عبد الرحمٰن
محفلین
مُحترم قارئین السلام علیکم
یوں تو اللہ عزوجل کے ہم پر کروڑہا احسانات ہیں لیکن اللہ کی کریمی دیکھیئے کہ اُس پاک پروردیگار نے ہم پر اپنے احسانات جتائے نہیں اگرچہ کہ اُن احسانات کا شُکر بجا لانا ہم پر واجب ہے لیکن ایک احسان تمام مسلمانوں پر ایسا بھی ہے کہ جسکی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے اللہ کریم نے اُس احسان کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ اُس احسان کو جتایا بھی
بے شک اللّٰہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلے گمراہی میں تھے
(سورہ آل عمران آیت 164 )ترجمہ کنزالایمان
اور اللہ کریم کیوں نہ احسان جتائے کہ یہ اللہ کریم ہی کی شان ہے کہ اُس نے اپنا محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں عطا کیا علما فرماتے ہیں کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان انسانوں پر یہی ہیکہ اُس نے اپنا محبوب ہمیں عطا کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے محبوب کا استقبال دُنیا والے صرف پُھولوں ہی سے نہیں بلکہ مُنافقین پَتھروں سے بھی کریں گے میرے محبوب کے راستے میں کانٹے بھی بِچھائے جایئں گے کچھ کم ظرف لوگ جو خُود کو مُحمدی بھی کہیں گے اور میرے مِحبوب کی برابری کی بھی کوشش کریں گے اُنہیں اپنے جیسا کہیں گے حالانکہ کوئی اُنکے باپ یا روحانی پیشوا کو کسی مدرسے سے نکلے مُفتی کو اپنے جیسا کہہ دے تو بُرا مان جایئں گے اِن تمام باتوں کا علم رکھنے کہ باوجود بھی اپنے محبوب کو دُنیا میں بھیجنا اللہ ہی کی شان ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا محبوب تمام دُکھ جو اُسے کُفار کی طرف سے ملیں گے یا مُنافقین کی طرف سے ہنس کہ سہہ لیگا کیونکہ وہ میرا محبوب ہے کوئی عام بشر نہیں کہ جو ذرا سی تکلیف پر چِلّا اُٹھے۔
اور مُحترم قاریئں اِسی طرح حضور علیہ السلام ہی کی شان تھی کہ معراج کی رات اپنے رَب عزوجل کا حقیقی جلوہ دیکھنے کے باوجود قابَ وُ قُوسین کا لقب پا کر بھی واپس تشریف لے آئے یہ بھی حُضور علیہ السلام کا مُعجزہ تھا اِسی شان اور معجزہ کا تذکرہ اللہ کریم نے سورہ والنجم میں فرمایا
کچھ کم فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ مدنی آقا علیہ السلام کو محبوبیت کا درجہ آپکو آپکی ظاہری عمر میں مِلا اور میں یہ کہتا ہوں واللہ حضور علیہ السلام تو اُس وقت بھی اللہ کریم کے محبوب تھے جب نہ آدم علیہ السلام تھے نہ جنت تھی ، نہ ملائک تھے نہ مکان تھا نہ زمیں تھی نہ ہی آسمان تھا کہ اگر حُضور علیہ السلام اُس وقت مِحبوبیت کے درجہ پر فائز نہ ہوتے تو کیوں عرش پہ خُدا کے نام کیساتھ نام مُصطفٰے لِکھا ہوتا کیوں آدم علیہ السلام توبہ کیلئے حُضور علیہ السلام کو وسیلہ بناتے کیوں جبرایئل بار بار سدرہ چھوڑ کر آپکی خدمت میں حاضر رہتے۔
حضرت حسن رضا خاں (علیہ الرحمتہ)نے کیا خُوب فرمایا ہے
بے لقائے یار اُن کو چین آجاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریئل سدرہ چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگراِس در سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمارِ غم قُربِ مَسیحا چُھوڑ کر
مر کے جیتے ہیں جو اُنک در پہ جاتے ہیں حسن
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چُھوڑ کر
مُحترم قاریئن زمانے میں نوُر میرے آقا کہ آجانے سے ہے۔
غُنچوں میں چٹک ، کلیوں میں مہک ، ستاروں میں چمک ، یہ حَسیں وادیاں، مہتاب میں ٹھنڈک ، پھلوں میں رَس ، شہد میں مِٹھاس ، لہلہاتے چمن ، تتلیوں پہ بانکپن ، سمندر میں رنگ برنگی حسیں مچھلیاں ، فضا ؤں میں چہچہاتے پرندے ، یہ بِہتے جھرنے ، یہ فلک بُوس پہاڑ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ حیاتِ زندگانی میں رقصاں رَنگ و نُور کی مِحفلیں ، یہ کائنات میں بکھرے حسیں مناظر، آخر کس کے لئے؟
