شاہد شاہنواز
لائبریرین
اس بحر کی تقطیع نہیں کرسکتا۔۔۔ صرف اندازے پر لکھتاہوں، سو معذرت کے ساتھ پیش ہے:
زمین لگتی نہیں آسماں نہیں لگتا
ہمیں ہمارا جہاں، یہ جہاں نہیں لگتا
یوں زیرِ سایہء اشجار دھوپ چبھتی ہے
کہ سائباں بھی ہمیں سائباں نہیں لگتا
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے ، میں اس کو تکتا ہوں
کوئی خیال مگر درمیاں نہیں لگتا
سفر کا شوق نہیں ہے پہ ہم مسافر ہیں
یہ کارواں ہے مگر کارواں نہیں لگتا
امیر شہر! تو کیسے وہ دیکھ لیتا ہے؟
ہمیں جو شہر میں امن و اماں نہیں لگتا
چمن سے وحشی ہواؤں کا حال کیا کہیے
کوئی بھی پھول یہاں رازداں نہیں لگتا
چراغِ آخرِ شب کا نشان ہے شاہد
نشانِ منزلِ عمرِ رواں نہیں لگتا
۔۔۔۔
اس روایت پہ لوگ چلتے ہیں
جس کی کوئی سند نہیں ہوتی
عقلمندی کی حد تو ہے شاید
بے وقوفی کی حد نہیں ہوتی
۔۔۔۔
نشاں خود اپنی منزل کا گنوانا بھی قیامت ہے
مگر تنہا اسی منزل کو پانا بھی قیامت ہے
ابھی نکلا تھا مشکل سے مری آمد کے صدمے سے
زمانہ رو رہا ہے میرا جانا بھی قیامت ہے
بہت گمراہ نکلا ہوں خضر ہو ساتھ تو روئے
کہ راہوں میں بھٹکتا چھوڑ جانا بھی قیامت ہے
جو آنکھوں سے عیاں ہوجائے وہ عکسِ دروں شاہد
چھپانا بھی مصیبت ہے، بتانا بھی قیامت ہے
۔۔۔۔
یہ بحر بھی شاید مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہےلیکن تقطیع کا مسئلہ ہے، شاید آخری رکن فعولان ہورہا ہے۔۔۔ کیا اس کی اجازت ہوتی ہے؟
کب یہ ہے فلک سے ہیں اتارے ہوئے ہم لوگ
سچ یہ ہے کہ ہیں وقت کے مارے ہوئے ہم لوگ
بیٹھے ہیں زمیں بھی کوئی پاتال ہو جیسے
افلاک پہ چمکے نہ ستارے ہوئے ہم لوگ
بے رحم ہے، سرکش ہے کشاکش یہ جنوں کی
ٹوٹے ہوئے ، بکھرے ہوئے ہارے ہوئے ہم لوگ
۔۔۔۔۔
فی الحال اتنے پر بس کرتا ہوں۔۔۔ اصلاح تو اوپر دی گئی تمام کوششوں کی ممکن نہ ہوسکے، صرف تنقید کی درخواست ہے۔۔۔
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔
زمین لگتی نہیں آسماں نہیں لگتا
ہمیں ہمارا جہاں، یہ جہاں نہیں لگتا
یوں زیرِ سایہء اشجار دھوپ چبھتی ہے
کہ سائباں بھی ہمیں سائباں نہیں لگتا
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے ، میں اس کو تکتا ہوں
کوئی خیال مگر درمیاں نہیں لگتا
سفر کا شوق نہیں ہے پہ ہم مسافر ہیں
یہ کارواں ہے مگر کارواں نہیں لگتا
امیر شہر! تو کیسے وہ دیکھ لیتا ہے؟
ہمیں جو شہر میں امن و اماں نہیں لگتا
چمن سے وحشی ہواؤں کا حال کیا کہیے
کوئی بھی پھول یہاں رازداں نہیں لگتا
چراغِ آخرِ شب کا نشان ہے شاہد
نشانِ منزلِ عمرِ رواں نہیں لگتا
۔۔۔۔
اس روایت پہ لوگ چلتے ہیں
جس کی کوئی سند نہیں ہوتی
عقلمندی کی حد تو ہے شاید
بے وقوفی کی حد نہیں ہوتی
۔۔۔۔
نشاں خود اپنی منزل کا گنوانا بھی قیامت ہے
مگر تنہا اسی منزل کو پانا بھی قیامت ہے
ابھی نکلا تھا مشکل سے مری آمد کے صدمے سے
زمانہ رو رہا ہے میرا جانا بھی قیامت ہے
بہت گمراہ نکلا ہوں خضر ہو ساتھ تو روئے
کہ راہوں میں بھٹکتا چھوڑ جانا بھی قیامت ہے
جو آنکھوں سے عیاں ہوجائے وہ عکسِ دروں شاہد
چھپانا بھی مصیبت ہے، بتانا بھی قیامت ہے
۔۔۔۔
یہ بحر بھی شاید مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ہےلیکن تقطیع کا مسئلہ ہے، شاید آخری رکن فعولان ہورہا ہے۔۔۔ کیا اس کی اجازت ہوتی ہے؟
کب یہ ہے فلک سے ہیں اتارے ہوئے ہم لوگ
سچ یہ ہے کہ ہیں وقت کے مارے ہوئے ہم لوگ
بیٹھے ہیں زمیں بھی کوئی پاتال ہو جیسے
افلاک پہ چمکے نہ ستارے ہوئے ہم لوگ
بے رحم ہے، سرکش ہے کشاکش یہ جنوں کی
ٹوٹے ہوئے ، بکھرے ہوئے ہارے ہوئے ہم لوگ
۔۔۔۔۔
فی الحال اتنے پر بس کرتا ہوں۔۔۔ اصلاح تو اوپر دی گئی تمام کوششوں کی ممکن نہ ہوسکے، صرف تنقید کی درخواست ہے۔۔۔
محترم الف عین صاحب
محترم محمد یعقوب آسی صاحب ۔۔۔