محترم بہنا
قرۃالعین اعوان کی بصارتوں کی نذر
تلاش
حضرت واصف علی واصفؒ کی تصنیف ”دل دریا سمندر“ سے انتخاب
ہر انسان کسی نہ کسی شئے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کوئی کچھ چاہتا ہے ‘کوئی کچھ ڈوھونڈ رہاہے ۔ انسانوںکے ہجوم میں آرزوؤں کا بھی ہجوم ہے۔ دشمن ‘ دشمن کی تلاش میں ہے اور دوست ‘ دوست کی تلاش میں۔
کائنات کی تمام اشیاءکا ہمہ وقت مصروفِ سفر رہنا کسی انوکھی تلاش کا اظہار ہے۔ آزو کانجام شکستِ آرزو ہو‘ تو بھی یہ ہستی کی دلیل ہے۔ سورج تاریکی کے شکار کونکلا ہے اور تاریکی سورج کے تعاقب میں ہے۔ دریا کوسمندر کی لگن ہے اور سمندر کو دریا بننے کی خواہش مضطرب کر رہی ہے۔ ہر چیز اپنے اپنے مدار میں اپنی خواہش اور تلاش کے حصار میں ہے۔
تلاش متحرک رکھتی ہے اور حرکت رازِ ہستی ہے۔ تلاش ہی انسان کی جبلت ہے۔ یہ اس کا اصل ہے۔ یہ اس کا خمیر ہے۔ یہ اس کی سرشت ہے۔ جسے اور کوئی تلاش نہ ہو ‘ وہ اپنی تلاش کرتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے؟ وہ کب سے ہے؟ اور وہ کب تک رہے گا؟ وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ وہ کون سا جذبہ ہے جو اسے محرومیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندہ رہنے پر مجبور کرتا ہے؟
انسان اس بات سے آگاہ ہونا چاہتا ہے کہ یہ کائنات اور نظامِ کائنات کس نے تخلیق فرمایا؟ تخلیقِ حُسن میں کیا حُسنِ تخلیق ہے؟ یہ سب جلوے کس کے ہیں؟ کون ہے اس پردہ رعنائی کے اندر؟ اور کون ہے اس پردے سے باہر؟ اور یہ پردہ کیا ہے؟
تلاش کا سفر اتنا ہی قدیم ہے ‘ جتنا ہستی کا سفر ۔ ہر پیدا ہونے والے کے ساتھ اس کی تلاش بھی پیدا ہوتی ہے۔ انسان آگاہ ہو یا بے خبر ‘ وہ ہمیشہ رہینِ آرزو رہتا ہے۔ زندگی کی آرزو دراصل کسی کی جستجو ہے۔
انسان کی تلاش ہی اس کا اصل نصیب ہے۔ یہی اس کے عمل کی اساس ہے ۔ یہی تلاش اس کے باطن کا اظہار ہے۔ یہی اس کے ایمان کی روشنی ہے ….دراصل ہم جس شے کی تلاش کرتے ہیں ‘ اُسی نے تو ہمیں اپنی تلاش عطا کی ہے۔ منزل ہی تو ذوقِ سفر پیدا کرتی ہے اور ذوقِ منزل‘ رہنمائے سفر ہوتاہے …. جو حاصلِ آرزو ہے ‘ وہی خالقِ آرزو ہے۔
انسان کو ہمہ وقت ایسے احساس ہوتا ہے جیسے وہ کچھ کھو چکا ہے۔ وہ کچھ بھول گیا ہے۔ اُسے چھوڑی ہوئی منزل متلاشی بناتی ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس کوئی قدیم راز تھا جو گُم ہو گیا ۔ اس کا بے ربط ماضی ‘ اسے کسی درخشندہ مستقبل سے محروم کر گیا۔ شاید وہ دنیا کے عوض آخرت کا سودا کر بیٹھا۔ انسان غور کرتا ہے اور جوں جوں غور کرتا ہے ‘ ایک شدید پیاس کی طرح ایک نامعلوم تلاش اسے جکڑ لیتی ہے۔ اس تلاش سے مفر نہیں۔
جس انسان کو تلاش کے نقطہ ہائے دقیق سے آشنائی نہ ہو ‘ وہ دوسرے انسانوں کے چہرے ہی دیکھتا چلا جاتا ہے، جیسے ان چہروں میں اسے کسی خاص چہرے کی تلاش ہو اور وہ چہرہ شاید اس نے دیکھا ہوا بھی نہ ہو، لیکن اسے پہچان لینے کا دعویٰ اس کے پاس موجود ہو۔ اَن دیکھے چہرے کو ڈھونڈنا اور اسے پہچاننا انسان کی تلاش کا کرشمہ ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے انسان اس چہرے کو پہلی بار دیکھنے سے پہلے بھی دیکھ چکا ہو۔
انسان کی تلاش ہی اس کا اصل نصیب ہے۔ یہی اس کے عمل کی اساس ہے ۔ یہی تلاش اس کے باطن کا اظہار ہے۔ یہی اس کے ایمان کی روشنی ہے۔ تلاش انسان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے ‘ جیسے کوئی بچھو اسے اندر سے ڈَس رہا ہے۔ وہ بھاگتا ہے ‘ دوڑتا ہے ‘ بے تاب و بیقرار‘ اُس تریاق کی تلاش میں جو اِس زہر کا علاج ہے۔ جب وہ شکل سامنے آتی ہے ‘ اسے قرار آ جاتا ہے۔ ہر چند کہ اُسے پہلی بار دیکھا ہے ‘وہ اُسے پہچان لیتا ہے۔
دراصل ہم جس شے کی تلاش کرتے ہیں ‘ اُسی نے تو ہمیں اپنی تلاش عطا کی ہے۔ منزل ہی تو ذوقِ سفر پیدا کرتی ہے اور ذوقِ منزل‘ رہنمائے سفر ہوتا ہے۔ منزل اگر اپنے مسافر نہ پیدا کرے ‘ تو ہر تلاش ایک واہمہ ہو کر رہ جائے۔ جو حاصلِ آرزو ہے ‘ وہی خالقِ آرزو ہے۔
ضرورت کی تلاش اور شے ہے اور تلاش کی ضرورت اور شے۔ عرقِ گلاب یا گلقند کے لیے گلاب کو تلاش کرنے والا ضرورت مند کہلائے گا۔ اس کی ضرورت کچھ اور ہے۔ اُسے ہم تلاش کے باب میں قابلِ غور نہیں سمجھتے۔ خوشبو کا مسافر ‘ بُوئے گُل کو منزلِ دل کا مقام سمجھتا ہے۔ وادی نور کے مسافروں کی رہنما نکہتِ گُل ہی تو ہے۔
کچھ انسان صداقت کی تلاش کرتے ہیں۔ یہ ساری کائنات ہی صداقت پر مبنی ہے، لیکن صداقت کا اپنا الگ وجود نہیں۔ صداقت ‘ صادق کی بات کو کہتے ہیں۔ صادق کا قول صداقت ہے۔ اِس صداقت کی پہچان اپنی صداقت سے ہے۔ اپنی صداقت ‘ اعتمادِ ذاتِ صادق ہے۔ کسی جھوٹے انسان نے کبھی کسی صادق کی تلاش نہیں کی۔ کاذب ‘ صادق کا ہمسفر نہیں رہ سکتا۔ صادق ماننے کے بعد اس کی راہ کے علاوہ کوئی راہ ‘گمراہی ہے۔
تلاش کا یہ مقام بہت ارفع ہے کہ انسان صداقت کی تلاش کرے۔ صادق سے نسبت کا سہارا لے کر انسان اپنی ذات سے آشنا ہو جاتا ہے۔ یہ تلاش اپنے باطن کی تلاش ہے۔ اپنے آپ میں جتنی صداقت میسر آئے گی ‘ اتنا ہی صادق سے تقرب بڑھے گا۔ جس انسان کو اپنے آپ میں صداقت نظر نہ آئے ‘ وہ نسبتِ صادق سے محروم ہو جاتا ہے۔
انسان کی پہچان کا راز اس کی تلاش میں مضمر ہے۔ ہم جس شے کے انتظار میںہیں‘ وہی ہماری عاقبت ہے۔ ہمیں اپنے انتظار کا کھوج لگانا چاہیے۔ سچ کے مسافر سچے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے جھوٹے۔
تلاش جو انداز اختیار کرے ‘ حاصلِ تلاش اُسی انداز میں سامنے آئے گااور سب سے اچھا انداز تلاشِ تقربِ صادق ہے، اعتمادِ شخصیتِ صادق ہے۔ یہ تلاش عین ایمان ہے۔ سب سے سچے اور اکمل انسان نے حقیقت کے بارے میں جو فرما دیا ‘ وہی حقیقت ہے۔ اسی کی اطاعت کرنا ہے۔ نئے اندازِ فکر کی بدعت میں مبتلا نہیں ہونا!
