جاویداقبال
محفلین
زندگی اور ہم:۔
آجکل کے اس پرفتن دورمیں ہرطرف نفسانفسی کا دور دورا ہے آپ جس طرف بھی نظر دوڑائیں آپ کو ایک بے چینی کی فضا نظر آتی ہے اور ہمارے ملک پاکستان میں بھی یہی حالات ہیں۔ آپ جس طرف بھی دیکھیں آپ کو بے چینی سی نظرآتی ہے آپ اس معاشرہ کے خاندانی نظام کو دیکھ لیں یا معاشرے کے افراد کے اخلاق کو آپ اس میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو دیکھ لیں یا ہر محکمہ میں بڑھتی ہوئی کرپشن کو،آپ اس میں بڑھتی ہوئی عریانی کو دیکھ لیں یا بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کو آپ اس میں جرائم کی سطح کو دیکھ لیں یا قانون کے نظام کو۔
آپ کوہر طرف بے چینی سی نظرآئے گي آخر ایسا کیوں ہے ؟ جس پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس کو اس تنزلی کیطرف لےجانے میں کیا کیا عوامل ہیں اور ان کو آخر ہم کس طرح صحیح کرسکتے ہیں۔ اور اس کی وہی خصوصیات جو اس کو دوسروں سے ممتازکرتی ہیں مثلا مسلمان ہونا ۔ اسلامی تشخص ۔ دوسروں کو برداشت کرنے کامادہ وغیرہ کوکسطرح واپس لاسکتے ہیں۔
معاشروں کایہ حال ایک دن کاکرشمہ نہیں ہے یہ حالات سالوں سال کے نتجہ کے بعد پیش آتے ہیں سب سے اہم جو مسئلہ ہے کہ اس ملک خدا داد کو اسلام کے نام پر حاصل کیاگيا کہ اس پر اسلام کو نافذکیاجائے گااس کوبس نام کے لیے ہی استعمال کیاگياہےصحیح طور پر اس کو نافذ نہیں کیا گياہے۔دوسرا ہمارے فوجی اور سیاستدان اس کا بہت بڑا سبب ہیں کہ وہ ہماری عوام کو ان کی توقعات کے مطابق وہ کچھ نہیں دے سکیں ہیں جو کہ ایک غریب آدمی چاہتاہے۔ غریب آدمی جوکہ کسی ملک کا سب سے اہم حصہ ہوتاہیں ان کو آج تک نظر اندازکیاجاتارہاہے اور ان کابری طرح استحصال ہورہاہے۔حکومتیں قانون اورقانون کے رکھوالے غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تربنانےمیں مصروف عمل ہے اورہمارے ہاں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" والا قانون نافذہے۔ہمیں اس کو کس طرح تبدیل کرناہے اوریہاں پر اسلام کو کس طرح نافذ کرناہے یہ باتیں سوچنے کی ہیں ہم الحمداللہ مسلمان ہیں لیکن ہم نے سوچ وفکر کوچھوڑکربس تقلید کو اپنا نصب العین بنا لیاہے جس چیزکودیکھاہے اچھی لگی اس کو اپنالیاجودیکھا کہ مشکل ہے اسے چھوڑدیا۔ علم وتحقیق کو خیرآباد کردیا۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی یہ حدیث ہم کو بہت ہی اہم سبق دیتی ہے کہ تعلیم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جاناپڑے۔
حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) جو کہ سردارانبیاء علیہ السلام ہیں جن کو اللہ تعالی نے دونوں جہاں کا علم عنایت فرمایاہے وہ جانتے تھے کہ تعلیم وہ چیزہے جس سے قوموں کی حالت سدھر سکتی ہے وہ خداتعالی کو پہچان سکتیں اور دنیا میں حکمرانی کرسکتی ہیں۔آج آپ دیکھ لیں کہ مسلمان تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں حالانکہ بنگلہ دیش جوکہ ہمارے بعد بناہے اس کی تعلیم پاکستان سے بہتر ہے توسب سے پہلے ہم کو تعلیم حاصل کرنی ہوگی اوریہ کام ہم اس طرح کرسکتے ہیں جوبھی بندہ پڑھا لکھاہے وہ یہ ذمہ داری سنبھلے کہ وہ دو بندوں کو تعلیم دے گاوہ بچے بھی ہوسکتے ہیں اورنوجوان بھی وہ بوڑھے بھی ہوسکتے ہیں اوراپاہج بھی۔اس سے یہ ہوگاکہ تعلیم عام ہوگی تو انسان کا سوچنے کامعیاربڑھے گاسوچ کی نئی نئی راہیں نظرآئیں گی۔کم از کم انسان کواچھے برے کی پہچان ہوگی وہ سمجھ سکے گاکہ اچھاکیاہے برا کیاہے انپڑھ آدمی کو جوکوئی جیسے کہہ دے گاوہ اسی کو سچ سمجھ گااوراس کے احکامات کی تعمیل کرے گا۔ دوسرا مرحلہ ہے اسلام کواپنے آپ پرنافذ کرنا۔اسلام نماز روزہ حج زکوۃکانام نہیں بلکہ یہ تو ہماری زندگی کے ہرہرشعبے پر ہماری رہنمائی کرتاہے۔مثلااگرآپ طالب علم ہیں اگرآپ پوری تندہی سے تعلیم حاصل کریں تویہ بھی آپ کی عبادت ہے اگرآپ تاجر ہیں آپ صحیح تولیں گاہک کو اخلاق سے بلائيں اس سےمحبت سے بات کریں تویہ بھی عبادت ہے اگرآپ نوکری کرتے ہیں آپ اپناکام دیانت داری سے کریں تویہ بھی عبادت ہے آپ مزدورہے اپناکام پوری تندہی سے سرانجام دیں تویہ بھی عبادت ہے آپ کا ہر ہر قدم اسلام پرہوناچاہیے لیکن ہم نے تواسلام کو بس نماز روزہ حج زکوۃ تک محدودکردیاہے۔جونماز پڑھتاہے خواہ وہ کچھ بھی کرے وہ کم تولے رشوت لے حرام کھائیں ہم کہتے ہیں کہ نمازی ہے شاید اللہ تعالی اس کو معاف فرمادیں لیکن یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ حقوق اللہ تواللہ تعالی معاف فرماسکتے ہیں لیکن بندے کے حقوق تومعاف نہیں ہوں گے جہاں تک کہ وہ بندہ خودمعاف نہ کردے۔لیکن ہم سب کچھ بھولا بیٹھے ہیں اورآجکل تو ہمارا معیار دولت ہوگیاہے جس کے پاس دولت ہے خواہ وہ حرام کی ہے یاکسی بھی طریقہ سے جائز و ناجائزحاصل کی ہوہم اس کی عزت کرتے ہیں اورغریب جوکہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی پورا کرتاہے اس کی عزت نہیں کرتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم کو اس روش کو بدلناہوگاہمیں سچ کو سچ کہنے کا حوصلہ پیدا کرناچاہیے برائی کو برائی کہناچاہیے۔برائی تو اس شہاب ثاقب کی مانندہے جوکہ اس طرح نظرآتاہےکہ بہت ہی روشن ہےلیکن جب وہ زمین کی سطح پر پہنچتاہے تو بھسم ہوجاتاہے اورنیکی سورج کی مانندہے کہ وہ جب نکلتاہے تواندھیروں کو چھپادیتاہے اورہرطرف روشنی بکھیردیتاہے۔یہ بات تو سچ ہے کہ جب آپ حق و سچ کی بات کریں گے سچ کاساتھ دیں گے نیکی کا کام کریں گے برائی سے روکیں گے تو آپ کو مشکلات کابھی سامنا ہوگالوگ کہیں گے لے یہ کون ہے مولوی وغیرہ وغیرہ لیکن آپ نے ان باتوں کونظراندازکردینااوربس اپنی پوری کوشش اس کام پر لگادینی ہے کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور برائی سے روکیں۔ اور روکنے سے بھی مراد نہیں کہ آپ ڈنڈا لےلیں روکنے سے یہ اس بندہ کو برا کہیں اس کو اس برائی کے متعلق احکامات خداوندی اوراحکامات مصطفی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بتائيں اوراس کو سمجھائیں باربارسمجھائیں ۔ شاید کے اتر جائے بات دل میں۔ کیونکہ پتھرپربھی آہستہ آہستہ پانی گرتا رہے تو اس میں بھی سوراخ ہوجاتاہے۔اللہ تعالی ہم کو نیک کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اورہمارے قول و فعل کوصراط مستقیم پرچلائے (آمین ثم آمین)
