محمد خرم یاسین
محفلین
http://sheheryar.es/?p=6124
ہر امتحان کے طرح یہ امتحان بھی اپنے ساتھ بہت سے چھوٹے بڑے امتحانات کی بارات لایا تھا۔ ۔۔۔
اردو بازار کے باہر لگے پھٹوں پر بکتی سستی کتابوں میں سے مقابلے کے امتحان کی (سی ایس ایس ) ایک کتاب خرید کر پڑھنا شروع کی تو ہسپتال میں ساتھ ڈیوٹی کرتے لڑکے نے ، جو عمر میں مجھ سے خاصا بڑا تھا فوراً تنبیہہ کی :
’’یہ ہمارے جیسوں کا کام نہیں ہے۔ میرا ایک کزن سی ایس ایس کا امتحان پاس کر گیا تھا لیکن انٹرویو پینل نے جب پوچھا کہ تمہاری جائیداد کتنی ہے اور تم کتنے پیسے بطور رشوت دے سکتے ہو تو وہ بیچارہ منہ لٹکا کر واپس لوٹ آیا‘‘
پھر اس نے اس سے متعلق اور بہت سی روح فرسا کہانیاں سناڈالیں۔ میں جو بڑا چاؤ سے کتاب کے پہلے صفحے پر پہلے سے لکھے نام کو مٹا کر اس پر اپنا نام لکھنے میں بمشکل کامیاب ہوا تھا، دلبرداشتہ ہوگیا۔ میں نے اس کی تمام باتیں بڑے غور سے سنیں اور اس کے لہجے کا خلوص دیکھ کر وہاں سے اٹھ گیا۔ ویسے تو مجھے اس پر زیادہ اعتبار نہیں تھا کہ میری اس سے کئی بارریسیپشن پر بیٹھے لوگوں کو تنگ کرنے کی وجہ سے تکرار ہوچکی تھی اورایک دو بار تو نوبت جھگڑے تک بھی جا پہنچی تھی۔۔۔وہ ریسپشن کے قریب پڑے ایک بینچ پر بیٹھا اپنی ہی قماش کے دو دوستوں کے ساتھ مل کر ان خواتین پر کمنٹس کرتا اور مذاق اڑاتا تھا جن کی قمیص کا پچھلا دامن ریسپشن کی چھت پر لگے پنکھے کی ہوا سے اوپر کی جانب اٹھ جاتا تھا۔کبھی وہ ریسیپشن پر بیٹھے ہسپتال میں آئے پریشان حال رہنمائی طلب کرتے لوگوں کے ساتھ مذاق کیا کرتا تھا یا انہیں ڈانٹ دیا کرتا تھا۔اس کی ایسی بہت سی حرکتوں کی وجہ سے مجھ سمیت کئی لوگ اس سے نالاں بلکہ بد دل تھے۔ ۔۔ لیکن سی ایس ایس کے معاملے میں شاید وہ میرے ساتھ بالکل مخلص تھا اور سیریس بھی۔ شکر ہے اس نے میرابہت ساقیمتی وقت بچالیاتھا۔
اگلے دن ڈیوٹی پر نکلنے سے پہلے میں نے کتاب پر ایک نظر ڈالی۔ اس کی جانب ہاتھ بڑھایا مگر ایک خیال کے تحت سر جھٹک کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
’’تو ٹھیک ہے اگر ہم غریبوں کے لیے سی ایس ایس بھی لا حاصل ہی ہے تو میں اس کے لیے محنت کیوں کروں؟‘‘
میں نے کتاب کوارٹر میں ہی چھوڑ دی اور ہسپتال کی جانب روانہ ہوگیا۔ خیر یہ تو بہت دیر بعدکی بات ہے جب میرے سی ایس ایس کے حوالے سے بہت سے شبہات دور ہوئے اور میں نے تیاری پر کمر باندھی اور دو سال کے دوران میرے کئی دوست اور اساتذہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے مختلف شعبوں میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوگئے۔اس وقت معلوم ہوا کہ اس دوست کی تمام تر کہانیاں محض بکواس تھیں ، ایسی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہی سی ایس ایس کی نوکریاں کسی امیر کی بگڑی اولاد کی ہی جاگیر تھیں۔۔۔ وہ کولیگ اکثر مجھے یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ شاید ایسے لوگ دوسروں کے حوصلے پست کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے ۔ یہ شاید
ان کی کسی محرومی کا نتیجہ ہے یا حسد کی کوئی قسم۔۔۔ ایسے بہت سے کردار ہمارے معاشرے میں اکثر دستیاب رہتے ہیں۔
میں نے ایک سال ایس ایس میں بھر پور محنت کی اور جب امتحانات قریب آئے تواپنے ایک افسر کے اس دلاسے پر امتحان نہیں دیاکہ اگر میں نے امتحان کے لیے چھٹی لی تو سرکاری دفتر خالی ہوجائے گا اور ابھی میری عمر ہی کیا ہے، اس بار چھوڑ بھی دوں تو کوئی حرج نہیں، میرے پاس تینوں چانسز بعینہہ موجود رہیں گے۔ سارا د ن دفتر میں فائلوں میں سرگھسائے اور سب سے زیادہ بور کرنے والے کمپیوٹر جس میں نیٹ ہمیشہ آنکھ مچولی کھیلتا رہتا تھا ، میں سمجھتا تھا کہ بنا لمبی چھٹی لیے میں پڑھ نہیں پاؤں گا۔افسر کے اس دلاسے پر میں رک گیاکہ اگلی بار وہ مجھے تین ماہ کی چھٹی لے دے گا،کیوں کہ اس بار اس نے خود امتحان دینا تھا۔ اگلی باراس کو اچھی نوکری ملی تو وہ دفتر چھوڑکر چلا گیا ، میری چھٹی کی درخواست پر سائن تک نہیں کیے اور میں بے یارو مددگار اس دفتر میں پھنسا رہ گیا۔ اس ایک سال کے وقفے کے دوران وہی ہواجس کا مجھے ڈر تھا ، میں نالائق بچوں کی طرح پڑھائی سے دور رہا،اور آخری دنوں میں خوب محنت کرنے کے لیے تین ماہ کی بنا تنخواہ چھٹیاں لے کر ایک دوست کے کمرے میں جابیٹھا۔ اب صرف شب و روز کی پڑھائی تھی اور میں تھا۔آہستہ آہستہ ملک بھر سے بہت سارے لوگ ساتھ اٹیچ ہوتے گئے۔ کئی سے پڑھائی میں مدد لی تو کئی کی مدد کرتارہا ۔اس تیاری کے دوران ایک عزیز از جاں دوست کا ساتھ بھی نصیب رہا جس سے بعد میں لین دین کے سلسلے میں تعلقات کم ہو کرتقریباً ختم ہی ہوگئے ۔سچ ہے پیسے کا لین دین مخلص رشتوں میں بھی زہر بھر دیتا ہے۔
