سید شہزاد ناصر
محفلین
زمانہ دیکھے گا جب مرے دِل سے محشر اُٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا
جو موجِ دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری
گُہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہُوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا
کوئی دِل ایسا نظر نہ آیا، نہ جس میں خوابیدہ ہو تمّنا
الہٰی تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا
کُھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسمِ ہَوس سراپا
جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی، غُبار تھا کُوئے آرزو کا
اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں، تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں
نِگہ کو نظارے کی تمنّا ہے، دل کو سودا ہے جُستجو کا
چمن میں گُلچیں سے غنچہ کہتا تھا، اتنا بیدرد کیوں ہے انساں
تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا
ریاضِ ہستی کے ذرّے ذرّے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا
حقیقتِ گُل کو تُو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بُو کا
تمام مضموں مرے پُرانے، کلام میرا خطا سراپا
ہُنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جُو کا
سپاس شرطِ ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اِک دِل دیا ہے، وہ بھی فریب خوردہ آرزو کا
کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گِرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہُو کا
گیا ہے تقلید کا زمانہ مجاز رختِ سفر اٹھائے
ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا
جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں، تو ہوں نہ محزُوں عزیز میرے
مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا
مری خموشی نہیں ہے، گویا مزار ہے حرفِ آرزو کا
جو موجِ دریا لگی یہ کہنے، سفر سے قائم ہے شان میری
گُہر یہ بولا صدف نشینی ہے مجھ کو سامان آبرو کا
نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل، وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہُوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سروِ کنارِ جُو کا
کوئی دِل ایسا نظر نہ آیا، نہ جس میں خوابیدہ ہو تمّنا
الہٰی تیرا جہان کیا ہے، نگار خانہ ہے آرزو کا
کُھلا یہ مر کر کہ زندگی اپنی تھی طلسمِ ہَوس سراپا
جسے سمجھتے تھے جسمِ خاکی، غُبار تھا کُوئے آرزو کا
اگر کوئی شے نہیں ہے پنہاں، تو کیوں سراپا تلاش ہوں میں
نِگہ کو نظارے کی تمنّا ہے، دل کو سودا ہے جُستجو کا
چمن میں گُلچیں سے غنچہ کہتا تھا، اتنا بیدرد کیوں ہے انساں
تری نگاہوں میں ہے تبسم شکستہ ہونا مرے سبو کا
ریاضِ ہستی کے ذرّے ذرّے سے ہے محبت کا جلوہ پیدا
حقیقتِ گُل کو تُو جو سمجھے تو یہ بھی پیماں ہے رنگ و بُو کا
تمام مضموں مرے پُرانے، کلام میرا خطا سراپا
ہُنر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے میرے عیب جُو کا
سپاس شرطِ ادب ہے ورنہ کرم ترا ہے ستم سے بڑھ کر
ذرا سا اِک دِل دیا ہے، وہ بھی فریب خوردہ آرزو کا
کمالِ وحدت عیاں ہے ایسا کہ نوکِ نشتر سے تُو جو چھیڑے
یقیں ہے مجھ کو گِرے رگِ گُل سے قطرہ انسان کے لہُو کا
گیا ہے تقلید کا زمانہ مجاز رختِ سفر اٹھائے
ہوئی حقیقت ہی جب نمایاں تو کس کو یارا ہے گفتگو کا
جو گھر سے اقبالؔ دور ہُوں میں، تو ہوں نہ محزُوں عزیز میرے
مثالِ گوہر وطن کی فرقت کمال ہے میری آبرو کا