فیض زنداں کی ایک شام

نیرنگ خیال

لائبریرین
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں ،محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار

شانۂ بام پر دمکتا ہے!
مہرباں چاندنی کا دستِ جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آبِ نجوم
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موجِ دردِ فراقِ یار آئے

دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں​
 
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
اہا اہا اہا
کیا کہنے:)
میری پسندیدہ نظموں میں سے ایک
شراکت کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
اہا اہا اہا
کیا کہنے:)
میری پسندیدہ نظموں میں سے ایک
شراکت کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
انتخاب کو پسند کرنے پر شکرگزار ہوں شاہ جی۔۔۔ :)

زبردست۔:applause:

بندہ یہ ضیاء محی الدین کی آواز میں سنے ارشد محمود کی کمپوزیشن کیساتھ۔ (y)
جی ضیا صاحب کی آواز تو ویسے ہی کلاسک ہے۔۔۔ :)
 
Top