زمین کی چھت پہ پڑا آسمان ہوں تنہا
عمارتوں میں گھرا اک مکان ہوں تنہا
عمارتوں میں گھرا اک مکان ہوں تنہا
ادھورے چاند کی صورت دریدہ عکس بھی ہوں
تہہ کھنڈر بھی ، بکھرتا نشان ہوں تنہا
تہہ کھنڈر بھی ، بکھرتا نشان ہوں تنہا
کبھی ہوں بھیڑ کہ تل دھرنے کو جگہ نہ ملے
کبھی میں رات کی اُجڑی دکان ہوں تنہا
کبھی میں رات کی اُجڑی دکان ہوں تنہا
میں منقسم ہوں اگرچہ گھڑی کی سوئیوں میں
مگر زمین پہ ٹھہرا زمان ہوں تنہا
مگر زمین پہ ٹھہرا زمان ہوں تنہا
اک ایک کر کے مسافر تمام دور ہوئے
مگر میں اب بھی کھڑا، سائبان ہوں تنہا
مگر میں اب بھی کھڑا، سائبان ہوں تنہا
درونِ آب سبھی کچھ ہوا ہے جس کا غریق
ندی میں تیرتا وہ بادبان ہوں تنہا
ندی میں تیرتا وہ بادبان ہوں تنہا
کوئی دھڑکتا ہوا بم دبا ہے مجھ میں اور
کسی بھی لحظہ بکھرتی چٹان ہوں تنہا
کسی بھی لحظہ بکھرتی چٹان ہوں تنہا
نہ جانے کون، کہاں، کب اڑا کے لے جائے
صدر کی لہر پہ لکھا بیان ہوں تنہا
صدر کی لہر پہ لکھا بیان ہوں تنہا
مقامِ عبرت دنیا اگر نہیں میں علی
تو کیوں پھر اس کے ہی جیسا گمان ہوں تنہا؎
تو کیوں پھر اس کے ہی جیسا گمان ہوں تنہا؎
محمد علی خان