جواب خود خدائے ذوالجلال حدیث قُدسی میں ارشاد فرما رہا ہے
لو لاک لما خلقتُ الافلاک
اے مِحبوب یہ بَزمِ کائنات سجائی ہے فقط تیرےلئے
آسماں کو رَنگوں سے کہکشاؤں سے سجایا ہے آپ ہی لئے
آدم سے عیسیٰ تک پیغمبر آپ ہی کی آمد کی صدا دیتے رہے
اصحاب کہف بھی گیت آپ ہی کے گاتے خوشی سے ظُلم سہتے رہے
بِلال حَبَشی بھی چہرہ پہ تیرے فِدا
صدیق بھی کاٹ ِمار ہنس کر سِہتے رہے
ہوئے دیکھ کر تجھ کو فاروق۔۔۔،،عاشق،،
توعُثماں بھی زُلفوں میں کھوئے رہے
علی نے گھرانہ لُٹایا تجھی پہ
فِرشتے بھی حیرت سے تکتے رہے
(صلی اللہ علیہ وسلم ، علیہمُ السلام ، و رِضوانُ اللہِ تعالی اجمعین)
مُحترم قارئین کبھی آپ نے غُور کیا شیطٰن لعین، ناپاک ،اور، مردود کیوں ٹہرا جبکہ وہ اُستاذ الملائکہ بھی تھا اور فرشتے کامیاب کیوں ٹہرے اگر چہ وہ طفل مکتب تھے اگر آپ غُور کریں تو جواب بُہت آسان ہے۔
فرشتوں نے حُکمِ رَبّ پر سر جُھکا دیا اپنی عقل نہیں لَڑائی جبکہ
۱شیطان کے دِل میں بُغضِ نبی تھا
۲وہ خود کو بڑا اور اعلی سمجھتا تھا۔
اور حضرت آدم علیہ السلام کا موازنہ خود سے کر رہا تھا۔
اور میں آپ کو بڑے وثوق سے کہتا ہوں آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے جب کوئی بد بخت کسی بھی نبی علیہ السلام کے سامنے آیا ہے یا اُنہیں خود سے کمتر جانا ہے یا اپنے جیسا سمجھا ہے وہ ذلیل و خوار ہی ہوا ہے۔ چاہے وہ نمرود ہو ، فرعون ہو، شداد ہو، قارون ہو، ہامان ہو ،بلعم بن باعورا ہو،یا ابو جہل ،یا ابو لہب ہو
کوئی سُلطانی کے زعم میں مارا گیا تو کسی کے سر پر سرداری کا خبط سوار تھا کوئی دولت کے نشے میں چُور تھا تو کوئی علم کا بوجھ سنبھال نہ پایا۔
لیکن کوئی بھی نبی علیہ السلام کی شان کو کم نہیں کرپایا اور کوئی کیسے اُسکی شان گھٹا سکتا ہے جسکی شان خُدا بڑھائے (وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ) کا سر پہ تاج سجائے
حدیث شریف میں ہے سیّدِعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل سے اس آیت کو دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اذان میں ، تکبیر میں ، تشہد میں ، منبروں پر ، خطبوں میں ۔ تو اگر کوئی اللہ تعالٰی کی عبادت کرے ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے وہ کافر ہی رہے گا ۔ قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا ہر خطیب ہر تشہد پڑھنے والا اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے ساتھ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ پکارتا ہے ۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے انبیاء سے آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا ۔
اور آپ دیکھ لیجئے اس آیتہ مبارکہ کے نازل ہونے سے لیکر آج تک نبی ءِ رحمت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا زکر بڑھتا ہی جارہا ہے کل تک اگر ہزاروں ثنا خُوان تھے تو آج یہ تعداد لاکھوں میں ہے اور انشاءَ اللہ کروڑوں تک پہنچے گی کل تک آقا علیہ السلام کے میلادالنبی کے جلوس میں لاکھوں شریک ہوتے تھے تُو آج کروڑوں شریک ہوتے ہیں میرے رَبّ عزوجل کا وعدہ سچا ہے یہ ذکر بڑھتا ہی رہے گا
امام احمد رضا فرماتے ہیں
رہے گا یونہی اُنکا چرچا رہیگا
پَڑے خاک ہو جایئں جَل جانے والے
اور ایک خُوبصورت شعر ہے
صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی جنھیں سُن کے دل شاد ہوتا رہے گا
خدا اہلسنت کو آباد رکھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا میلاد ہوتا رہے گا