مقابلے کا امتحان شروع ہوا۔ خیر سے پہلے دن کے دو پیپر وں کے بعد شام کو والد صاحب اور بھائی میرے کمرے میں آئے۔ میں کچھ سننے سنانے کے موڈ میں نہیں تھا کہ طبیعت بہت بوجھل ہورہی تھی۔آرام کرنا چاہتا تھا کہ دو دن اور تین راتوں کا جاگا ہوا تھااور مجھے یقین تھا کہ وہ امتحان کے بارے میں پوچھنے آئے ہوں گے۔ خلافِ توقع انہوں نے بتایا کہ میرے لیے لڑکی دیکھ آئے ہیں، میں نے پوچھا آپ کو پسند ہے؟ جواب اثبات میں تھا، میں نے شکر ادا کیا اور ان کی خوشی میں شریک ہوگیا۔ بھائی منہ میٹھا کر وا کے نیچے چلے گئے اور میں بنا کسی بھی مسرت و انبساط کی کیفیت کے دوبارہ سے کتاب کھول کر بیٹھ گیا کہ اس وقت میرے لیے سب سے اہم میری پڑھائی ہی تھی۔ ویسے بھی اساتذہ نے ہٹلر کا یہ قول کہ ایک اچھی لڑکی اچھے مستقبل کی ضامن نہیں لیکن ایک اچھا مستقبل بہت سی اچھی لڑکیاں دے سکتا ہے، اتنی بار دہرا یا تھا کہ یہ ہمارے تعلیمی مشن کا حصہ بن کر رہ گیا تھا۔ سی ایس ایس سے پہلے شادی ، منگنی، سب بے معنی تھے کہ نظریں آسمان کی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ شاید یہ میری انفرادی ذہنی کیفیت تھی ، لیکن میری اس سوچ کو میرے دیگر ساتھی ایک ہی جیسی کیفیت کے اظہار کے ساتھ نفی میں بدل دیتے تھے۔ سبھی کا حال ایک جیسا تھا
سوائے ان چند برائے نام طلبہ و طالبات کے جو اکیڈمیوں میں پڑھائی کے بجائے اچھے رشتوں کی تلاش میں آتے تھے۔ ظاہر ہے اگر کوئی اس قدر ذہین فطین طالبعلم یا طالبہ مل جائے جس سے ایک خوبصورت مستقبل وابستہ ہونے کے قوی امکانات ہوں تو اور کیا چاہیے؟ کیا کرنااتنی محنت کر کے ؟ شاید ایسے لوگ ہم سے زیادہ ذہین تھے۔ خیر ۔۔۔ابھی جب کہ میرے منہ سے مٹھائی کا ذائقہ بھی زائل نہیں ہوا تھا ،بڑے بھائی دوبارہ سے گھبرائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ میرے کچھ سمجھنے سمجھانے سے پہلے ہی وہ تیزی سے بولے کہ والدِ محترم کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ آن کی آن میں ان تک پہنچا، دیکھا، ہسپتال کی جانب لے کر روانہ ہوئے لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ اچانک ہارٹ اٹیک سے راہِ عدم کے مسافرہوگئے تھے۔ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ ۔۔ریٹائرمنٹ کے بعد اب جب کہ وہ کسی قدر تنہائی کا شکار ہوچکے تھے،میں نے ان کے لیے بہت سے پروگرام ترتیب دیے تھے جن میں اہم ترین پروگرام ان کو شہر کے ادبی حلقوں کے اجلاسوں میں لے جانے اور ہر رو ز صبح کی سیر کے لیے رکشے کا بندوبست
کرنا شامل تھا ۔۔۔میں ان پروگراموں کے لیے اس مناسب وقت کا انتظار کر رہا تھا جب میں مستقبل قریب میں کسی قدر کم مصروف ہوں گا یا نوکری کے بعد محض فراغت کے لمحات سے لطف اندوز ہوں گا۔ملک الموت کی اک آواز نے میرے سارے پروگراموں پر مٹی پھیر دی تھی۔والدِ محترم کے اس قدر اچانک انتقال نے نظامِ زندگی تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ مجھے شاید زندگی بھریہ پچھتاوا رہے کہ میں اپنی پڑھائی اور مستقبل کے اندھے سفر میں ان کی خدمت سے کسی حد تک غافل ہو گیا تھا۔ بہت سے پروگراموں کو حتمی شکل نہ دے سکا تھا۔۔۔بہر حال یہ امتحانات ادھورے رہ گئے تھے اور ہی میرا مستقبل بھی۔
زندگی میں جتنے بھی امتحانات دیے ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور پیش رہا، چونکہ میرے لیے سب سے زیادہ قیمتی میرے والدین تھے اور رہیں گے، اس لیے پی ایچ ڈی کے پہلے سمیسٹر میں والدہ سے بچھڑنا بھی بہت تکلیف دہ عمل رہا۔ ایک روز قبل کراچی پہنچنے والی والدہ محترمہ کے بارے میں بھائی کا یہ خواب کہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں اور مجھے ان تک پہنچ کر انہیں واپس لانا چاہیے، انہیں رات چار بجے جگاکر میرے کمرے تک لے آیا۔ میرے دروازے پر ہلکی دستک کے نتیجے میں ، میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا، کہ جس شعبے سے میں تعلق رکھتا تھا اس میں ایمر جنسی کے شکار ہر وقت درواز ے پر دستک دیتے تھے، لیکن اس بار باہر بھائی کھڑے تھے۔