اس دنیا میں وہ لوگ بھی ہیں ‘ جو حقیقت کی تلاش کرتے ہیں۔ ان کا مدعا خالقِ حقیقی ہے۔ یہ تلاش نہ ختم ہونے والی تلاش ہے۔ اس سفر کا مدعا بھی سفر ہے ۔ اس کی انتہا بھی سفر ہے۔ محدود کا لامحددو کے لیے سفر کسی بیان میں نہیں آ سکتا۔ قطرے کو قلزم آشنا ہونے کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ‘ وہی جانتا ہے جس پر یہ مقامات اور مراحل گزرتے ہیں۔
خالق کی تلاش بعض اوقات دنیا سے فرار کی خواہش ہے۔دنیا سے گھبرا کر ‘ وحشت زدہ ہو کر ‘ انسان خالق کا قرب تلاش کرتا ہے۔ کچھ لوگ دنیا کی نعمتوں کے حصول کے باوجود ‘ اس کی محبت میں سرشار ‘ خالق کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ حقیقت کی تلاش انہیں کسی انسان تک ہی پہنچاتی ہے اور وہ انسان انہیں راز آشنا کر دیتا ہے۔ اس کے بعد کا سفر ‘ جلوﺅں کا سفر ہے۔ نور کا سفر ہے۔ اسی کائنات میں نئی کائنات کا سفر ہے۔قطرے کا سفر وصالِ قلزم کے بعد اناالبحر کا بیان ہے اور یہ بیان ‘ بیان میں نہیں آ سکتا۔
انسان جب کسی تلاش میں نکلتا ہے تو اس کے پاس وہ ذریعہ ہوتا ہے ‘ وہ آلہ ہوتا ہے‘ جس سے وہ اپنی تلاش کے مدعا کو پہچان سکے۔ اگر وہ آلہ آنکھ ہو تو حقیقت کسی چہرے ‘ کسی منظر ‘ کسی نظارے ‘ کسی جلوے ‘ کسی رعنائی ‘ کسی رنگ کا نام ہے۔ حقیقت کا چہرہ بھی ہوتا ہے۔ جدھر آنکھ اُٹھاؤ ‘ اُدھر ہی اس کا رنگ بھی ہوتا ہے۔ سب سے احسن رنگ حقیقت کا رنگ ہے۔
صداقت کا سفر ‘ حقیقت کا سفر ہے۔ صادق کا تقرب ‘ حق کا تقرب ہے ۔ صادق کی محبت ‘ حق کی محبت ہے۔ صادق کی رضا‘ صداقت کی سند ہے اور صداقت کی سند ‘ حقیقت کا وصال ہے۔آئینہ صداقت میں جمالِ حقیقت نظر آ سکتا ہے۔ اسی کی تلاش‘ گوہرِ مقصد کی تلاش ہے اور یہی تلاش‘ حاصلِ ہستی ہے اور یہی حاصل‘ عین ایمان ہے۔
اگر حقیقت کی تلاش میں انسان سماعت لے کر نکلے تو حقیقت نغمے کی شکل میں آشکار ہو گی، آواز کی صورت میں جلوہ گر ہو گی۔ ایسا متلاشی دُور کی آواز سُنے گا۔ وہ خاموشی کی صدا سُنے گا۔ وہ سنّاٹوں سے پیغام لے گا۔ اُسے آہٹیں سنائی دیں گی۔ وہ تنہا ہو گا اور حقیقت اس سے ہم کلام ہو گی۔ اس سچّے متلاشی کی سماعت ہی ذریعہ وصالِ حق بن جائے گی۔ ایسے انسان کو افلاک سے نالوں کا جواب آتا ہے۔ اُسے آہ و فغانِ نیم شب کا پیام آتا ہے۔ وہ سکوت سے کلام کرتا ہے۔ آنے والے زمانے اس سے بات کرتے ہیں۔ اپنی سماعت‘ غیرِ حق پر بند کر دینے سے یہ راز کھُل سکتا ہے۔
حقیقت کی تلاش میں انسان صرف چہرہ بن کر نکلے ‘ تو حقیقت آنکھ بن کر سامنے آئے گی۔ وہ آنکھ ‘ جو اُس کے چہرے کی قیمت ہے۔ وہیں سے پہچان شروع ہو جائے گی۔ اُسے ہر چہرے میں اپنا ہی چہرہ نظر آنے لگے گا۔ وحدت الوجود کا یہ مقام بیان میں نہیں آ سکتا۔ یہ صرف مشاہدہ ہے، تلاش کرنے والوں کا حاصل۔ انسان کی پہچان کا راز اس کی تلاش میں مضمر ہے۔ ہم جس شے کے انتظار میں ہیں‘ وہی ہماری عاقبت ہے۔ ہمیں اپنے انتظار کا کھوج لگانا چاہیے۔ سچ کے مسافر سچے ہوتے ہیں اور جھوٹ کے جھوٹے۔
کچھ لوگ حقیقت کی تلاش میں نکلتے ہیں ، سخاوت کے جذبے لے کر۔ وہ اپنا مال حقیقت پر نثار کرنے کے لیے ساتھ لیتے ہیں۔ حقیقت سائل کے رُوپ میں اُن سے واصل ہو گی۔ ضرورت مند ‘ سائل ‘ محتاج لیکن سخی کے ساتھ سخاوت کرنے والے انداز کے ساتھ۔ سخاوت وصالِ حق کا ذریعہ ہے۔ اگر انسان محتاج بن کر اس کی تلاش میں نکلے تو حقیقت سخی بن کر سامنے آئے گی۔ ہماری تلاش کے رُوپ کے مقابل حقیقت نے رُوپ اختیار کرنا ہے۔
جو لوگ تلاش کے مقدّس سفر میں دل لے کر نکلتے ہیں‘ وہ حقیقت کو دلبری کے انداز میں پاتے ہیں۔ انہیں کائنات کا ہر ذرہ ایک تڑپتا ہوا دل محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت کی ادائے دلبری ایسے متلاشی کو اپنا ذاکر بناتی ہے۔ وہ حقیقت کا ذکر کرتا ہے ‘ حقیقت اس کا ذکر کرتی ہے۔ یہ عجیب سلسلے ہیں۔ دل والے متلاشی اس مقام تک پہنچ سکتے ہیں ‘ جہاں ذکر ‘ ذاکر اور مذکور باہم ہوں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں چند ساعتیں صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔
کچھ ذہین لوگ عقلِ سلیم کے ذریعے حقیقت کی تلاش کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔ یہ سفر بڑا محتاط ہوتا ہے۔ایسے لوگ دنیا کے عبرت کدے میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں۔ وہ تحیّر آشنا ہو کر حقیقت آشنا ہو جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کوئی نتیجہ بے سبب نہیں ہوتا اور کوئی سبب بغیر نتیجے کے نہیں ہو سکتا۔ اتنی بڑی کائنات بغیر سبب کے نہیں اور اس سبب کا ایک پیدا کرنے والا ضرور ہے اور وہی مسبّب ہے۔ عقل والے سبب سے مسبّب کا سفر کرتے ہیں۔ وہ نعمتوں سے مُنعم کا نشان معلوم کرتے ہیں۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہر چیز انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ انسان زندہ ہونے کے باوجود زندگی کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ مرے بغیر موت کو کیسے سمجھ سکتا ہے۔ وہ خالق سے راز آشنائی کا سوال کرتے ہیں اور اُن کو رموزِ مرگ و حیات سے آگاہ کر دیا جاتا ہے تو وہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ ” اَسلَمتُ لِرَبِّ العالَمین“….اور اس تسلیم کا نتیجہ ”آگ گلزار بن جاتی ہے اور وصالِ حق کی منزل آسان ہو جاتی ہے“
غرضیکہ ‘ تلاش جو انداز اختیار کرے ‘ حاصلِ تلاش اُسی انداز میں سامنے آئے گااور سب سے اچھا انداز تلاشِ تقربِ صادق ہے، اعتمادِ شخصیتِ صادق ہے۔ یہ تلاش عین ایمان ہے۔ سب سے سچے اور اکمل انسان نے حقیقت کے بارے میں جو فرما دیا ‘ وہی حقیقت ہے۔ اسی کی اطاعت کرنا ہے۔ نئے اندازِ فکر کی بدعت میں مبتلا نہیں ہونا۔
صداقت کا سفر ‘ حقیقت کا سفر ہے۔ صادق کا تقرب ‘ حق کا تقرب ہے ۔ صادق کی محبت ‘ حق کی محبت ہے۔ صادق کی رضا ‘ صداقت کی سند ہے اور صداقت کی سند ‘ حقیقت کا وصال ہے۔ آئینہ صداقت میں جمالِ حقیقت نظر آ سکتا ہے۔ اسی کی تلاش گوہرِ مقصد کی تلاش ہے اور یہی تلاش ‘حاصلِ ہستی ہے اور یہی حاصل ‘عین ایمان ہے۔