فاخر
محفلین
غزل
فاخر
التجا ہے يه مری ، دَہر کے صیّادوں سے
کوئی ناوَک، نہ چلا بیٹھے کمیں گاہوں سے
ہم نہ موسیٰ ہیں کوئی، اور نہ شبیر مگر
جنگ کرنی ہے ہمیں وقت کے فرعونوں سے
اپنے حق کے لیے بیدار تو رہنا ہوگا
خیر کی آس نہیں، کفر کے ایوانوں سے
چند سکوں کے عوض بیچ جو دیں اپنا وطن
حفظ لازم ہے وطن کا، انہیں غداروں سے
جو کہ مسند نشیں ہے آج یہ پیغام سنے
وُہ نہ الجھے کبھی توحید کے متوالوں سے
آہنی عزم ہماری ہی تو فطرت ہے، سنو
بارہا ہم ہی تو ٹکرائے ہیں طوفانوں سے!
یہ سنا ہے کہ ہیں وہ مسخ شدہ فطرت کے
تو بھلا ُنس ہو کیوں کر اُنہیں انسانوں سے
زندگی خاک نشینی پہ ہے نازاں فاخرؔ
نسبتیں کیوں ہوں مجھے تیرے شبستانوں سے!
فاخر
التجا ہے يه مری ، دَہر کے صیّادوں سے
کوئی ناوَک، نہ چلا بیٹھے کمیں گاہوں سے
ہم نہ موسیٰ ہیں کوئی، اور نہ شبیر مگر
جنگ کرنی ہے ہمیں وقت کے فرعونوں سے
اپنے حق کے لیے بیدار تو رہنا ہوگا
خیر کی آس نہیں، کفر کے ایوانوں سے
چند سکوں کے عوض بیچ جو دیں اپنا وطن
حفظ لازم ہے وطن کا، انہیں غداروں سے
جو کہ مسند نشیں ہے آج یہ پیغام سنے
وُہ نہ الجھے کبھی توحید کے متوالوں سے
آہنی عزم ہماری ہی تو فطرت ہے، سنو
بارہا ہم ہی تو ٹکرائے ہیں طوفانوں سے!
یہ سنا ہے کہ ہیں وہ مسخ شدہ فطرت کے
تو بھلا ُنس ہو کیوں کر اُنہیں انسانوں سے
زندگی خاک نشینی پہ ہے نازاں فاخرؔ
نسبتیں کیوں ہوں مجھے تیرے شبستانوں سے!
آخری تدوین: