نظام الدین
محفلین
کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی نہ رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا ٹھیک رہتے نہ رہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سوگئے داستان کہتے کہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقب
کنارے پہ آہی گئی بہتے بہتے
(ثاقب لکھنوی)
جوانی نہ رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا ٹھیک رہتے نہ رہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمی سوگئے داستان کہتے کہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے
مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقب
کنارے پہ آہی گئی بہتے بہتے
(ثاقب لکھنوی)