فرخ منظور
لائبریرین
زمستان کا نوحہ
(شہدائے کوئٹہ کے لئے)
از اختر عثمان
ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کُھدی قبروں کی مٹّی بھی نہیں سُوکھی
اگربتّی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے
پسِ چشم ِ عزا ٹھہرے سرشکِ حشر بستہ میں ابھی احساس کا نم ہے
ابھی پرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے
ابھی کنز ِ غم ِ جاوید میں صد ھا الم ہیں، عرصہء غم ہے
عزادارو ! ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
نئے تابوت پچھلے چوک پر ہیں ، نوحہ و نالہ کی لَے مدّھم رکھو
گُل ھائے تازہ کا کوئی نوحہ نہیں کہنا (زمستاں ہے)
ابھی وہ خوش نفس واپس نہیں پہنچے
علی اصغر، علی اکبر نہیں لوٹے
ابھی قاسم کی مہندی گھولنا باقی ہے پانی آئے تو نوحہ اٹھائیں گے
ابھی زنجیر ِ گریہ میں کئی بے آب حلقے ہیں
اگر بتّی کی خوشبو ہڈّیوں تک آن پہنچی ہے
مگر پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ہمیں فارغ خطی لکھ دو
ہمیں تاریخ کی کم وسعتی ، جغرافیہ کے قید خانے میں نہیں رہنا
شغالانِ شبِ شام آج بھی لب ہائے آیت خواں سے لرزاں ہیں
وہ سَر اب تک فراز ِ نیزہ پر ہے ، امن کی آیات بالیدہ
گرسنہ سگ کے پنجوں میں ہمارے اُستخواں یوں کَڑکَڑاتے ہیں کہ ہر جانب صدائے " یا علی " کا روپ روشن ہے
اگر یہ شمع بجھتی ہے ، بجھا ڈالو
ہمیں فارغ خطی لکھ دو
ہمیں آگے نہیں جانا کہ پھر تاریخ کو اک واقعہ درپیش ہے اور بازگردانی کا موسم ہے
ہمارا آئنہ مُحکم ہے، اِس میں صُورتیں دُھندلی نہیں پڑتیں
یہ سب تمثیل اور تمثال سے آگے ، علامت سے بہت آگے کی راہیں ہیں
ہمیں سینے لگا لینے کو وہ بانہیں ہیں جو کٹ کر قلَم آثار ہیں
بانہیں ، عَلم آثار ، جن کا پنجہء کاشف کفِ ماہِ دوہفتہ کو بھی شرمائے
شبِ سیمیں کی بانہوں میں لہکتے کارپردازو
ہمیں فارغ خطی لکھ دو
از اختر عثمان
ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کُھدی قبروں کی مٹّی بھی نہیں سُوکھی
اگربتّی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے
پسِ چشم ِ عزا ٹھہرے سرشکِ حشر بستہ میں ابھی احساس کا نم ہے
ابھی پرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے
ابھی کنز ِ غم ِ جاوید میں صد ھا الم ہیں، عرصہء غم ہے
عزادارو ! ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
نئے تابوت پچھلے چوک پر ہیں ، نوحہ و نالہ کی لَے مدّھم رکھو
گُل ھائے تازہ کا کوئی نوحہ نہیں کہنا (زمستاں ہے)
ابھی وہ خوش نفس واپس نہیں پہنچے
علی اصغر، علی اکبر نہیں لوٹے
ابھی قاسم کی مہندی گھولنا باقی ہے پانی آئے تو نوحہ اٹھائیں گے
ابھی زنجیر ِ گریہ میں کئی بے آب حلقے ہیں
اگر بتّی کی خوشبو ہڈّیوں تک آن پہنچی ہے
مگر پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ہمیں فارغ خطی لکھ دو
ہمیں تاریخ کی کم وسعتی ، جغرافیہ کے قید خانے میں نہیں رہنا
شغالانِ شبِ شام آج بھی لب ہائے آیت خواں سے لرزاں ہیں
وہ سَر اب تک فراز ِ نیزہ پر ہے ، امن کی آیات بالیدہ
گرسنہ سگ کے پنجوں میں ہمارے اُستخواں یوں کَڑکَڑاتے ہیں کہ ہر جانب صدائے " یا علی " کا روپ روشن ہے
اگر یہ شمع بجھتی ہے ، بجھا ڈالو
ہمیں فارغ خطی لکھ دو
ہمیں آگے نہیں جانا کہ پھر تاریخ کو اک واقعہ درپیش ہے اور بازگردانی کا موسم ہے
ہمارا آئنہ مُحکم ہے، اِس میں صُورتیں دُھندلی نہیں پڑتیں
یہ سب تمثیل اور تمثال سے آگے ، علامت سے بہت آگے کی راہیں ہیں
ہمیں سینے لگا لینے کو وہ بانہیں ہیں جو کٹ کر قلَم آثار ہیں
بانہیں ، عَلم آثار ، جن کا پنجہء کاشف کفِ ماہِ دوہفتہ کو بھی شرمائے
شبِ سیمیں کی بانہوں میں لہکتے کارپردازو
ہمیں فارغ خطی لکھ دو