طارق شاہ
محفلین
غزل
زمیں کے حلقے سے نکلا ، تو چاند پچھتایا
کشش بچھانے لگا ہے ہر اگلا سیّارہ
میں پانیوں کی مُسافر ، وہ آسمانوں کا
کہاں سے ربط بڑھائیں ،کہ درمیاں ہے خلا
بچھڑتے وقت دِلوں کو اگرچہ دُکھ تو ہُوا
کُھلی فضا میں مگر سانس لینا اچھا ہو گا
جو صرف رُوح تھا ، فُرقت میں بھی وصال میں بھی
اُسے بدن کے اثر سے رہا تو ہونا تھا
گئے دِنوں جو تھا ذہن و جسم کی لذّت
وہی وصال، طبیعت کا جبر بننے لگا
چلی ہے تھام کے بادل کے ہاتھ کو خوشبو
ہَوا کے ساتھ سفر کا مقابلہ ٹھہرا
برس سکے تو برس جائے اِس گھڑی ، ورنہ
بکھیر ڈالے گی بادل کے سارے خواب ، ہَوا
پروین شاکر