’’ لائٹ آن نہ کرنا‘‘ بھائی نے میری بٹن پر سرکتی انگلیوں کی جنبش کوروک کر رکھدیا تھا۔ انہوں نے والدہ کے بارے میں اپنا خواب سنایا اور ان کی طبیعت کے حوالے سے خدشے کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ میں فوراً تیار ہو کر اگلے چند منٹ بعد لاہور ایر پورٹ کے لیے روانہ ہو جاؤں۔ٹھیک پندرہ منٹ بعد لاہور پہنچنے کے لیے ڈائیوو میں سفر کر رہاتھا۔بہت سے وسوسوں نے کسی گرداب کی صورت مجھے خود میں پھنسا رکھاتھا ۔ میں نجانے والدہ کے بارے میں کیا کیا سوچ رہا تھا۔ ۔۔شکرِ خدا ائر پورٹ پر پہنچتے ہی فلائیٹ میسر ہوگئی۔شاید آخری سیٹ میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔ائیر پورٹ پر چھوٹی بہن کی کال آئی کہ والدہ ٹھیک ہیں، معمولی بیمار ہیں شاید زکام کی کوئی بگڑی حالت ہے۔۔۔اور یہ بھی کہ کراچی آنے کی ضرورت نہیں۔لیکن میں اس وقت تک جہاز میں سوار ہوچکا تھا۔کراچی ائیر پورٹ پر اترا تو ماموں زاد بھائی کی کال آئی کہ والدہ کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہوگئی ہے، میں لیاقت نیشنل ہسپتال پہنچوں۔ وہاں پہنچا تو والدہ کو بے سر و ساماں پایا۔ ہوش سے بیگانہ وہ نجانے کس حالت میں تھیں۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ انہیں ہارٹ اٹیک بھی ہوا تھا، گردوں میں بھی مسئلہ تھا اور سانس بھی نہیں آرہاتھااور یہ بھی کہ انہیں یہاں وینٹی لیٹر میں رکھنے کے لیے ستر ہزار روپے بطور ایڈوانس جمع کروادوں ورنہ میں اپنا مریض لے جا سکتا ہوں۔۔۔۔۔ گرچہ میں ڈاکٹروں کی اس قسم کی بے حسی اور ظلم کی کئی مثالیں دیکھ چکا تھا اور بہت سے واقعات جن میں سے۔۔۔ ایک جوان لڑکی کا واقعہ جو میں کبھی نہ بھول پایا تھا جس میں نارمل ڈلیوری کیس کو آپریشن بنانے کے لیے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورے جاسکیں، بچہ دانی پر ہلکا سا کٹ لگایاگیا تھا جو کہ غلطی سے بڑا کٹ لگ جانے کے سبب بعد میں بچہ دانی کوہی مکمل آپریٹ کرکے نکال کر مریضہ کی جان بچائی گی تھی۔۔۔ایک سال قبل شادی ہونے والی لڑکی بانجھ ہونے کی صورت میں سسرال سے طلاق یافتہ ہوکر ہمیشہ کے لیے گھر بیٹھ گئی تھی، کبھی نہیں بھولا تھا۔ ۔۔۔۔لیکن اس وقت دیارِ غیر میں ہمیشہ ہنستی مسکراتی والدہ ، جو میری زندگی کا کل اثاثہ تھیں، سب سے بڑی موٹی ویشن تھیں، میرا سب کچھ تھیں، بے ہوشی کی حالت میں نجانے کس تکلیف سے گزر رہی تھیں ایسے میں ڈاکٹروں کا یہ رویہ کچھ زیادہ ہی تکلیف کا باعث تھا۔ ۔۔ کاش ہمارے ہاں انقلاب لا چکنے والے اور لانے کے نعرے لگانے والے ہماری تعلیم اور میڈیکل کے شعبوں میں انقلاب لے آئیں۔ میں نے فیس جمع کر وانے کے بعد کسی ایک ہسپتال یا ڈاکٹر پر انحصار کرنے کے بجائے صبح سے شام تک کراچی بھر کے بہترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا دورہ کیا، والدہ کی میڈیکل فائل دکھائی اور مشورے کیے۔۔۔ مجھے کسی بھی جگہ تسلی ہوئی نہ اطمینان۔۔۔ہر جگہ زندگی کے سوداگر بیٹھے ملے۔ ہر جگہ انسانیت کی تذلیل دیکھی۔ ۔۔ میڈیکل کی فیلڈہونے کے سبب میں سب سمجھ سکتا تھا کہ یہ لوگ کس طرح بے وقوف بنا کر عوام الناس کو لوٹ رہے ہیں۔۔۔وینٹی لیٹر اورریسپائریٹر میں کیا فرق ہے ۔۔۔کس ٹیسٹ کی مالیت کیا ہے اور کیا وصول کی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی سے زیادہ انسانیت کی تذلیل میں نے کسی بڑے شہر میں نہیں دیکھی۔دہشت گردی کے واقعات اور روز روز کی ماردھاڑ نے شاید وہاں انسانیت کا مفہوم موہوم کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔ آخر پورے ایک دن اور ایک رات کے ساتھ کے بعد وہ والدہ محترمہ صبح چھ بجے خالقِ حقیقی سے جا ملیں اور میں انہیں لے کر واپس اپنے پیاروں میں لوٹ آیا۔ ۔۔ جو ان کا آخری دیدار کر سکیں۔۔۔ان کے بند لبوں سے بلند ہوتی دعائیں محسوس کر سکیں۔ ۔۔ ان کے بے جان ہاتھوں کو اپنے سروں پر محسوس کرکے کچھ طمانیت کا احساس پا سکیں۔۔۔جن ہاتھوں سے لڈو چوریاں کھائی تھیں ، جس وجودکے سائے تلے بچپن سے لڑکپن اور جوانی کی دہلیز تک کا فاصلہ طے کیا تھا، اپنے ہاتھوں سے انہیں مٹی میں دفنا سکیں۔۔۔۔یہ سمیسٹر بھی ایسے ہی گزرا تھا!
سرکاری نوکری میں گھر کے اخراجات کے بعد اتنے پیسے نہیں بچتے کہ انسان پڑھائی بھی جاری رکھ سکے، بہت ساری کتابیں خرید سکے، کمپیوٹر، نیٹ اور پرنٹر کے اخراجات برداشت کرسکے، یا شاید یہ معاملہ میرے جیسے لوگوں کے ساتھ ہی ہے جو حلالی خون ہونے کے ناطے رزقِ حلال کو ہی شعار بنائے ہوئے ہیں بہر حال ۔۔۔تعلیمی اخراجات کے ساتھ ہائیر کلاس کے اخراجات ادھار کے ساتھ پورے ہورہے تھے کہ ایچ ای سی نے وظیفے کے امتحان کا اعلان کیا۔ یہ خدا کی طرف سے ایک موقع تھا کہ میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر سکوں، وظیفے پر پڑھ سکوں۔میں نے امتحان سے کچھ عرصہ قبل داخلہ بھیج دیا تھا۔ یہ بھی مقابلے کا امتحان تھا، پاس شدہ امیدواران کو میرٹ کے مطابق وظیفہ ملنا تھا۔ چھوٹی بہن کی شادی سر پر تھی تو سوچا کہ امتحان کی تیاری بعد میں ہوجائے گی پہلے شادی کی تیاریاں مکمل کر لی جائیں۔ جہیز کا سامان اٹھوا رہا تھا کہ سیڑھیوں سے سامان سمیت گرا اور پاؤں کی تین ہڈیاں تڑوا بیٹھا جب کہ چوتھی ہڈی میں دراڑ کا انکشاف چند دن بعد نئے ایکسرے میں ہوا۔ کسی کی غلطی کی سزا بھگتنا پڑی لیکن میں نے کسی کو بھی الزام دینے کے بجائے اس بات پر خود کو تسلی دی کہ یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے اور وہی شفا دے گا۔ والدین کے بچھڑنے کے بعد یہ میرا تیسرا بڑا نقصان تھا ۔اگلے چند دن شادی میں ہی گزر گئے۔ ذرا بہتر ہوا تو سوچا کہ اپنے (علیحدہ نئے)گھرمیں شفٹ ہوجاؤں وہاں لیٹا رہوں گا تو کچھ پڑھ لوں گا ،تیاری ہوجائے گی نا کسی کی مداخلت ہو گی اور نا ہی دفتر جا کے سر کھپانے کا چکر۔میری یہ خوش گمانی مسلسل تکلیف اور ملاقاتیوں کے باعث ہوا ہو کر رہ گئی تھی۔ چونکہ حلقہ احباب خاصا وسیع تھا اس لیے روزانہ کم از کم تین احباب ضرور ملنے آتے تھے جبکہ رشتہ دار ان کے علاوہ تھے۔۔۔بیشتر کتابیں سرہانے دھرے رہ جاتیں دن گزرجاتا اور ساری رات تکلیف اور بجلی کی آنکھ مچولی کے سبب مچھروں سے جھگڑتے گزر جاتی ۔
اگروظیفے کے امتحان کا تعلق متعلقہ پڑھائی سے ہی ہوتا تو پھر بھی کوئی ایک آدھ کتاب پڑھ لینا مشکل نہ تھا، اردو، اسلامیات ، مطالعہ پاکستان، عربی، فارسی، جرنلزم، پنجابی، سندھی، بلوچی، کیمسٹری، فزکس، میتھ، بائیولوجی، تمام قسم کے شعبہ جات کے لیے ایک ہی پیپر تھا جوکہ انگلش ، ریاضی اور انگلش میں جائزہ جاتی سوالات پر مبنی تھا۔۔۔اس لیے بھی پڑھائی میں توجہ نہ ہو بن سکی ۔چند دن بعد ایک بہت ہی مخلص دوست کے ساتھ لاہور امتحان کے لیے روانہ ہوا۔ یو ای ٹی کی وسیع سڑک پر اورنج ٹرین کی کارستانی دیکھ کر دل بہت اداس ہوا، ساری سٹرک ملبے اور کیچڑ کا ڈھیر بنی ہوئی تھی، خدا ہمیں ہماری اصل ٹرینیں بھی صحیح انداز میں چلانے کی توفیق دے۔ آمین۔ ہزاروں لوگوں کی موجود گی میں دوست بڑی مشکل سے گاڑی اندر لے گیا۔مجھے امتحانی مرکز پر اتار کر گاڑی پارک کر کے واپس لوٹا تو پتہ چلا کہ امتحانی سنٹرعمارت کے کسی دوسرے کونے میں ہے۔ گاڑی واپس نکالنا بہت مشکل تھا، ایک شخص نے مجھے چھڑی پکڑے ایک ٹانگ کے سہارے دھوپ میں کھڑا دیکھا تو موٹر سائیکل پر بٹھا ئے دوسرے سنٹر تک چھوڑ آیا۔ پولیس کے دو اشخاص نے کمال مہر بانی سے مجھے ہال کے دروازے تک بلا کر اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ ممتحنین میں سے ایک نے دیکھا تو سب سے پہلے
میری رولنمبر سلپ لے کر مجھے ہال میں داخلے کی اجازت دے دی اور اس سے پہلے پوچھا آپ پیپر حل کرنے کے لیے بورڈ نہیں لائے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا کہ طبیعت نا ساز ہو رہی تھی، اند ر داخل ہوکرگھسٹتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک پیپر
بورڈ نظرآیا۔ شاید کوئی مہربان اپنا پرانا بورڈ دانستہ وہاں چھوڑ گیا تھا ، میں نے اٹھایا اور شکر ادا کیاکہ یہ مشکل تو آسان ہوئی۔اپنی سیٹ تک پہنچا تو ساتھ ہی پانی کی بوتل رکھی تھی۔۔۔پھرشکر ادا کیا کہ خدا نے یہ انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا۔ چونکہ چوٹ لگنے کے بعد پہلی بارگھر سے نکلا تھا اور ایک پاؤں پر چھڑی کے سہارے اتنے قدم چلا تھا اس لیے اندازہ ہی نہیں تھا کہ دل گھبرا سکتا ہے اورطبیعت خراب ہوسکتی ہے ویسے بھی میں نے پانی کی بوتل گاڑی میں ہی چھوڑ دی تھی۔ پانی کے چند گھونٹ حلق میں انڈیلے اور بند کر کے وہیں رکھ دی ۔ پیپر سامنے آنے سے چند منٹ پہلے پاؤں کی تکلیف اچانک پھر بڑھ گئی، یہ پیپر کے قریب آنے کا نفسیاتی اثر ہر گز نہیں تھا بلکہ پاؤں کو ٹکانے کے لیے کوئی چیز میسر نہ ہونے کا سبب تھا۔ جیسے بھی ممکن ہوا پیپر دے کر واپس لوٹ آیا۔ راستے میں کئی شناسا ملے، سبھی کو ایک ہی گلہ تھا کہ پیپر کا وقت کم تھااوریہ کہ ہمارا انگلش، ریاضی اور انگلش میں جائزہ جاتی امتحان سے کیا تعلق؟۔۔۔ یہ گلہ عین درست تھا، میں متفق تھا۔ پیپر دے کر واپس گھر لوٹ آیا اور شکرادا کیا کہ طویل راستے میں کسی ناگہانی آفت کا سامنا نہیں ہوا۔ خیر یہ تو زندگی ہے، مصائب اور مسائل ساتھ ساتھ ہیں۔میں تو ہر دم خدا کا شکر گزار ہوں کہ جب بھی ، جہاں بھی مسائل کا سامنا ہوا، مداوا بھی ساتھ ہی ہوتارہا۔ ۔۔زندگی امتحان کا نام ہے۔بہت سے امتحان۔۔ ہجر کے، وصل کے ،معاشرت کے ، معاش کے وغیرہ وغیرہ۔ زندگی امتحان ضرور لیتی ہے لیکن یہ زندگی عارضی ہے اور اس کے امتحان بھی عارضی ہیں۔ خدا ہمیں آخرت کے امتحان کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ رات کے دو بج گئے ہیں، اب تک کا سارا سفر تمام ہوا،دیکھیے کل کیا ہوتا ہے۔
اردو بازار کے باہر لگے پھٹوں پر بکتی سستی کتابوں میں سے مقابلے کے امتحان کی (سی ایس ایس ) ایک کتاب خرید کر پڑھنا شروع کی تو ہسپتال میں ساتھ ڈیوٹی کرتے لڑکے نے ، جو عمر میں مجھ سے خاصا بڑا تھا فوراً تنبیہہ کی :
’’یہ ہمارے جیسوں کا کام نہیں ہے۔ میرا ایک کزن سی ایس ایس کا امتحان پاس کر گیا تھا لیکن انٹرویو پینل نے جب پوچھا کہ تمہاری جائیداد کتنی ہے اور تم کتنے پیسے بطور رشوت دے سکتے ہو تو وہ بیچارہ منہ لٹکا کر واپس لوٹ آیا‘‘
پھر اس نے اس سے متعلق اور بہت سی روح فرسا کہانیاں سناڈالیں۔ میں جو بڑا چاؤ سے کتاب کے پہلے صفحے پر پہلے سے لکھے نام کو مٹا کر اس پر اپنا نام لکھنے میں بمشکل کامیاب ہوا تھا، دلبرداشتہ ہوگیا۔ میں نے اس کی تمام باتیں بڑے غور سے سنیں اور اس کے لہجے کا خلوص دیکھ کر وہاں سے اٹھ گیا۔ ویسے تو مجھے اس پر زیادہ اعتبار نہیں تھا کہ میری اس سے کئی بارریسیپشن پر بیٹھے لوگوں کو تنگ کرنے کی وجہ سے تکرار ہوچکی تھی اورایک دو بار تو نوبت جھگڑے تک بھی جا پہنچی تھی۔۔۔وہ ریسپشن کے قریب پڑے ایک بینچ پر بیٹھا اپنی ہی قماش کے دو دوستوں کے ساتھ مل کر ان خواتین پر کمنٹس کرتا اور مذاق اڑاتا تھا جن کی قمیص کا پچھلا دامن ریسپشن کی چھت پر لگے پنکھے کی ہوا سے اوپر کی جانب اٹھ جاتا تھا۔کبھی وہ ریسیپشن پر بیٹھے ہسپتال میں آئے پریشان حال رہنمائی طلب کرتے لوگوں کے ساتھ مذاق کیا کرتا تھا یا انہیں ڈانٹ دیا کرتا تھا۔اس کی ایسی بہت سی حرکتوں کی وجہ سے مجھ سمیت کئی لوگ اس سے نالاں بلکہ بد دل تھے۔ ۔۔ لیکن سی ایس ایس کے معاملے میں شاید وہ میرے ساتھ بالکل مخلص تھا اور سیریس بھی۔ شکر ہے اس نے میرابہت ساقیمتی وقت بچالیاتھا۔
اگلے دن ڈیوٹی پر نکلنے سے پہلے میں نے کتاب پر ایک نظر ڈالی۔ اس کی جانب ہاتھ بڑھایا مگر ایک خیال کے تحت سر جھٹک کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
’’تو ٹھیک ہے اگر ہم غریبوں کے لیے سی ایس ایس بھی لا حاصل ہی ہے تو میں اس کے لیے محنت کیوں کروں؟‘‘
میں نے کتاب کوارٹر میں ہی چھوڑ دی اور ہسپتال کی جانب روانہ ہوگیا۔ خیر یہ تو بہت دیر بعدکی بات ہے جب میرے سی ایس ایس کے حوالے سے بہت سے شبہات دور ہوئے اور میں نے تیاری پر کمر باندھی اور دو سال کے دوران میرے کئی دوست اور اساتذہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے مختلف شعبوں میں بطور اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوگئے۔اس وقت معلوم ہوا کہ اس دوست کی تمام تر کہانیاں محض بکواس تھیں ، ایسی کوئی بات نہیں تھی اور نہ ہی سی ایس ایس کی نوکریاں کسی امیر کی بگڑی اولاد کی ہی جاگیر تھیں۔۔۔ وہ کولیگ اکثر مجھے یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ شاید ایسے لوگ دوسروں کے حوصلے پست کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے ۔ یہ شاید
ان کی کسی محرومی کا نتیجہ ہے یا حسد کی کوئی قسم۔۔۔ ایسے بہت سے کردار ہمارے معاشرے میں اکثر دستیاب رہتے ہیں۔
