علی ہمایون
محفلین
مجھے آج بھی یاد ہے جب ہَم دونوں بھائی 5 اور 7 سال کے تھے اور امی کے ساتھ خالہ سے ملنے بیرون ملک جانے کا پروگرام بنا تو ہَم دونوں کو جہاز کے سفر کا کتنا انتظار تھا .
رستے کے لئے چار گولیاں جوڑنے والی اک گیم بھی رکھ لی تھی جو ان دنوں آپس میں کھیلا کرتے تھے . مگر جب مغرب کے قریب جہاز نے فضا میں بلند ہوتے پنڈی ایئرپورٹ کا رَن وے چھوڑا اور ہَم دونوں نے لپک کر کھڑکی سے نیچے جھانکا تو شام کے دھندلکے میں جانے کیا تھا کے میرے حلق میں کچھ اٹکنے سا لگا . ابو جن سے گزشتہ زندگی خاص کبھی نہ نبھی تھی انکی یاد شدت سے آنے لگی . پنڈی کا شہر جس سے کبھی کوئی وابستگی نہ رہی تھی شام کے اندھیرے میں نیچے رہتے ہوئے جانے کیوں اچانک سے اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا . شاید پیچھے رہ جانے والی چیزیں ایسے ہی حلق کا کانٹا بن جایا کرتی ہیں .
جب جہاز بلند ہوا تو ہَم دونوں نے اگلی سیٹ کی پشت سے لگی کھانے کی میز پر گولیوں والی گیم بکھیر کر کھیلنے کی بہت کوشش کی مگر ہوا کے دباؤ میں لگتے جھٹکوں سے موقع جی نہ مل سکا .
آج 25 سال بَعْد ہَم دونوں اپنی اپنی زندگی کے جھمیلوں میں محو ہیں . اب کچھ بھی کرنا آسَان لگتا ہے . کسی چیز کا نہ انتظار رہتا ہے نہ شوق .
بھائی بھی روزو شب کی تگ و دو میں مصروف ہے . مجھے بھی اکثر سفر درپیش رہتا ہے . آج بھی میں اسی پنڈی ایئرپورٹ کے رَن وے پر سیڑھی لگے جہاز پے چڑھنے کی قطار میں بے دِلی سے کھڑا ہوں . مگر ملجگے اندھیرے کی وہ ڈھلتی شام اپنے ساتھ خوشی اور اداسی کے شدید احساسات لئے وقت کی دوڑ میں جانے پیچھے کہاں رہ گئی ہے
رستے کے لئے چار گولیاں جوڑنے والی اک گیم بھی رکھ لی تھی جو ان دنوں آپس میں کھیلا کرتے تھے . مگر جب مغرب کے قریب جہاز نے فضا میں بلند ہوتے پنڈی ایئرپورٹ کا رَن وے چھوڑا اور ہَم دونوں نے لپک کر کھڑکی سے نیچے جھانکا تو شام کے دھندلکے میں جانے کیا تھا کے میرے حلق میں کچھ اٹکنے سا لگا . ابو جن سے گزشتہ زندگی خاص کبھی نہ نبھی تھی انکی یاد شدت سے آنے لگی . پنڈی کا شہر جس سے کبھی کوئی وابستگی نہ رہی تھی شام کے اندھیرے میں نیچے رہتے ہوئے جانے کیوں اچانک سے اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا . شاید پیچھے رہ جانے والی چیزیں ایسے ہی حلق کا کانٹا بن جایا کرتی ہیں .
جب جہاز بلند ہوا تو ہَم دونوں نے اگلی سیٹ کی پشت سے لگی کھانے کی میز پر گولیوں والی گیم بکھیر کر کھیلنے کی بہت کوشش کی مگر ہوا کے دباؤ میں لگتے جھٹکوں سے موقع جی نہ مل سکا .
آج 25 سال بَعْد ہَم دونوں اپنی اپنی زندگی کے جھمیلوں میں محو ہیں . اب کچھ بھی کرنا آسَان لگتا ہے . کسی چیز کا نہ انتظار رہتا ہے نہ شوق .
بھائی بھی روزو شب کی تگ و دو میں مصروف ہے . مجھے بھی اکثر سفر درپیش رہتا ہے . آج بھی میں اسی پنڈی ایئرپورٹ کے رَن وے پر سیڑھی لگے جہاز پے چڑھنے کی قطار میں بے دِلی سے کھڑا ہوں . مگر ملجگے اندھیرے کی وہ ڈھلتی شام اپنے ساتھ خوشی اور اداسی کے شدید احساسات لئے وقت کی دوڑ میں جانے پیچھے کہاں رہ گئی ہے