کے عقب میں اور پہاڑ کے دامن میں بنی بستی دریا کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے پُل پُل کے اوپر تھڑا بانوں اور چھابڑی پھیروں کا رش سبزیوں اور سواریوں سے لدی جیپیں ہمہ وقت پُل سے آر پار آتی جاتی . سب کچھ ہوا ہو گا لیکن اب سب کچھ ملبے کا ڈھیر تھا . پُل کے مغربی کنارے پر بنی ایک خوبصورت مسجد تھی جو باذوق لوگوں کے ذوق کا پتہ دے رہی تھی زلزلے سے جنوبی کونہ شہید ہو چکا تھا لیکن پھر بھی خوبصورت لگ رہی تھی دو تین الیکٹرونکس کی دکانیں تھی جو آدھی زمین کے اندر اور آدھی باہر تھی لیکن اُن کی چھت اس طرح سے سامان کے اوپر بیٹھ گئ تھی کہ کوئی سامان نکال نہیں سکتا تھا . پُل کے نیچے سے وادی کاغان سے نکلتا ہوا دریاِ کاغان بہہ رہا تھا جس کا پانی نیلگوں تھا. خدا کی قدرت تھی کہ پہاڑی علاقہ بارشوں کا موسم زلزلے سے جبکہ پہاڑ کھیت کھلیان مکانات اور سڑکیں دریا برد ہو چکی تھیں لیکن پھر پانی کے رنگ میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا . یہی دریا دریائے کنہار اور دریائے شفاء کے نام سے بھی مشہور ہے . بہت لمبی مسافت کے بعد مظفرآباد ریڑا کے مقام پر دریائے جہلم میں گر کر اسی نام سے منسوب ہو جاتا ہے .
#
اُس نے ایک ابھری ہوئی جگہ پونہچ کر اپنے گاؤں کی طرف دیکھا جہاں صرف خیمہ بستی ہی نظر آ رہی تھی کسی مکان نام کی کوئی چیز نہیں تھی زہن میں خیال آیا کہ ابرار نے کہا تھا ہمارا مکان ابھی باقی ہے ..... تھوڑا چلا پھر رک کر نگاہ ڈالی لیکن کہیں مکان نظر نہیں آیا . سوچا شاید بارش کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا . ایک نشیب کے بعد نالہ پار کیا پھر اونچائی کی طرف بڑھنے لگا . کچھ دیر چلنے کے بعد ایسی جگہ پونہچ گیا جہاں سے گاؤں واضح نظر آنے لگا . جب گاؤں واضح نظر آنے لگا تو تب خدشات بھی بڑھنے لگے لوگوں کو ایک ہی جگہ جمع دیکھ کر پریشان ہوا اور خیالانہ گردن ہلاتے ہوئے گویا ہوا ضرور کوئی نیا حادثہ ہوا ہے جس وجہ سے ابرار آگے نہیں آیا .
اب حمید نے رفتار تیز کر لی، بارش پھسلن راستے کے نشب و فراز سبھی تو تھکن کا سبب بنے ہوئے تھے پھر بھی انجانے خدشے کے تحت جلد قدم اٹھانے لگا . تقریباً بیس پچیس منٹ کے بعد گھر پہنچ چکا تھا جہاں کچھ لوگ ابرار کو بھائی سے ملانے کے لیے نہلا رہے تھے . سر سے اب بھی تازہ تازہ خون نکل رہا تھا . ابرار کا غسل آخر دیکھ کر حمید سے صبر و ضبط کا دامن چھوٹ گیا. بیشک حمید ایک جری مرد اور دلیر فوجی تھا لیکن آنسوؤں اور آہوں سے کہاں چارہ تھا . حالات کے پیش نظر تدفین کا کام جلد کیا گیا لیکن درد تھا کے مندمل ہی نہیں ہو رہا تھا .ابرار کی یادیں جگہ جگہ بسیرا کیے ہوئے تھیں . تڑکے سے کلیجی لے کر رکھنا , اماں سے باتیں کرنا اپنی ناراضگی جتلانا پھر فوٹو کو دیکھنے بار بار جانا آخر وہی فوٹو سینے سے لگائے ہوئے ایفائے عہد کر جانا کہ میں بھائی سے نہیں ملوں گا.
#
بالا کوٹ واقع بہت ہی بلند پہاڑ تھا اور اس پہاڑ پر صرف دو ہی مکان تھے اور دونوں ایسے تھے جنھیں زلزلے کی خبر تک نہ ہوئی . جبکہ اس پہاڑ کے دامن میں آباد بستی کا کوئی اَتا پتا تک نہ تھا. پُل کے اُس پار ایک مسجد بچی تھی اور کوٹ کے اوپر دو مکان ، جو لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ " وہی اللہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے سات آسمان بنائے اور کھڑے کر دیے " .
عقل حیران تھی کہ کوٹ (پہاڑ ) کے اوپر والے لوگ کہہ رہے تھے جب زلزلہ آیا اس وقت ہم مکان کے اندر تھے ہم نے صرف ایک گونج سی سنی جب باہر نکل کر بازار کی طرف دیکھا تو یہی پتہ چل رہا تھا کہ زمین کا پیٹ پھٹ چکا ہے اور ساری دنیا اندر دھنستی جا رہی ہے . پُل کے اس پار جو ہوٹل تھا اُس کی چار منزلہ تھا لیکن صرف چوتھی منزل کی چھت نظر آ رہی تھی باقی منزلیں کہاں گئی اللہ ہی جانتا ہے .
صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے میں پُل پہ کھڑا نیلگوں شفاف پانی کو دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی بالا کوٹ کے متعلق سوچ رہا کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی نمبر دیکھا تو میری والدہ ماجدہ کا تھا او کے کی پریس کرتے ہی جلدی سے پہلے بسم اللہ اور پھر السلام علیکم کہا . انہوں نے ہماری عافیت جاننے کے بعد گھر لوٹنے کا حکم فرمایا . ہم اُسی دن بالا کوٹ کو خیر آباد کہتے ہوئے براستہ ایبٹ آباد راولپنڈی آئے اور پھر گھر روانہ ہو گئے . ایبٹ آباد شہر میں ہماری گاڑی ایسی گاڑی سے ٹکرا گئی جسمیں قانون ہی قانون یعنی سول جج صاحب بیٹھے ہوئے تھے لیکن مسلہء ادھر اُدھر سے سوری کہہ لینے سے ہی ختم ہو گیا .اس وقت گاڑی ڈاکٹر اعجاز ڈرائیو کر رہے تھے شبریز تیلا جو لاسٹ سیٹ پر برجمان تھے آواز لگانے کے انداز میں پوچھنے لگے ڈاکٹر جی گاڑی کیسے ٹکرائی ہے . ڈاکٹر اعجاز کہنے لگے دونوں گاڑیوں کے بیچ وقفہ کم تھا اُن کے اچانک بریک لگانے سے گاڑی ٹکرا گئی . شبریز تیلا جو پہلے ہی اسی تاڑ میں تھے کہنے لگے کیا آپ نے یہ نہیں پڑھا کہ اولاد میں اور گاڑی میں وقفہ ضروری ہے . ان کا یہ کہنا ہی تھا کہ سب ساتھیوں کا قہقہ نکل گیا .
یوں ہم صبح نو بجے کے چلے ہوئے دوسرے دن کی سحری کے وقت گھر پہونچے . دن کا کچھ حصہ سونے میں اور کچھ باتوں میں گزر گیا . اسی رات نماز تراویح کے لیے مسجد گیا تو بعد نماز تراویح ایک مولانا کی تقریر سنُی جو اس غرض سے تقریر فرما رہے تھے کہ ہمارے ہاں متاثرین زلزلہ خیمہ زن ہیں جن کے لیے کپڑے اور بستر وغیرہ چاہیے . مولانا ریلیف لینے چکوال سے کشمیر تشریف لائے تھے اور جو واعظ فرما رہے تھے اس میں حسب روایات طوالت کے لیے (کیوں کے اکثر مولوی بات کی گہرائی کو لمبائی سے پورا کرتے ہیں) بار بار یہ الفاظ دھرا رہے تھے جب لوگ اللہ کے نافرمان ہو جاتے تو اُن پر عذاب نازل ہو جاتا ہے . اُدھر فحاشی پھیل چکی تھی لوگ نافرمان ہو چکے تھے اس لیے زلزلہ آیا ہے . اب مولانا کشمیر سے کشمیریوں کے لیے چندا جمع کر رہے تھے اور ساتھ ہی کشمیریوں کو موردالزام ٹھہرا رہے تھے . تب ہمارے ایک دوست چودھری محمود شاہد (اللہ اُن پر اپنی رحمت فرمائے ، آج ہم میں جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں ) جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اُنہوں نے مولوی صاحب پر ایک سوال کیا، کہ مولانا صاحب بتائیے گا کے زلزلہ نظامِ قدرت ہے یا کے عذاب قدرت ہے ! اور اگر یہ عذاب قدرت تھا تو پھر کشمیر کے دوسرے اضلاع پر کیوں نہیں آیا . آزاد کشمیر تو سارا ایک جیسا ہے . تب مولانا صاحب اپنے سفید چٹے دانتوں کا درشن کراتے ہوئے کہنے لگے او جی آپ تو ماشاء اللہ وکیل ہیں میں آپ کو کیا بتاؤں.
دوسرے دن کی صبح تک ہم فریش ہو چکے تھے نارمل تیاری کے بعد ہم سکول گے. اسٹاف سے ملے اور اُن کو بھی پوری داستانِ سفر اور روئیداد زلزلہ سنائی. بچے (سٹوڈنٹس ) بھی ہماری باتیں سُن رہے تھے . اس وقت ہمارے پاس سینئر کلاس ساتویں تھی ہم نے وہ نوٹ بک ان کو دکھائی جو ہم وہاں سے ساتھ لائے تھے. ہم مصروفیات کے باعث وہ نہ پڑھ سکے تھے. جب وہی نوٹ بک ہمارے
سکول کی ٹیچر نے دیکھی تو اُس کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں. تھوڑی دیر اور نوٹ بک دیکھتے رہنے کے بعد آبدیدہ آنکھیں خشک کرتے ہوئے کہنے لگی سر (sir) کیا آپ جانتے ہیں کے اس بچی کو 9 اکتوبر کے لیے کیا ہوم ورک ملا تھا ? ہم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں . تب اُس نے وہ کیوسچن دکھایا جس کا جواب بچی نے 9 اکتوبر 2005 کو لیکھ کر چیک کروانا تھا کہ " زلزلے کیوں آتے ہیں ".