والسلام
جاویداقبال
جدہ – سعودی عرب
آجکل کے اس پرفتن دورمیں ہرطرف نفسانفسی کا دور دورا ہے آپ جس طرف بھی نظر دوڑائیں آپ کو ایک بے چینی کی فضا نظر آتی ہے اور ہمارے ملک پاکستان میں بھی یہی حالات ہیں۔ آپ جس طرف بھی دیکھیں آپ کو بے چینی سی نظرآتی ہے آپ اس معاشرہ کے خاندانی نظام کو دیکھ لیں یا معاشرے کے افراد کے اخلاق کو آپ اس میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو دیکھ لیں یا ہر محکمہ میں بڑھتی ہوئی کرپشن کو،آپ اس میں بڑھتی ہوئی عریانی کو دیکھ لیں یا بڑھتے ہوئے جنسی جرائم کو آپ اس میں جرائم کی سطح کو دیکھ لیں یا قانون کے نظام کو۔
آپ کوہر طرف بے چینی سی نظرآئے گي آخر ایسا کیوں ہے ؟ جس پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اس کو اس تنزلی کیطرف لےجانے میں کیا کیا عوامل ہیں اور ان کو آخر ہم کس طرح صحیح کرسکتے ہیں۔ اور اس کی وہی خصوصیات جو اس کو دوسروں سے ممتازکرتی ہیں مثلا مسلمان ہونا ۔ اسلامی تشخص ۔ دوسروں کو برداشت کرنے کامادہ وغیرہ کوکسطرح واپس لاسکتے ہیں۔
معاشروں کایہ حال ایک دن کاکرشمہ نہیں ہے یہ حالات سالوں سال کے نتجہ کے بعد پیش آتے ہیں سب سے اہم جو مسئلہ ہے کہ اس ملک خدا داد کو اسلام کے نام پر حاصل کیاگيا کہ اس پر اسلام کو نافذکیاجائے گااس کوبس نام کے لیے ہی استعمال کیاگياہےصحیح طور پر اس کو نافذ نہیں کیا گياہے۔دوسرا ہمارے فوجی اور سیاستدان اس کا بہت بڑا سبب ہیں کہ وہ ہماری عوام کو ان کی توقعات کے مطابق وہ کچھ نہیں دے سکیں ہیں جو کہ ایک غریب آدمی چاہتاہے۔ غریب آدمی جوکہ کسی ملک کا سب سے اہم حصہ ہوتاہیں ان کو آج تک نظر اندازکیاجاتارہاہے اور ان کابری طرح استحصال ہورہاہے۔حکومتیں قانون اورقانون کے رکھوالے غریبوں کو غریب تر اور امیروں کو امیر تربنانےمیں مصروف عمل ہے اورہمارے ہاں "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" والا قانون نافذہے۔ہمیں اس کو کس طرح تبدیل کرناہے اوریہاں پر اسلام کو کس طرح نافذ کرناہے یہ باتیں سوچنے کی ہیں ہم الحمداللہ مسلمان ہیں لیکن ہم نے سوچ وفکر کوچھوڑکربس تقلید کو اپنا نصب العین بنا لیاہے جس چیزکودیکھاہے اچھی لگی اس کو اپنالیاجودیکھا کہ مشکل ہے اسے چھوڑدیا۔ علم وتحقیق کو خیرآباد کردیا۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی یہ حدیث ہم کو بہت ہی اہم سبق دیتی ہے کہ تعلیم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جاناپڑے۔
حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) جو کہ سردارانبیاء علیہ السلام ہیں جن کو اللہ تعالی نے دونوں جہاں کا علم عنایت فرمایاہے وہ جانتے تھے کہ تعلیم وہ چیزہے جس سے قوموں کی حالت سدھر سکتی ہے وہ خداتعالی کو پہچان سکتیں اور دنیا میں حکمرانی کرسکتی ہیں۔آج آپ دیکھ لیں کہ مسلمان تعلیم میں سب سے پیچھے ہیں حالانکہ بنگلہ دیش جوکہ ہمارے بعد بناہے اس کی تعلیم پاکستان سے بہتر ہے توسب سے پہلے ہم کو تعلیم حاصل کرنی ہوگی اوریہ کام ہم اس طرح کرسکتے ہیں جوبھی بندہ پڑھا لکھاہے وہ یہ ذمہ داری سنبھلے کہ وہ دو بندوں کو تعلیم دے گاوہ بچے بھی ہوسکتے ہیں اورنوجوان بھی وہ بوڑھے بھی ہوسکتے ہیں اوراپاہج بھی۔اس سے یہ ہوگاکہ تعلیم عام ہوگی تو انسان کا سوچنے کامعیاربڑھے گاسوچ کی نئی نئی راہیں نظرآئیں گی۔کم از کم انسان کواچھے برے کی پہچان ہوگی وہ سمجھ سکے گاکہ اچھاکیاہے برا کیاہے انپڑھ آدمی کو جوکوئی جیسے کہہ دے گاوہ اسی کو سچ سمجھ گااوراس کے احکامات کی تعمیل کرے گا۔ دوسرا مرحلہ ہے اسلام کواپنے آپ پرنافذ کرنا۔اسلام نماز روزہ حج زکوۃکانام نہیں بلکہ یہ تو ہماری زندگی کے ہرہرشعبے پر ہماری رہنمائی کرتاہے۔مثلااگرآپ طالب علم ہیں اگرآپ پوری تندہی سے تعلیم حاصل کریں تویہ بھی آپ کی عبادت ہے اگرآپ تاجر ہیں آپ صحیح تولیں گاہک کو اخلاق سے بلائيں اس سےمحبت سے بات کریں تویہ بھی عبادت ہے اگرآپ نوکری کرتے ہیں آپ اپناکام دیانت داری سے کریں تویہ بھی عبادت ہے آپ مزدورہے اپناکام پوری تندہی سے سرانجام دیں تویہ بھی عبادت ہے آپ کا ہر ہر قدم اسلام پرہوناچاہیے لیکن ہم نے تواسلام کو بس نماز روزہ حج زکوۃ تک محدودکردیاہے۔جونماز پڑھتاہے خواہ وہ کچھ بھی کرے وہ کم تولے رشوت لے حرام کھائیں ہم کہتے ہیں کہ نمازی ہے شاید اللہ تعالی اس کو معاف فرمادیں لیکن یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ حقوق اللہ تواللہ تعالی معاف فرماسکتے ہیں لیکن بندے کے حقوق تومعاف نہیں ہوں گے جہاں تک کہ وہ بندہ خودمعاف نہ کردے۔لیکن ہم سب کچھ بھولا بیٹھے ہیں اورآجکل تو ہمارا معیار دولت ہوگیاہے جس کے پاس دولت ہے خواہ وہ حرام کی ہے یاکسی بھی طریقہ سے جائز و ناجائزحاصل کی ہوہم اس کی عزت کرتے ہیں اورغریب جوکہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی پورا کرتاہے اس کی عزت نہیں کرتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم کو اس روش کو بدلناہوگاہمیں سچ کو سچ کہنے کا حوصلہ پیدا کرناچاہیے برائی کو برائی کہناچاہیے۔برائی تو اس شہاب ثاقب کی مانندہے جوکہ اس طرح نظرآتاہےکہ بہت ہی روشن ہےلیکن جب وہ زمین کی سطح پر پہنچتاہے تو بھسم ہوجاتاہے اورنیکی سورج کی مانندہے کہ وہ جب نکلتاہے تواندھیروں کو چھپادیتاہے اورہرطرف روشنی بکھیردیتاہے۔یہ بات تو سچ ہے کہ جب آپ حق و سچ کی بات کریں گے سچ کاساتھ دیں گے نیکی کا کام کریں گے برائی سے روکیں گے تو آپ کو مشکلات کابھی سامنا ہوگالوگ کہیں گے لے یہ کون ہے مولوی وغیرہ وغیرہ لیکن آپ نے ان باتوں کونظراندازکردینااوربس اپنی پوری کوشش اس کام پر لگادینی ہے کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور برائی سے روکیں۔ اور روکنے سے بھی مراد نہیں کہ آپ ڈنڈا لےلیں روکنے سے یہ اس بندہ کو برا کہیں اس کو اس برائی کے متعلق احکامات خداوندی اوراحکامات مصطفی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بتائيں اوراس کو سمجھائیں باربارسمجھائیں ۔ شاید کے اتر جائے بات دل میں۔ کیونکہ پتھرپربھی آہستہ آہستہ پانی گرتا رہے تو اس میں بھی سوراخ ہوجاتاہے۔اللہ تعالی ہم کو نیک کام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اورہمارے قول و فعل کوصراط مستقیم پرچلائے (آمین ثم آمین)
والسلام
جاویداقبال
جدہ – سعودی عرب