زمل و دثار

نور وجدان

لائبریرین
'زملونی ودثرونی <چھپالو کمبل اوڑھا کے>' حرف دل،اللہ تبارک وتعالی کو اتنا پسند آیا کہ ایک سے مزمل اور دوسرے سے مدثر لفظ کا پیار امڈ آیا ..... زملونی سے المزمل اور ودثرونی سے المدثر لفظ کی محبت قرأت ہوگئی. ما انا بقاری: میں قرأت نہیں جانتا سے اور جان لینے کے بعد خشیت کا امڈ آنا،بدن مبارک پر لرزہ کا وجود میں آنا ---- خوف کے مارے اندیشہ ہائے درون کہ کیا ماجرا ہوگیا. یہاں قابلِ ذکر بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جذبات ہر اس انسان جیسے، جو کسی انہونی سے گھبرا جائے .... اللہ نے عام انسان کو بتانا تھا کہ نبی بھی اس مجاہدے و ریاضت سے گزرتا ہے جیسا کہ عام انسان مگر کیفیات پر غلبہ سے نکال لیا جانا ----

جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کو لوٹ آئے تو جسم اطہر کانپ رہا تھا. اس حالت سے گھبراتے کہا: کپڑا اوڑھا دو .....یا کمبل اوڑھا دو ....زملونی لفظ زمل سے لکھا ہے جس کا مطلب حجاب اوڑھا دو ...یا چھپا لو ...اور ودثرونی لفظ دثار سے نکلا ہے جس کے معانی کپڑے کے ہیں ...<.. چھپنے والے --- المزمل > اور< کمبل اوڑھنے والے المدثر> یہ دو لفظ کیفیات سے مشتق ہیں. جب بہت لاڈ سے ماں بچے کو بلائے، جب اس کا بچہ،اسی سے چھپ کے بیٹھ جائے اور ماں کو اپنے بچے کی ادا بھا جائے..... اللہ عزوجل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادا اتنا بھاگئی کہ اللہ نے دو سورہ ایک کیفیت کے نام پر رکھے ہیں < زملونی ودثرونی> اور یہ کیفیت بعد قرأت کی ہے

انسان چھپتا ہے، حجاب کیوں اوڑھتا ہے؟ بالخصوص جب وہ اپنے محبوب(اللہ) سے ملکر آیا ہے.... جس نے دیکھا، یعنی خدا نے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی سے چھپ رہے ہیں ....جب کہ خدا حق تعالی تو کپڑے تلے سے بھی جھانک لیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کا علم رکھتے تھے مگر کیفیت کے غلبے میں ادا کا رخ خدا کو محبوب ہوگیا ....... یہ حالت جذب، جس میں انسان چھپنا چاہتا ہے، خود سے چھپنا چاہتا ہے، رب سے بھی اور حجاب اوڑھنا چاہتا ہے جبکہ خدا تعالی تو حجاب کی حد کے تعین میں ہے نہیں. یہ لطیف گفتگو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رب تعالی نے کی ...جیسا دوست، دوست سے ارشاد کرے

( ہاں بھئی، کتنا چھپو گے مجھ سے، میں تو ہر جگہ ہوں، مجھ سے چھپ چھپ کے کہاں جاؤ گے؟ مجھے ہر جگہ پاؤ گے)

اس لطف کی چاشنی محسوس ہوتی ہے جب اس لطافت میں وجود کی ماہیت گھلنے لگے اور کیفیات کا آئنہ ہوجائے....... جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جذب کی حالت سے نکلے اور تجلیات و وحی کی کیفیت سے باہر آئے تو آپ تب بھی کمبل اوڑھے رہے.... تب خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کمبل سے حجاب سے نکالنے کے لیے کہا: <وثیابک فاطھر، قم فانذر > آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورہ المزمل میں جس بھاری ذمہ داری کا کہا گیا تھا، المدثر میں اس ذمہ داری کو اٹھانے کا حکم دیا گیا تھا ......
 

سیما علی

لائبریرین
اس لطف کی چاشنی محسوس ہوتی ہے جب اس لطافت میں وجود کی ماہیت گھلنے لگے اور کیفیات کا آئنہ ہوجائے....... جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جذب کی حالت سے نکلے اور تجلیات و وحی کی کیفیت سے باہر آئے تو آپ تب بھی کمبل اوڑھے رہے....
سرِ لامکاں سے طلب ہوئی
سوئے منتہا وہ چلے نبیﷺ
سوئے منتہا بھی کہاں رُکے
سوئے لامکاں وہ چلے نبیﷺ


بلغ اللہ بکمالہ
کشف الدجٰی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ وآلہ

تھا سفر زمیں سے عرش کا
سبھی کچھ ٹھر گیا فرش کا
لگا روح جیسے نکل گئی
تیری واپسی توہے زندگی

وہ صدائے مرحبا مرحبا
یہ پکارتے تھے ملائیکہ
تیری دید مظہر کبیریا
تیرا جلوہ جلوہ حق نما

تیری رفعتیں ہر مکان میں
ہے بلندیہ لامکاں میں
تیری عظمتیں ہیں کہاں نہیں
تیرے تذکرے ہیں قرآن میں

تھے تمام انبییا صف بہ صف
کہ ہے آج ملنا ہے بڑا شرف
تو امام مجمع انبیا
تو ہی انتہا تو ہی ابتدا

تھی براق کیف حضور میں
کہ وہ آج پہنچی حضورﷺ میں
ہوا وجد طاری قدم قدم
بڑی صورتیں تھی عبور میں

سبھی جنتیں تھیں سجی ہوئیں
تیری دھوم ہر سو مچی ہوئی
تھے ملک فلک سبھی شادماں
تیری خوشبو سب میں بسی ہوئی

وہ کروڑوں میل کا تھا سفر
بڑی سرعتوں سے ہوا مگر
وہ عظیم لمحہ وصال کا
رہی دید میں نہ کوئی کسر

وہ چلے بڑھے ہوئے کس طرح
کوئی جانے کیسے بھلے ذرا
یہ وصال راز و نیاز ہیں
وہی جانیں جن کا ہے معاملہ

یہ وصال سب سے عظیم ہے
کہ حبیب رب کریم ہے
میرے پیارے میرا سلام لو
یہ کلام رب کلیم ہے

اسی گفتکو میں ہمارا نام
کہاں ہم کہاں ہمیں وہ سلام
میرے آقا ہم کو نہ بھولے تب
سرے حشر معافی انھی کا کام

نا خدا ہے یہ نا جدا ہے یہ
کہ حبیب رب اولی ہےیہ
کوئی جانے کیسے نعیم انھیں
جو کوئی نہیں باخدا ہے یہ

بلغ اللہ بکمالہ
کشف الدجٰی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو علیہ وآلہ
 

سیما علی

لائبریرین
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کو لوٹ آئے تو جسم اطہر کانپ رہا تھا. اس حالت سے گھبراتے کہا: کپڑا اوڑھا دو .....یا کمبل اوڑھا دو ....زملونی لفظ زمل سے لکھا ہے جس کا مطلب حجاب اوڑھا دو ...یا چھپا لو ...اور ودثرونی لفظ دثار سے نکلا ہے جس کے معانی کپڑے کے ہیں ...<.. چھپنے والے --- المزمل > اور< کمبل اوڑھنے والے المدثر> یہ دو لفظ کیفیات سے مشتق ہیں. جب بہت لاڈ سے ماں بچے کو بلائے، جب اس کا بچہ،اسی سے چھپ کے بیٹھ جائے اور ماں کو اپنے بچے کی ادا بھا جائے..... اللہ عزوجل کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادا اتنا بھاگئی کہ اللہ نے دو سورہ ایک کیفیت کے نام پر رکھے ہیں < زملونی ودثرونی> اور یہ کیفیت بعد قرأت کی ہے
سورة المدثر - آیت 1
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
اے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) جو کمبل اوڑھے سو رہے ہو
تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کی پہلی سات آیات تو مکہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہیں، بلکہ جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ یہ قرآن پاک کی اولین آیات ہیں لیکن جمہور علماء کے نزدیک سب سے پہلی وحی سورہ، اقراء، کی ابتدائی آیات ہیں حدیث میں ہے کہ اس کے بعد وحی کاسلسلہ بند ہوگیا اور تقریبا تیس مہینے تک بند رہا، پھر اچانک وحی آئی اور سورۃ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، معلوم ہوا کہ فترۃ کے بعد یہ پہلی وحی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سورۃ العلق کے نزول کے ساتھ آپ نبی بن گئے اور سورۃ المدثر کے نزول پر جب، قم فانذر، کا جملہ نازل ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کابوجھ ڈال دیا گیا۔
 

نور وجدان

لائبریرین
سورة المدثر - آیت 1
يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
اے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) جو کمبل اوڑھے سو رہے ہو
تفسیر ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد
تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کی پہلی سات آیات تو مکہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہیں، بلکہ جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ یہ قرآن پاک کی اولین آیات ہیں لیکن جمہور علماء کے نزدیک سب سے پہلی وحی سورہ، اقراء، کی ابتدائی آیات ہیں حدیث میں ہے کہ اس کے بعد وحی کاسلسلہ بند ہوگیا اور تقریبا تیس مہینے تک بند رہا، پھر اچانک وحی آئی اور سورۃ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، معلوم ہوا کہ فترۃ کے بعد یہ پہلی وحی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سورۃ العلق کے نزول کے ساتھ آپ نبی بن گئے اور سورۃ المدثر کے نزول پر جب، قم فانذر، کا جملہ نازل ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کابوجھ ڈال دیا گیا۔
نبی بن گئے اور رسالت کا بوجھ ڈال دیا
ان دو میں کیا فرق ہے
 

علی وقار

محفلین
نبی بن گئے اور رسالت کا بوجھ ڈال دیا
ان دو میں کیا فرق ہے
ہر رسول نبی بھی ہے مگر ہر نبی رسول نہیں۔ خدا کی طرف سے وحی آئے تو نبوت کا منصب عطا ہو جاتا ہے۔ جب نبی کو پیغام خدا کو خلقِ خدا تک پہنچانے کی ذمہ داری باری تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے تو وہ رسول بھی کہلاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ہر رسول نبی بھی ہے مگر ہر نبی رسول نہیں۔ خدا کی طرف سے وحی آئے تو نبوت کا منصب عطا ہو جاتا ہے۔ جب نبی کو پیغام خدا کو خلقِ خدا تک پہنچانے کی ذمہ داری باری تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے تو وہ رسول بھی کہلاتا ہے۔ واللہ اعلم۔
تھوڑی سی سمجھ آئی ہے .....

خلق خدا کو اگر پیام پہنچانا تو رسالت مل گئی
نبا تو خبر کو کہتے
نبی خبر دینے والے کو
پھر نبی تو خبر دینے والا ہوا
رسول پھر کسے کہیں گے جب کہ آپ پر خبر نازل ہوچکی
یا جب خبر اپنی ذات کے لیے ہو تو نبی. جب خبر مخلوق کے لیے ہو تو رسول؟
 

سیما علی

لائبریرین
نبی بن گئے اور رسالت کا بوجھ ڈال دیا
ان دو میں کیا فرق ہے
مشہور یہ ہے کہ ’’رسول‘‘ اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی کتاب اور نئی شریعت دی گئی ہو۔ اور ’’نبی‘‘ ہر پیغمبر کو کہتے ہیں، چاہے اسے نئی شریعت دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو اور وہ اپنے سے پہلے والےرسول کی اتباع کرتے ہوئے اس کی شریعت کی تبلیغ کرے۔

حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ دونوں کےفرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے، ’’رسول‘‘ وہ ہے جو مخاطبین کو شریعتِ جدیدہ پہنچائے، خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شریعت، وہ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قدیم شریعت ہی تھی، لیکن ’’قوم جرہم‘‘ جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا، ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لیے نبی ہونا ضروری نہیں، جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں، یا جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے فرستادہ قاصد جن کو آیتِ قرآن(( اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ))[سورة یٰس :13]میں رسول کہا گیا ہے، حال آں کہ وہ انبیاء نہیں تھے۔
اور نبی وہ ہے جو صاحبِ وحی ہو خواہ شریعتِ جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعتِ قدیمہ کی، جیسے اکثر انبیاءِ بنی اسرائیل شریعتِ موسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظِ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظِ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے، جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کیےگئے جیسا کہ سورۃ مریم میں(( رَسُوْلاً نَّبِیًّا ))[آيت 54]آیا ہے، وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں، کوئی تضاد نہیں، لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے ((وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ ))[سورة الحج :52]میں تو اس جگہ مقام کے قرینہ کی وجہ سے لفظِ ِنبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعتِ سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے۔‘‘

( بحوالہ معارف القرآن، 6/42، سورۂ مریم، ط: مکتبہ معارف القرآن)
اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے سلسلہ انبیاء کا کو جاری فرمایا،تمام کے تمام انبیاء معصوم اور بڑی فضیلتوں کے مالک ہیں ۔حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کی طرف سے نبی بھی ہیں اور رسول بھی ہیں اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے:

((إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ . ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ٣٤ )) (آل عمران ۔33 ۔34)

اللہ نے آدم علیہ السّلام,نوح علیہ السّلام اور آل ابراہیم علیہ السّلام اور آل عمران علیہ السّلام کو منتخب کرلیا ہے۔

((أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا))(مريم ۔5
یہ سب وہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے نعمت نازل کی ہے ذرّیت آدم میں سے اور ان کی نسل میں سے جن کو ہم نے نوح علیہ السّلام کے ساتھ کشتی میں اٹھایا ہے اور ابراہیم علیہ السّلام و اسرائیل علیہ السّلام کی ذرّیت میں سے اور ان میں سے جن کو ہم نے ہدایت دی ہے اور انہیں منتخب بنایا ہے کہ جب ان کے سامنے رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔

رسول اور نبی کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے یعنی ہر رسول ﷺ نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔اللہ تعالی نے بعض انبیاءؑ کو درجہ رسالت پر فائز کیا ہے۔

ان دونوں کی لغوی اور اصطلاحی تعریف کی جائے گی پہلے لغوی تعریف ملاحظہ ہو:

نبی اصل میں نبا سے لیا گیا جس کے معنی خبر کے ہیں نبی آسمانی خبریں لیتا اور بتاتا ہے، اس کی جمع انبیاء ہے۔ نبی اللہ سے خبر دینے والا ہوتا ہے۔

رسول اصل میں رسل سے لیا گیا ہے کسی بھی گروہ کو کہتے ہیں، مرسل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو پیغام کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیکر جاتا ہے،اللہ کے رسول آسمان سے آئے پیغام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

اصطلاح میں نبی اس شخصیت کو کہا جاتا ہے جو اللہ سے خبریں لیتا ہے اور بندوں تک پہنچاتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ اللہ نبی کو عزت و شرف عطا کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں جو آسمانی پیغام اللہ سے لیکر بندوں تک پہنچاتا ہے ،یہ اللہ کی طرف سے عزت و شرف ہے۔

ایک اور طرف سے نبی اور رسول کے درمیان عموم خصوص کی نسبت ہے۔نبی کو مبعوث کیا گیا ہو چاہے انہیں تبلیغ کا حکم دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو وہ نبی ہوتا ہے،جبکہ رسول ہوتا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے بندوں تبلیغ رسالت پر مشغول ہوتا ہے۔اسی لیے انبیاءؑ کی تعداد زیادہے اور رسولوں کی تعداد کم ہے۔حضرت موسی ؑ منصب رسالت پر فائز کیا گیا اور آپ کے ماننے والے یہودی کہلائے،اسی طرح حضرت مسیح ؑ اس عہدہ پر فائز ہوئے آپ کے ماننے والےمسیحی کہلاتے اور اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمد ﷺ ہیں آپ کے پیروکار مسلمان کہلاتے ہیں۔ان کے علاوہ بھی رسول ہیں ہر عہدہ رسالت رکھنے والے پر ہمارا درود و سلام ہو۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
تھوڑی سی سمجھ آئی ہے .....

خلق خدا کو اگر پیام پہنچانا تو رسالت مل گئی
نبا تو خبر کو کہتے
نبی خبر دینے والے کو
پھر نبی تو خبر دینے والا ہوا
رسول پھر کسے کہیں گے جب کہ آپ پر خبر نازل ہوچکی
یا جب خبر اپنی ذات کے لیے ہو تو نبی. جب خبر مخلوق کے لیے ہو تو رسول؟
محترم نور وجدان، سیما آپا نے خوب وضاحت کر دی ہے۔ دراصل، مجھے یہ بات یہیں تک معلوم تھی، اس لیے واللہ اعلم لکھ دیا تھا۔
 
Top