یوں تو اللہ عزوجل کے ہم پر کروڑہا احسانات ہیں لیکن اللہ کی کریمی دیکھیئے کہ اُس پاک پروردیگار نے ہم پر اپنے احسانات جتائے نہیں اگرچہ کہ اُن احسانات کا شُکر بجا لانا ہم پر واجب ہے لیکن ایک احسان تمام مسلمانوں پر ایسا بھی ہے کہ جسکی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے اللہ کریم نے اُس احسان کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ اُس احسان کو جتایا بھی
بے شک اللّٰہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلے گمراہی میں تھے
(سورہ آل عمران آیت 164 )ترجمہ کنزالایمان
اور اللہ کریم کیوں نہ احسان جتائے کہ یہ اللہ کریم ہی کی شان ہے کہ اُس نے اپنا محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیں عطا کیا علما فرماتے ہیں کہ اللہ کا سب سے بڑا احسان انسانوں پر یہی ہیکہ اُس نے اپنا محبوب ہمیں عطا کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے محبوب کا استقبال دُنیا والے صرف پُھولوں ہی سے نہیں بلکہ مُنافقین پَتھروں سے بھی کریں گے میرے محبوب کے راستے میں کانٹے بھی بِچھائے جایئں گے کچھ کم ظرف لوگ جو خُود کو مُحمدی بھی کہیں گے اور میرے مِحبوب کی برابری کی بھی کوشش کریں گے اُنہیں اپنے جیسا کہیں گے حالانکہ کوئی اُنکے باپ یا روحانی پیشوا کو کسی مدرسے سے نکلے مُفتی کو اپنے جیسا کہہ دے تو بُرا مان جایئں گے اِن تمام باتوں کا علم رکھنے کہ باوجود بھی اپنے محبوب کو دُنیا میں بھیجنا اللہ ہی کی شان ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرا محبوب تمام دُکھ جو اُسے کُفار کی طرف سے ملیں گے یا مُنافقین کی طرف سے ہنس کہ سہہ لیگا کیونکہ وہ میرا محبوب ہے کوئی عام بشر نہیں کہ جو ذرا سی تکلیف پر چِلّا اُٹھے۔
اور مُحترم قاریئں اِسی طرح حضور علیہ السلام ہی کی شان تھی کہ معراج کی رات اپنے رَب عزوجل کا حقیقی جلوہ دیکھنے کے باوجود قابَ وُ قُوسین کا لقب پا کر بھی واپس تشریف لے آئے یہ بھی حُضور علیہ السلام کا مُعجزہ تھا اِسی شان اور معجزہ کا تذکرہ اللہ کریم نے سورہ والنجم میں فرمایا
کچھ کم فہم لوگ سمجھتے ہیں کہ مدنی آقا علیہ السلام کو محبوبیت کا درجہ آپکو آپکی ظاہری عمر میں مِلا اور میں یہ کہتا ہوں واللہ حضور علیہ السلام تو اُس وقت بھی اللہ کریم کے محبوب تھے جب نہ آدم علیہ السلام تھے نہ جنت تھی ، نہ ملائک تھے نہ مکان تھا نہ زمیں تھی نہ ہی آسمان تھا کہ اگر حُضور علیہ السلام اُس وقت مِحبوبیت کے درجہ پر فائز نہ ہوتے تو کیوں عرش پہ خُدا کے نام کیساتھ نام مُصطفٰے لِکھا ہوتا کیوں آدم علیہ السلام توبہ کیلئے حُضور علیہ السلام کو وسیلہ بناتے کیوں جبرایئل بار بار سدرہ چھوڑ کر آپکی خدمت میں حاضر رہتے۔
حضرت حسن رضا خاں (علیہ الرحمتہ)نے کیا خُوب فرمایا ہے
بے لقائے یار اُن کو چین آجاتا اگر
بار بار آتے نہ یوں جبریئل سدرہ چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگراِس در سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمارِ غم قُربِ مَسیحا چُھوڑ کر
مر کے جیتے ہیں جو اُنک در پہ جاتے ہیں حسن
جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چُھوڑ کر
مُحترم قاریئن زمانے میں نوُر میرے آقا کہ آجانے سے ہے۔
غُنچوں میں چٹک ، کلیوں میں مہک ، ستاروں میں چمک ، یہ حَسیں وادیاں، مہتاب میں ٹھنڈک ، پھلوں میں رَس ، شہد میں مِٹھاس ، لہلہاتے چمن ، تتلیوں پہ بانکپن ، سمندر میں رنگ برنگی حسیں مچھلیاں ، فضا ؤں میں چہچہاتے پرندے ، یہ بِہتے جھرنے ، یہ فلک بُوس پہاڑ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ حیاتِ زندگانی میں رقصاں رَنگ و نُور کی مِحفلیں ، یہ کائنات میں بکھرے حسیں مناظر، آخر کس کے لئے؟
جواب خود خدائے ذوالجلال حدیث قُدسی میں ارشاد فرما رہا ہے
لو لاک لما خلقتُ الافلاک
اے مِحبوب یہ بَزمِ کائنات سجائی ہے فقط تیرےلئے
آسماں کو رَنگوں سے کہکشاؤں سے سجایا ہے آپ ہی لئے
آدم سے عیسیٰ تک پیغمبر آپ ہی کی آمد کی صدا دیتے رہے
اصحاب کہف بھی گیت آپ ہی کے گاتے خوشی سے ظُلم سہتے رہے
بِلال حَبَشی بھی چہرہ پہ تیرے فِدا
صدیق بھی کاٹ ِمار ہنس کر سِہتے رہے
ہوئے دیکھ کر تجھ کو فاروق۔۔۔،،عاشق،،
توعُثماں بھی زُلفوں میں کھوئے رہے
علی نے گھرانہ لُٹایا تجھی پہ
فِرشتے بھی حیرت سے تکتے رہے
(صلی اللہ علیہ وسلم ، علیہمُ السلام ، و رِضوانُ اللہِ تعالی اجمعین)
مُحترم قارئین کبھی آپ نے غُور کیا شیطٰن لعین، ناپاک ،اور، مردود کیوں ٹہرا جبکہ وہ اُستاذ الملائکہ بھی تھا اور فرشتے کامیاب کیوں ٹہرے اگر چہ وہ طفل مکتب تھے اگر آپ غُور کریں تو جواب بُہت آسان ہے۔
فرشتوں نے حُکمِ رَبّ پر سر جُھکا دیا اپنی عقل نہیں لَڑائی جبکہ
۱شیطان کے دِل میں بُغضِ نبی تھا
۲وہ خود کو بڑا اور اعلی سمجھتا تھا۔
اور حضرت آدم علیہ السلام کا موازنہ خود سے کر رہا تھا۔
اور میں آپ کو بڑے وثوق سے کہتا ہوں آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے جب کوئی بد بخت کسی بھی نبی علیہ السلام کے سامنے آیا ہے یا اُنہیں خود سے کمتر جانا ہے یا اپنے جیسا سمجھا ہے وہ ذلیل و خوار ہی ہوا ہے۔ چاہے وہ نمرود ہو ، فرعون ہو، شداد ہو، قارون ہو، ہامان ہو ،بلعم بن باعورا ہو،یا ابو جہل ،یا ابو لہب ہو
کوئی سُلطانی کے زعم میں مارا گیا تو کسی کے سر پر سرداری کا خبط سوار تھا کوئی دولت کے نشے میں چُور تھا تو کوئی علم کا بوجھ سنبھال نہ پایا۔
لیکن کوئی بھی نبی علیہ السلام کی شان کو کم نہیں کرپایا اور کوئی کیسے اُسکی شان گھٹا سکتا ہے جسکی شان خُدا بڑھائے (وَ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ ) کا سر پہ تاج سجائے
حدیث شریف میں ہے سیّدِعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبریل سے اس آیت کو دریافت فرمایا تو انہوں نے کہا اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے میرے ساتھ آپ کا بھی ذکر کیا جائے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ مراد اس سے یہ ہے کہ اذان میں ، تکبیر میں ، تشہد میں ، منبروں پر ، خطبوں میں ۔ تو اگر کوئی اللہ تعالٰی کی عبادت کرے ہر بات میں اس کی تصدیق کرے اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی نہ دے تو یہ سب بے کار ہے وہ کافر ہی رہے گا ۔ قتادہ نے کہا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کا ذکر دنیا و آخرت میں بلند کیا ہر خطیب ہر تشہد پڑھنے والا اَشْھَدُاَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے ساتھ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ پکارتا ہے ۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ آپ کے ذکر کی بلندی یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے انبیاء سے آپ پر ایمان لانے کا عہد لیا ۔
اور آپ دیکھ لیجئے اس آیتہ مبارکہ کے نازل ہونے سے لیکر آج تک نبی ءِ رحمت (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا زکر بڑھتا ہی جارہا ہے کل تک اگر ہزاروں ثنا خُوان تھے تو آج یہ تعداد لاکھوں میں ہے اور انشاءَ اللہ کروڑوں تک پہنچے گی کل تک آقا علیہ السلام کے میلادالنبی کے جلوس میں لاکھوں شریک ہوتے تھے تُو آج کروڑوں شریک ہوتے ہیں میرے رَبّ عزوجل کا وعدہ سچا ہے یہ ذکر بڑھتا ہی رہے گا
امام احمد رضا فرماتے ہیں
رہے گا یونہی اُنکا چرچا رہیگا
پَڑے خاک ہو جایئں جَل جانے والے
اور ایک خُوبصورت شعر ہے
صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی جنھیں سُن کے دل شاد ہوتا رہے گا
خدا اہلسنت کو آباد رکھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا میلاد ہوتا رہے گا