زندگی اک نامکمل نظم کی مانند سہی مگر -------- از : ہانی

hani

محفلین
میں ابھی بھی مانندِ نخلِ فشاں
کرنوں،مٹی، اور پانی کے معدن سے گوندھا ھوا
ویسے ھی رواں دواں ھوں
حالتِ متعین میں ،فطرت نے مجھے
پل پل، خود کو تراشنا سکھایا
وھی کرنیں،مٹی اور وھی پانی جسے یارو تم نے
سماع و رقص و سیم و زر کے
ھر طرف پھیلے خوابوں کے بےمراد تسلسل میں
عالمِ خرابات کی حضوری میں کھو دیا
دن چڑھنے پہ دیکھو تو
تمھاری شباھت پر
تاریکی کی پنہائ میں چھپ کر پئے جاموں کی
بےحد اُکتاھٹ جمی ھوتی ھے
مری زندگی اک نامکمل نظم کی مانند سہی مگر۔۔
میرے چہرے پہ
بقائے ضمانتِ روزمرہ
آسودگی کی نرم کرنیں ھر صبحُ دیکھو گوندتی ھیں
اُوجِ شاخِ ھستی سے مَیں
نیم خوابیدہ آنکھوں کی درزوں کی روشنی میں
بھیدِ وقت کے اثمار کو چھوُ سکتا ھوں
میں اصل کے بےریا پانیوں کی سرکشی سے کشیدہ ھوا
ابھی بھی مانندِ نخلِ رواں ھوں

از طاھر جاوید
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نثری نظم ہے۔
لیکن مرے خیال میں یہ یہاں دوبارہ لکھ رہے ہیں (ھ بجائے ہ کا استعمال)
اگر ان پیج میں ہے تو دوبارہ اس کو لکھنے کی ضرورت نہیں، اس کو کنورٹ کیا جا سکتا ہے طاہر۔ یہاں دیکھیں، کنورٹر اور ساتھ ہی پروف ریڈنگ کے ٹولس۔
 
Top