میں نے ایک سال ایس ایس میں بھر پور محنت کی اور جب امتحانات قریب آئے تواپنے ایک افسر کے اس دلاسے پر امتحان نہیں دیاکہ اگر میں نے امتحان کے لیے چھٹی لی تو سرکاری دفتر خالی ہوجائے گا اور ابھی میری عمر ہی کیا ہے، اس بار چھوڑ بھی دوں تو کوئی حرج نہیں، میرے پاس تینوں چانسز بعینہہ موجود رہیں گے۔ سارا د ن دفتر میں فائلوں میں سرگھسائے اور سب سے زیادہ بور کرنے والے کمپیوٹر جس میں نیٹ ہمیشہ آنکھ مچولی کھیلتا رہتا تھا ، میں سمجھتا تھا کہ بنا لمبی چھٹی لیے میں پڑھ نہیں پاؤں گا۔افسر کے اس دلاسے پر میں رک گیاکہ اگلی بار وہ مجھے تین ماہ کی چھٹی لے دے گا،کیوں کہ اس بار اس نے خود امتحان دینا تھا۔ اگلی باراس کو اچھی نوکری ملی تو وہ دفتر چھوڑکر چلا گیا ، میری چھٹی کی درخواست پر سائن تک نہیں کیے اور میں بے یارو مددگار اس دفتر میں پھنسا رہ گیا۔ اس ایک سال کے وقفے کے دوران وہی ہواجس کا مجھے ڈر تھا ، میں نالائق بچوں کی طرح پڑھائی سے دور رہا،اور آخری دنوں میں خوب محنت کرنے کے لیے تین ماہ کی بنا تنخواہ چھٹیاں لے کر ایک دوست کے کمرے میں جابیٹھا۔ اب صرف شب و روز کی پڑھائی تھی اور میں تھا۔آہستہ آہستہ ملک بھر سے بہت سارے لوگ ساتھ اٹیچ ہوتے گئے۔ کئی سے پڑھائی میں مدد لی تو کئی کی مدد کرتارہا ۔اس تیاری کے دوران ایک عزیز از جاں دوست کا ساتھ بھی نصیب رہا جس سے بعد میں لین دین کے سلسلے میں تعلقات کم ہو کرتقریباً ختم ہی ہوگئے ۔سچ ہے پیسے کا لین دین مخلص رشتوں میں بھی زہر بھر دیتا ہے۔
مقابلے کا امتحان شروع ہوا۔ خیر سے پہلے دن کے دو پیپر وں کے بعد شام کو والد صاحب اور بھائی میرے کمرے میں آئے۔ میں کچھ سننے سنانے کے موڈ میں نہیں تھا کہ طبیعت بہت بوجھل ہورہی تھی۔آرام کرنا چاہتا تھا کہ دو دن اور تین راتوں کا جاگا ہوا تھااور مجھے یقین تھا کہ وہ امتحان کے بارے میں پوچھنے آئے ہوں گے۔ خلافِ توقع انہوں نے بتایا کہ میرے لیے لڑکی دیکھ آئے ہیں، میں نے پوچھا آپ کو پسند ہے؟ جواب اثبات میں تھا، میں نے شکر ادا کیا اور ان کی خوشی میں شریک ہوگیا۔ بھائی منہ میٹھا کر وا کے نیچے چلے گئے اور میں بنا کسی بھی مسرت و انبساط کی کیفیت کے دوبارہ سے کتاب کھول کر بیٹھ گیا کہ اس وقت میرے لیے سب سے اہم میری پڑھائی ہی تھی۔ ویسے بھی اساتذہ نے ہٹلر کا یہ قول کہ ایک اچھی لڑکی اچھے مستقبل کی ضامن نہیں لیکن ایک اچھا مستقبل بہت سی اچھی لڑکیاں دے سکتا ہے، اتنی بار دہرا یا تھا کہ یہ ہمارے تعلیمی مشن کا حصہ بن کر رہ گیا تھا۔ سی ایس ایس سے پہلے شادی ، منگنی، سب بے معنی تھے کہ نظریں آسمان کی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ شاید یہ میری انفرادی ذہنی کیفیت تھی ، لیکن میری اس سوچ کو میرے دیگر ساتھی ایک ہی جیسی کیفیت کے اظہار کے ساتھ نفی میں بدل دیتے تھے۔ سبھی کا حال ایک جیسا تھا
سوائے ان چند برائے نام طلبہ و طالبات کے جو اکیڈمیوں میں پڑھائی کے بجائے اچھے رشتوں کی تلاش میں آتے تھے۔ ظاہر ہے اگر کوئی اس قدر ذہین فطین طالبعلم یا طالبہ مل جائے جس سے ایک خوبصورت مستقبل وابستہ ہونے کے قوی امکانات ہوں تو اور کیا چاہیے؟ کیا کرنااتنی محنت کر کے ؟ شاید ایسے لوگ ہم سے زیادہ ذہین تھے۔ خیر ۔۔۔ابھی جب کہ میرے منہ سے مٹھائی کا ذائقہ بھی زائل نہیں ہوا تھا ،بڑے بھائی دوبارہ سے گھبرائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ میرے کچھ سمجھنے سمجھانے سے پہلے ہی وہ تیزی سے بولے کہ والدِ محترم کی طبیعت خراب ہوگئی ہے۔ آن کی آن میں ان تک پہنچا، دیکھا، ہسپتال کی جانب لے کر روانہ ہوئے لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ وہ اچانک ہارٹ اٹیک سے راہِ عدم کے مسافرہوگئے تھے۔ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا کہ کچھ سمجھ ہی نہیں آیا۔ ۔۔ریٹائرمنٹ کے بعد اب جب کہ وہ کسی قدر تنہائی کا شکار ہوچکے تھے،میں نے ان کے لیے بہت سے پروگرام ترتیب دیے تھے جن میں اہم ترین پروگرام ان کو شہر کے ادبی حلقوں کے اجلاسوں میں لے جانے اور ہر رو ز صبح کی سیر کے لیے رکشے کا بندوبست
کرنا شامل تھا ۔۔۔میں ان پروگراموں کے لیے اس مناسب وقت کا انتظار کر رہا تھا جب میں مستقبل قریب میں کسی قدر کم مصروف ہوں گا یا نوکری کے بعد محض فراغت کے لمحات سے لطف اندوز ہوں گا۔ملک الموت کی اک آواز نے میرے سارے پروگراموں پر مٹی پھیر دی تھی۔والدِ محترم کے اس قدر اچانک انتقال نے نظامِ زندگی تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ مجھے شاید زندگی بھریہ پچھتاوا رہے کہ میں اپنی پڑھائی اور مستقبل کے اندھے سفر میں ان کی خدمت سے کسی حد تک غافل ہو گیا تھا۔ بہت سے پروگراموں کو حتمی شکل نہ دے سکا تھا۔۔۔بہر حال یہ امتحانات ادھورے رہ گئے تھے اور ہی میرا مستقبل بھی۔
