جذب کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔ ۔
بس جیسے ہر بات سطح پر رہ جاتی ہے۔۔۔
پانی کے اوپر تیرنے والے تیل کی طرح ہم بھی تو جذب کیئے بغیر ہر بات کو بے وزن کر دیتے ہیں۔۔
تو پھر بھلا آشنائی کیسے نصیب ہو!
بلا شک آج کے وقت میں علم تو عام ہے
مگر علم کو عمل میں بدلتے معلوم کو معمول بنانے والے نظر نہیں آتے ۔
تو پھر یہ علم کیسے جذب ہو روح انسانی میں ۔
مجھ جیسے " گلاں دے گالڑ "
عمل کے اجڑے باغ کے پٹواری بنے بیٹھے ہیں ۔
پرچار علم کا اور عمل بالکل مخالف ۔۔ اکتاہٹ کا سبب بن جاتا ہے ۔
" علموں بس کریں او یار ۔۔ اک الف اللہ مینوں درکار "
تو کیا " علم " جمود کا شکار ہو چکا ہے ۔ ؟
نہیں علم چونکہ سچے علیم کی عطا ہے ۔ اس لیے کبھی جمود کا شکار نہیں ہو سکتا ۔
علم تو ہر پل متحرک رہتے تشنگان علم کی سیرابی کا سبب بنا رہتا ہے ۔
ہم چونکہ ذاتی محاسبے سے دور رہتے دوسروں پر ناقد بنے رہتے ہیں ۔
اس لیئے ہمارا علم ہماری روح میں جذب نہیں ہو پاتا ۔
کلمہ " رب زدنی علما " ہمراہ لیے ہم اگر حاصل ہونے والے علم کو اپنے عمل میں بدلتے چلے جائیں
تو کوئی عجب نہیں کہ ہمارا وجود " بحر علم " کہلائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