زندگانی عذاب ہو تو ہو غزل نمبر 84 شاعر امین شارؔق

امین شارق

محفلین
زندگانی عذاب ہو تو ہو
عشق میں کامیاب ہو تو ہو


نظرِ عاشق تو پڑ ہی جاتی ہے
حُسن تُو با حجاب ہو تو ہو

عشق میں قیس کے ہم ثانی ہیں
خوبصورت جناب ہو تو ہو

ہم بھی آخرکو عشق کر بیٹھے
دل کی حالت خراب ہو تو ہو

ہم نے تو کرلیا سوالِ عشق
پاس ان کے جواب ہو تو ہو

عُمر بے چین کاٹی ہے، مرکر
اب سکوں دستیاب ہو تو ہو

رند ہیں یار میرے ملنے دو
میکدے میں شراب ہو تو ہو

رُوٹھ جائیں گے ہم سدا کے لئے
پھر ان آنکھوں میں آب ہو تو ہو

غم نا کر پیڑ ہیں نا سایہ دار
طیش میں آفتاب ہو تو ہو

خُلد دنیا ہے حُسن والوں کا
روزِ محشر حساب ہو تو ہو

عشق پر تو سزائیں لازم ہیں
حُسن کا سدباب ہو تو ہو

آج تو عیش میں ہیں، ظالم کا
کل کبھی احتساب ہو تو ہو

نیک اعمال کرتے رہنا سدا
چاہے اجر و ثواب ہو تو ہو

ذوق والوں میں آپ کی شارؔق
یہ غزل انتخاب ہو تو ہو
 
زندگانی عذاب ہو تو ہو
عشق میں کامیاب ہو تو ہو
بھائی روزمرہ اور محاورے کی مطابقت پر بھی دھیان دیا کیجیے۔
موجودہ صورت میں مطلع بے معنی ہو کر رہ گیا ہے، دونوں مصرعوں میں کوئی ربط نہیں۔

نظرِ عاشق تو پڑ ہی جاتی ہے
حُسن تُو با حجاب ہو تو ہو
پہلا مصرع بحر میں نہیں ۔۔۔ نظر اگر اضافی ترکیب میں ہو تو بھی ظ مفتوح ہی پڑھی جاتی ہے، ساکن نہیں ہوتی ۔۔۔ یعنی اس کا تلفظ نَ+ظَ+رِ+عا+شق ہوگا ۔۔۔ نَظْ+رِ+عا+شق نہیں۔

عشق میں قیس کے ہم ثانی ہیں
خوبصورت جناب ہو تو ہو
پہلا مصرع بحر میں نہیں ۔۔۔ عشق میں ہم ہی قیسِ ثانی ہیں ۔۔۔ کہہ سکتے ہیں،
لیکن قیس کا تذکرہ عموما یا تو لیلیٰ کے مقابل کیا جاتا ہے یا پھر جنون، دیوانگی، آوارگی وغیرہ کے استعارے کے طور پر ۔۔۔ یہاں مجرد قیس کا نام لینے کی علت سمجھ نہیں آئی ۔۔۔
دوسرے مصرعے میں ردیف گرامر کے حساب سے ٹھیک نہیں ۔۔۔ یہاں ’’ہوں تو ہوں‘‘ کا محل ہے۔ دیگر کچھ اشعار میں بھی ردیف کا مسئلہ ہے کہ وہ درست ’’فٹ‘‘ نہیں ہو رہی۔

ہم نے تو کرلیا سوالِ عشق
پاس ان کے جواب ہو تو ہو
یہاں ردیف کی جگہ ہو نہ ہو کا محل ہے ۔۔۔

عُمر بے چین کاٹی ہے، مرکر
اب سکوں دستیاب ہو تو ہو
کاٹی کا محض کاٹِ تقطیع ہونا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ پھر بندش بھی اتنی چست نہیں، کاما نہ لگا ہو تو مصرع بے معنی ہونے کا احتمال رہتا ہے۔

رند ہیں یار میرے ملنے دو
میکدے میں شراب ہو تو ہو
اس کا مفہوم بھی مجہول ہے۔

رُوٹھ جائیں گے ہم سدا کے لئے
پھر ان آنکھوں میں آب ہو تو ہو
ہم جو روٹھے تو پھر نہ مانیں گے
تیری آنکھوں میں آب ہو تو ہو ۔۔۔ لیکن آنسوؤں کے لیے اس طرح مطلق آب استعمال کرنا مجھے مناسب نہیں لگتا۔

عشق پر تو سزائیں لازم ہیں
حُسن کا سدباب ہو تو ہو
مطلب؟؟؟ اور حسن کا سدباب کیا اور کیسے ہوتا ہے؟ ۔۔۔ یہ ضروری تو نہیں کہ سب ہم آواز الفاظ کو قافیہ باندھ لیا جائے؟

نیک اعمال کرتے رہنا سدا
چاہے اجر و ثواب ہو تو ہو
کرتے کی ی اور رہنا کی الف کا یکے بعد دیگرے اسقاط روانی کو مجروح کر رہا ہے ۔۔۔ ردیف بھی بے معنی ہے ۔۔۔ یہاں بھی ہو نہ ہو کا محل ہے۔

ذوق والوں میں آپ کی شارؔق
یہ غزل انتخاب ہو تو ہو
ذوق والوں میں غزل انتخاب نہیں منتخب ہو گی۔
 

امین شارق

محفلین
بھائی روزمرہ اور محاورے کی مطابقت پر بھی دھیان دیا کیجیے۔
موجودہ صورت میں مطلع بے معنی ہو کر رہ گیا ہے، دونوں مصرعوں میں کوئی ربط نہیں۔


پہلا مصرع بحر میں نہیں ۔۔۔ نظر اگر اضافی ترکیب میں ہو تو بھی ظ مفتوح ہی پڑھی جاتی ہے، ساکن نہیں ہوتی ۔۔۔ یعنی اس کا تلفظ نَ+ظَ+رِ+عا+شق ہوگا ۔۔۔ نَظْ+رِ+عا+شق نہیں۔


پہلا مصرع بحر میں نہیں ۔۔۔ عشق میں ہم ہی قیسِ ثانی ہیں ۔۔۔ کہہ سکتے ہیں،
لیکن قیس کا تذکرہ عموما یا تو لیلیٰ کے مقابل کیا جاتا ہے یا پھر جنون، دیوانگی، آوارگی وغیرہ کے استعارے کے طور پر ۔۔۔ یہاں مجرد قیس کا نام لینے کی علت سمجھ نہیں آئی ۔۔۔
دوسرے مصرعے میں ردیف گرامر کے حساب سے ٹھیک نہیں ۔۔۔ یہاں ’’ہوں تو ہوں‘‘ کا محل ہے۔ دیگر کچھ اشعار میں بھی ردیف کا مسئلہ ہے کہ وہ درست ’’فٹ‘‘ نہیں ہو رہی۔


یہاں ردیف کی جگہ ہو نہ ہو کا محل ہے ۔۔۔


کاٹی کا محض کاٹِ تقطیع ہونا اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ پھر بندش بھی اتنی چست نہیں، کاما نہ لگا ہو تو مصرع بے معنی ہونے کا احتمال رہتا ہے۔


اس کا مفہوم بھی مجہول ہے۔


ہم جو روٹھے تو پھر نہ مانیں گے
تیری آنکھوں میں آب ہو تو ہو ۔۔۔ لیکن آنسوؤں کے لیے اس طرح مطلق آب استعمال کرنا مجھے مناسب نہیں لگتا۔


مطلب؟؟؟ اور حسن کا سدباب کیا اور کیسے ہوتا ہے؟ ۔۔۔ یہ ضروری تو نہیں کہ سب ہم آواز الفاظ کو قافیہ باندھ لیا جائے؟


کرتے کی ی اور رہنا کی الف کا یکے بعد دیگرے اسقاط روانی کو مجروح کر رہا ہے ۔۔۔ ردیف بھی بے معنی ہے ۔۔۔ یہاں بھی ہو نہ ہو کا محل ہے۔


ذوق والوں میں غزل انتخاب نہیں منتخب ہو گی۔
بہت شکریہ احسن بھائی آپ نے بہت اچھی باتیں بتائی معلومات میں اضافہ ہوا غلطیاں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں
 
Top