ام نور العين
معطل
" جرات كى طرح قربانى كے بارے ميں بھی پہلے غلط فہمى ہوئى ۔ خيال تھا كہ يہ گزرے ہوئے زمانے ميں كسى زرہ پوش اور كفن بردوش جذبے كا نام تھا اور اس زمانے ميں جنگ کے ليے ڈھال، تلوار اور يہ جذبہ كام آتا تھا، اب چونکہ ڈھال اور تلوار كا زمانہ نہیں رہا اس ليے قربانى كى بھی چنداں ضرورت نہيں ہے ۔ جنگ كے بارے ميں بھی ميرى واقفيت واجبى تھی ميرا اندازہ يہ تھا كہ جنگ صرف پہلے زمانے ميں ہوتی تھی جب آدمى غير مہذب اور بہادر تھا اور اب اس كى ضرورت نہيں رہی كيونكہ آدمى مہذب اور بزدل ہو گيا ہے ۔ پہلی جنگ عظيم كا ذكر كان ميں پڑا تو خيال ميں صرف اتنى ترميم ہوئی كہ اگر موجودہ دور ميں بھی جنگ كا كوئى وجود ہے تو وہ دور دراز كے علاقوں ميں ہو گا اور ہمارے علاقے كے بارے ميں راوى جب بھی لکھے گا چين لکھے گا ۔ وقت گزرا تو يہ غلط فہمى بھی دور ہوئی، معلوم ہوا كہ جنگ تو ہر وقت اور ہر جگہ جارى ہے ار اس كے وار سے نہ كوئى خطہ خالى ہے اور نہ كوئى لحظہ فارغ ۔ اس جنگ ميں ہر قدم پر قربانى دينى پڑتی ہے اور اس كى بھی مختلف صورتيں ہوتی ہیں۔ انتہائى صورت شہادت ہے مگر بعض لوگوں كى قسمت ميں ايسى زندگی لکھی جاتى ہے کہ وہ جيتے جى شہیدِ ناز ہو جاتے ہیں۔ اس قبيلہ کے لوگ زندہ شہيد كا درجہ ركھتے ہیں اور ان كے امام كا نام احمد بن حنبل (رحمہم اللہ ) ہے۔ مامون كے عہد ميں امام حنبل كى مشكيں كسى گئیں، معتصم كے عہد ميں انہیں کوڑے مار كر بےہوش كرتے اور تلوار كى نوك چبھو كر ہوش ميں لاتے، واثق كا عہد آيا تو انہيں قید تنہائى كى سزا ملى ۔ پيرانہ سالى آئى تو ابتلا كى جگہ اس احترام نے لے لى جو ہزار برس گزرنے كے باوجود لوگوں کے دلوں ميں تازہ ہے ۔ قيامت آئے گی تو كيا عجب كہ جہاں پيشانى سجدے كے نشان سے منور ہو گی وہاں پشت دروں کے نشان سے روشن تر ہو جائے۔وہ پشت جسے بعض حاكم درے لگانے كے ليے استعمال كرتے ہیں اس پر لوگ خوشى سے كئى نسلوں كا بوجھ اٹھا ليتے ہیں۔ دراصل جرات ايك طرزِ اختيار كا نام ہے اور قربانى ايك طريقِ ترك كو كہتے ہیں۔ اس ترك واختيار ميں بسر ہو جائے تو زندگی جہاد اور موت شہادت كا نام پاتى ہے۔ "
(اقتباس از : آواز دوست ، مختار مسعود )
(اقتباس از : آواز دوست ، مختار مسعود )