زندگی میں جتنے بھی امتحانات دیے ہر بار کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور پیش رہا، چونکہ میرے لیے سب سے زیادہ قیمتی میرے والدین تھے اور رہیں گے، اس لیے پی ایچ ڈی کے پہلے سمیسٹر میں والدہ سے بچھڑنا بھی بہت تکلیف دہ عمل رہا۔ ایک روز قبل کراچی پہنچنے والی والدہ محترمہ کے بارے میں بھائی کا یہ خواب کہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں اور مجھے ان تک پہنچ کر انہیں واپس لانا چاہیے، انہیں رات چار بجے جگاکر میرے کمرے تک لے آیا۔ میرے دروازے پر ہلکی دستک کے نتیجے میں ، میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا، کہ جس شعبے سے میں تعلق رکھتا تھا اس میں ایمر جنسی کے شکار ہر وقت درواز ے پر دستک دیتے تھے، لیکن اس بار باہر بھائی کھڑے تھے۔
’’ لائٹ آن نہ کرنا‘‘ بھائی نے میری بٹن پر سرکتی انگلیوں کی جنبش کوروک کر رکھدیا تھا۔ انہوں نے والدہ کے بارے میں اپنا خواب سنایا اور ان کی طبیعت کے حوالے سے خدشے کا اظہار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ میں فوراً تیار ہو کر اگلے چند منٹ بعد لاہور ایر پورٹ کے لیے روانہ ہو جاؤں۔ٹھیک پندرہ منٹ بعد لاہور پہنچنے کے لیے ڈائیوو میں سفر کر رہاتھا۔بہت سے وسوسوں نے کسی گرداب کی صورت مجھے خود میں پھنسا رکھاتھا ۔ میں نجانے والدہ کے بارے میں کیا کیا سوچ رہا تھا۔ ۔۔شکرِ خدا ائر پورٹ پر پہنچتے ہی فلائیٹ میسر ہوگئی۔شاید آخری سیٹ میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔ائیر پورٹ پر چھوٹی بہن کی کال آئی کہ والدہ ٹھیک ہیں، معمولی بیمار ہیں شاید زکام کی کوئی بگڑی حالت ہے۔۔۔اور یہ بھی کہ کراچی آنے کی ضرورت نہیں۔لیکن میں اس وقت تک جہاز میں سوار ہوچکا تھا۔کراچی ائیر پورٹ پر اترا تو ماموں زاد بھائی کی کال آئی کہ والدہ کی طبیعت اچانک زیادہ خراب ہوگئی ہے، میں لیاقت نیشنل ہسپتال پہنچوں۔ وہاں پہنچا تو والدہ کو بے سر و ساماں پایا۔ ہوش سے بیگانہ وہ نجانے کس حالت میں تھیں۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ انہیں ہارٹ اٹیک بھی ہوا تھا، گردوں میں بھی مسئلہ تھا اور سانس بھی نہیں آرہاتھااور یہ بھی کہ انہیں یہاں وینٹی لیٹر میں رکھنے کے لیے ستر ہزار روپے بطور ایڈوانس جمع کروادوں ورنہ میں اپنا مریض لے جا سکتا ہوں۔۔۔۔۔ گرچہ میں ڈاکٹروں کی اس قسم کی بے حسی اور ظلم کی کئی مثالیں دیکھ چکا تھا اور بہت سے واقعات جن میں سے۔۔۔ ایک جوان لڑکی کا واقعہ جو میں کبھی نہ بھول پایا تھا جس میں نارمل ڈلیوری کیس کو آپریشن بنانے کے لیے تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے بٹورے جاسکیں، بچہ دانی پر ہلکا سا کٹ لگایاگیا تھا جو کہ غلطی سے بڑا کٹ لگ جانے کے سبب بعد میں بچہ دانی کوہی مکمل آپریٹ کرکے نکال کر مریضہ کی جان بچائی گی تھی۔۔۔ایک سال قبل شادی ہونے والی لڑکی بانجھ ہونے کی صورت میں سسرال سے طلاق یافتہ ہوکر ہمیشہ کے لیے گھر بیٹھ گئی تھی، کبھی نہیں بھولا تھا۔ ۔۔۔۔لیکن اس وقت دیارِ غیر میں ہمیشہ ہنستی مسکراتی والدہ ، جو میری زندگی کا کل اثاثہ تھیں، سب سے بڑی موٹی ویشن تھیں، میرا سب کچھ تھیں، بے ہوشی کی حالت میں نجانے کس تکلیف سے گزر رہی تھیں ایسے میں ڈاکٹروں کا یہ رویہ کچھ زیادہ ہی تکلیف کا باعث تھا۔ ۔۔ کاش ہمارے ہاں انقلاب لا چکنے والے اور لانے کے نعرے لگانے والے ہماری تعلیم اور میڈیکل کے شعبوں میں انقلاب لے آئیں۔ میں نے فیس جمع کر وانے کے بعد کسی ایک ہسپتال یا ڈاکٹر پر انحصار کرنے کے بجائے صبح سے شام تک کراچی بھر کے بہترین ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا دورہ کیا، والدہ کی میڈیکل فائل دکھائی اور مشورے کیے۔۔۔ مجھے کسی بھی جگہ تسلی ہوئی نہ اطمینان۔۔۔ہر جگہ زندگی کے سوداگر بیٹھے ملے۔ ہر جگہ انسانیت کی تذلیل دیکھی۔ ۔۔ میڈیکل کی فیلڈہونے کے سبب میں سب سمجھ سکتا تھا کہ یہ لوگ کس طرح بے وقوف بنا کر عوام الناس کو لوٹ رہے ہیں۔۔۔وینٹی لیٹر اورریسپائریٹر میں کیا فرق ہے ۔۔۔کس ٹیسٹ کی مالیت کیا ہے اور کیا وصول کی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی سے زیادہ انسانیت کی تذلیل میں نے کسی بڑے شہر میں نہیں دیکھی۔دہشت گردی کے واقعات اور روز روز کی ماردھاڑ نے شاید وہاں انسانیت کا مفہوم موہوم کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔ آخر پورے ایک دن اور ایک رات کے ساتھ کے بعد وہ والدہ محترمہ صبح چھ بجے خالقِ حقیقی سے جا ملیں اور میں انہیں لے کر واپس اپنے پیاروں میں لوٹ آیا۔ ۔۔ جو ان کا آخری دیدار کر سکیں۔۔۔ان کے بند لبوں سے بلند ہوتی دعائیں محسوس کر سکیں۔ ۔۔ ان کے بے جان ہاتھوں کو اپنے سروں پر محسوس کرکے کچھ طمانیت کا احساس پا سکیں۔۔۔جن ہاتھوں سے لڈو چوریاں کھائی تھیں ، جس وجودکے سائے تلے بچپن سے لڑکپن اور جوانی کی دہلیز تک کا فاصلہ طے کیا تھا، اپنے ہاتھوں سے انہیں مٹی میں دفنا سکیں۔۔۔۔یہ سمیسٹر بھی ایسے ہی گزرا تھا!
سرکاری نوکری میں گھر کے اخراجات کے بعد اتنے پیسے نہیں بچتے کہ انسان پڑھائی بھی جاری رکھ سکے، بہت ساری کتابیں خرید سکے، کمپیوٹر، نیٹ اور پرنٹر کے اخراجات برداشت کرسکے، یا شاید یہ معاملہ میرے جیسے لوگوں کے ساتھ ہی ہے جو حلالی خون ہونے کے ناطے رزقِ حلال کو ہی شعار بنائے ہوئے ہیں بہر حال ۔۔۔تعلیمی اخراجات کے ساتھ ہائیر کلاس کے اخراجات ادھار کے ساتھ پورے ہورہے تھے کہ ایچ ای سی نے وظیفے کے امتحان کا اعلان کیا۔ یہ خدا کی طرف سے ایک موقع تھا کہ میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر سکوں، وظیفے پر پڑھ سکوں۔میں نے امتحان سے کچھ عرصہ قبل داخلہ بھیج دیا تھا۔ یہ بھی مقابلے کا امتحان تھا، پاس شدہ امیدواران کو میرٹ کے مطابق وظیفہ ملنا تھا۔ چھوٹی بہن کی شادی سر پر تھی تو سوچا کہ امتحان کی تیاری بعد میں ہوجائے گی پہلے شادی کی تیاریاں مکمل کر لی جائیں۔ جہیز کا سامان اٹھوا رہا تھا کہ سیڑھیوں سے سامان سمیت گرا اور پاؤں کی تین ہڈیاں تڑوا بیٹھا جب کہ چوتھی ہڈی میں دراڑ کا انکشاف چند دن بعد نئے ایکسرے میں ہوا۔ کسی کی غلطی کی سزا بھگتنا پڑی لیکن میں نے کسی کو بھی الزام دینے کے بجائے اس بات پر خود کو تسلی دی کہ یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے اور وہی شفا دے گا۔ والدین کے بچھڑنے کے بعد یہ میرا تیسرا بڑا نقصان تھا ۔اگلے چند دن شادی میں ہی گزر گئے۔ ذرا بہتر ہوا تو سوچا کہ اپنے (علیحدہ نئے)گھرمیں شفٹ ہوجاؤں وہاں لیٹا رہوں گا تو کچھ پڑھ لوں گا ،تیاری ہوجائے گی نا کسی کی مداخلت ہو گی اور نا ہی دفتر جا کے سر کھپانے کا چکر۔میری یہ خوش گمانی مسلسل تکلیف اور ملاقاتیوں کے باعث ہوا ہو کر رہ گئی تھی۔ چونکہ حلقہ احباب خاصا وسیع تھا اس لیے روزانہ کم از کم تین احباب ضرور ملنے آتے تھے جبکہ رشتہ دار ان کے علاوہ تھے۔۔۔بیشتر کتابیں سرہانے دھرے رہ جاتیں دن گزرجاتا اور ساری رات تکلیف اور بجلی کی آنکھ مچولی کے سبب مچھروں سے جھگڑتے گزر جاتی ۔
اگروظیفے کے امتحان کا تعلق متعلقہ پڑھائی سے ہی ہوتا تو پھر بھی کوئی ایک آدھ کتاب پڑھ لینا مشکل نہ تھا، اردو، اسلامیات ، مطالعہ پاکستان، عربی، فارسی، جرنلزم، پنجابی، سندھی، بلوچی، کیمسٹری، فزکس، میتھ، بائیولوجی، تمام قسم کے شعبہ جات کے لیے ایک ہی پیپر تھا جوکہ انگلش ، ریاضی اور انگلش میں جائزہ جاتی سوالات پر مبنی تھا۔۔۔اس لیے بھی پڑھائی میں توجہ نہ ہو بن سکی ۔چند دن بعد ایک بہت ہی مخلص دوست کے ساتھ لاہور امتحان کے لیے روانہ ہوا۔ یو ای ٹی کی وسیع سڑک پر اورنج ٹرین کی کارستانی دیکھ کر دل بہت اداس ہوا، ساری سٹرک ملبے اور کیچڑ کا ڈھیر بنی ہوئی تھی، خدا ہمیں ہماری اصل ٹرینیں بھی صحیح انداز میں چلانے کی توفیق دے۔ آمین۔ ہزاروں لوگوں کی موجود گی میں دوست بڑی مشکل سے گاڑی اندر لے گیا۔مجھے امتحانی مرکز پر اتار کر گاڑی پارک کر کے واپس لوٹا تو پتہ چلا کہ امتحانی سنٹرعمارت کے کسی دوسرے کونے میں ہے۔ گاڑی واپس نکالنا بہت مشکل تھا، ایک شخص نے مجھے چھڑی پکڑے ایک ٹانگ کے سہارے دھوپ میں کھڑا دیکھا تو موٹر سائیکل پر بٹھا ئے دوسرے سنٹر تک چھوڑ آیا۔ پولیس کے دو اشخاص نے کمال مہر بانی سے مجھے ہال کے دروازے تک بلا کر اپنی کرسی پر بٹھا دیا۔ ممتحنین میں سے ایک نے دیکھا تو سب سے پہلے
میری رولنمبر سلپ لے کر مجھے ہال میں داخلے کی اجازت دے دی اور اس سے پہلے پوچھا آپ پیپر حل کرنے کے لیے بورڈ نہیں لائے؟ میں نے نفی میں سر ہلایا اور آگے بڑھ گیا کہ طبیعت نا ساز ہو رہی تھی، اند ر داخل ہوکرگھسٹتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک پیپر
بورڈ نظرآیا۔ شاید کوئی مہربان اپنا پرانا بورڈ دانستہ وہاں چھوڑ گیا تھا ، میں نے اٹھایا اور شکر ادا کیاکہ یہ مشکل تو آسان ہوئی۔اپنی سیٹ تک پہنچا تو ساتھ ہی پانی کی بوتل رکھی تھی۔۔۔پھرشکر ادا کیا کہ خدا نے یہ انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا۔ چونکہ چوٹ لگنے کے بعد پہلی بارگھر سے نکلا تھا اور ایک پاؤں پر چھڑی کے سہارے اتنے قدم چلا تھا اس لیے اندازہ ہی نہیں تھا کہ دل گھبرا سکتا ہے اورطبیعت خراب ہوسکتی ہے ویسے بھی میں نے پانی کی بوتل گاڑی میں ہی چھوڑ دی تھی۔ پانی کے چند گھونٹ حلق میں انڈیلے اور بند کر کے وہیں رکھ دی ۔ پیپر سامنے آنے سے چند منٹ پہلے پاؤں کی تکلیف اچانک پھر بڑھ گئی، یہ پیپر کے قریب آنے کا نفسیاتی اثر ہر گز نہیں تھا بلکہ پاؤں کو ٹکانے کے لیے کوئی چیز میسر نہ ہونے کا سبب تھا۔ جیسے بھی ممکن ہوا پیپر دے کر واپس لوٹ آیا۔ راستے میں کئی شناسا ملے، سبھی کو ایک ہی گلہ تھا کہ پیپر کا وقت کم تھااوریہ کہ ہمارا انگلش، ریاضی اور انگلش میں جائزہ جاتی امتحان سے کیا تعلق؟۔۔۔ یہ گلہ عین درست تھا، میں متفق تھا۔ پیپر دے کر واپس گھر لوٹ آیا اور شکرادا کیا کہ طویل راستے میں کسی ناگہانی آفت کا سامنا نہیں ہوا۔ خیر یہ تو زندگی ہے، مصائب اور مسائل ساتھ ساتھ ہیں۔میں تو ہر دم خدا کا شکر گزار ہوں کہ جب بھی ، جہاں بھی مسائل کا سامنا ہوا، مداوا بھی ساتھ ہی ہوتارہا۔ ۔۔زندگی امتحان کا نام ہے۔بہت سے امتحان۔۔ ہجر کے، وصل کے ،معاشرت کے ، معاش کے وغیرہ وغیرہ۔ زندگی امتحان ضرور لیتی ہے لیکن یہ زندگی عارضی ہے اور اس کے امتحان بھی عارضی ہیں۔ خدا ہمیں آخرت کے امتحان کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے۔ رات کے دو بج گئے ہیں، اب تک کا سارا سفر تمام ہوا،دیکھیے کل کیا ہوتا ہے۔
آخری تدوین: