زمانے سے تم کو بچایا ہوا ہے - برائے اصلاح

زمانے سے تم کو بچایا ہوا ہے
تمہیں رب جو اپنا بنایا ہوا ہے

کسی ہنستے چہرے کو پڑھ لو تو دیکھو
زمانے کا کیسا رلایا ہوا ہے

وہی ایک کلمہ ہے دہرا رہے ہیں
یہ پوچهو یہ کس کا سکهایا ہوا ہے

عیاں خود کو تم پہ جو کرتا نہیں ہے
یہ سمجهو کسی کا جلایا ہوا ہے

میرے ہاتھ میں آج موتی ہوا ہے
جو آنسو کسی نے تهمایا ہوا ہے
 

الف عین

لائبریرین
لو بھئی، اصلاح حاضر ہے:

زمانے سے تم کو بچایا ہوا ہے
تمہیں رب جو اپنا بنایا ہوا ہے
//زیادہ رواں یوں ہو گا۔
زمانے سے تم کو بچایا ہوا ہے
تمہیں اپنا رب ’یوں‘ بنایا ہوا ہے
’یوں‘ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ بھی سوچا جا سکتا ہے، ’جو‘ اگر اک حرفی آ سکتا تو سب سے بہتر وہی ہوتا۔

کسی ہنستے چہرے کو پڑھ لو تو دیکھو
زمانے کا کیسا رلایا ہوا ہے
//پھر ہنستا چہرہ کیوں؟ ویسے شعر میں کوئی فنی سقم نہیں۔

وہی ایک کلمہ ہے دہرا رہے ہیں
یہ پوچھو یہ کس کا سکھایا ہوا ہے
//دوسرا مصرع بہتر ہو سکتا ہے، جیسے
وہی ایک کلمہ ہے دہرا رہے ہیں
ذرا پوچھو، کس کا سکھایا ہوا ہے

عیاں خود کو تم پہ جو کرتا نہیں ہے
یہ سمجھو کسی کا جلایا ہوا ہے
//اس شعر کو بدل ہی دو، واضح بھی نہیں، اور کوئی خاص بات نہیں لگ رہی ہے۔

میرے ہاتھ میں آج موتی ہوا ہے
جو آنسو کسی نے تھمایا ہوا ہے
//درست، بلکہ بہت خوب، اگرچہ دونوں مصرعوں میں ختم پر ’ہے‘ آ رہا ہے۔

جو کہہ دو سو بولیں جو چاہو وہ سن لیں
یوں سوچوں پہ پہرا بٹھایا ہوا ہے
//شاید مطلب اس طرح واضح ہو سکتا ہے۔
جو تم کہہ دو ،بولیں ۔ جو چاہو وہ سن لیں
کہ سوچوں پہ پہرا بٹھایا ہوا ہے
یہی مراد تھی نا؟

خودی اور غیرت کا پرچار کرنا
سبھی کو سبق یہ سکھایا ہوا ہے
//یہ شعر بھی کوئی خاص نہیں۔ نکالا جا سکتا ہے۔
 
لو بھئی، اصلاح حاضر ہے:

زمانے سے تم کو بچایا ہوا ہے
تمہیں رب جو اپنا بنایا ہوا ہے
//زیادہ رواں یوں ہو گا۔
زمانے سے تم کو بچایا ہوا ہے
تمہیں اپنا رب ’یوں‘ بنایا ہوا ہے
’یوں‘ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ بھی سوچا جا سکتا ہے، ’جو‘ اگر اک حرفی آ سکتا تو سب سے بہتر وہی ہوتا۔

کسی ہنستے چہرے کو پڑھ لو تو دیکھو
زمانے کا کیسا رلایا ہوا ہے
//پھر ہنستا چہرہ کیوں؟ ویسے شعر میں کوئی فنی سقم نہیں۔

وہی ایک کلمہ ہے دہرا رہے ہیں
یہ پوچھو یہ کس کا سکھایا ہوا ہے
//دوسرا مصرع بہتر ہو سکتا ہے، جیسے
وہی ایک کلمہ ہے دہرا رہے ہیں
ذرا پوچھو، کس کا سکھایا ہوا ہے

عیاں خود کو تم پہ جو کرتا نہیں ہے
یہ سمجھو کسی کا جلایا ہوا ہے
//اس شعر کو بدل ہی دو، واضح بھی نہیں، اور کوئی خاص بات نہیں لگ رہی ہے۔

میرے ہاتھ میں آج موتی ہوا ہے
جو آنسو کسی نے تھمایا ہوا ہے
//درست، بلکہ بہت خوب، اگرچہ دونوں مصرعوں میں ختم پر ’ہے‘ آ رہا ہے۔

جو کہہ دو سو بولیں جو چاہو وہ سن لیں
یوں سوچوں پہ پہرا بٹھایا ہوا ہے
//شاید مطلب اس طرح واضح ہو سکتا ہے۔
جو تم کہہ دو ،بولیں ۔ جو چاہو وہ سن لیں
کہ سوچوں پہ پہرا بٹھایا ہوا ہے
یہی مراد تھی نا؟

خودی اور غیرت کا پرچار کرنا
سبھی کو سبق یہ سکھایا ہوا ہے
//یہ شعر بھی کوئی خاص نہیں۔ نکالا جا سکتا ہے۔

بہت بہت شکریہ سر!
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں نے پہلے بھی یہ غزل دیکھی تھی مگر چپ رہا۔۔۔ اب جبکہ اس کی اصلاح ہوچکی ہے تو اس کے مطلعے پر سوال ہے۔۔ یہ کیسا خیال ہے؟؟؟
 
Top