زندگی رقصِ شرر ہو جیسے

زندگی رقصِ شرر ہو جیسے
مضطرب کوئی لہر ہو جیسے
وہ جو نکلے تو یوں دکھائی دے
ہر نظر محوِ نظر ہو جیسے۔ ۔ ۔
بس رہا ہے وہ میری سانسوں میں
اور اسکو یہ خبر ہو جیسے
اسی امّید پر اسے مانگُوں
کہ دعاؤں میں اثر ہو جیسے
دل میں یوں ‌غم کو چھپا رکھا ہے
گہرے پانی میں گہر ہو جیسے
چھوڑئیے رات گئی بات گئی
سمجھئیے خوابِ سحر ہو جیسے
تیرے بن زندگی یوں لگتی ہے
ایک صحرا کا سفر ہو جیسے
تیرے لہجے کی حلاوت محمود
ایسا لگتا ہے زہر ہو جیسے۔ ۔ ۔​
 

محمد وارث

لائبریرین
لہر اور زہر دونوں قافیے دوسرے قافیوں کے ساتھ غلط ہیں، وجہ یہ کہ ان دونوں میں ہ ساکن ہے، یعنی لہ،ر اور زہ،ر۔

غزل میں دو بحریں 'سائیڈ بائی سائیڈ' چل رہی ہیں، درستگی ضروری ہے :)
 

فاتح

لائبریرین
معنوی اعتبار سے بے حد خوبصورت کلام ہے اور تکنیکی حوالے سے بھی عمدہ کوشش ہے۔
وارث صاحب نے "لہر" اور "زہر" والے جن دو مصرعوں کی نشان دہی کی ہے ان کے علاوہ درج ذیل بھی خارج از وزن ہیں:
سمجھئیے خوابِ سحر ہو جیسے
تیرے بن زندگی یوں لگتی ہے
ایک مشورہ دینا چاہوں گا معذرت کے ساتھ کہ اگر ردیف کو "ہو جیسے" سے تبدیل کر کے "ہے گویا" کر دیا جائے تو صوتی تاثر زیادہ خوبصورت ہو جائے گا۔
 
تھوڑی سی تبدیلی کی ہے، دیکھئے اگر کوئی بات بنی ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زندگی رقصِ شرر ہو جیسے
موجِ مُضطر کا سفر ہو جیسے
وہ جو نکلے تو یوں دکھائی دے
ہر نظر محوِ نظر ہو جیسے۔ ۔ ۔
بس رہا ہے وہ میری سانسوں میں
اور اسکو یہ خبر ہو جیسے
اسی امّید پر اسے مانگُوں
کہ دعاؤں میں اثر ہو جیسے
دل میں یوں ‌غم کو چھپا رکھا ہے
گہرے پانی میں گہر ہو جیسے
چھوڑئیے رات گئی بات گئی
جانئے خوابِ سحر ہو جیسے
تیرے بن زندگی کچھ ایسے ہے
کوئی صحرا کا سفر ہو جیسے
تیرے لہجے کی حلاوت محمود
تلخیوں کا یہ ثمر ہو جیسے۔ ۔ ۔
 

فاتح

لائبریرین
زندگی رقصِ شرر ہو جیسے (1)
موجِ مُضطر کا سفر ہو جیسے (1)

وہ جو نکلے تو یوں دکھائی دے (2)
وہ جو نکلے تو دکھائی یوں دے (1)
ہر نظر محوِ نظر ہو جیسے (1)

بس رہا ہے وہ میری سانسوں میں (2)
بس رہا ہے وہ مری سانسوں میں (1)
اور اس کو یہ خبر ہو جیسے (1)

اسی امّید پر اسے مانگُوں (2)
اسی امّید پہ مانگوں اس کو (1)
کہ دعاؤں میں اثر ہو جیسے (1)

دل میں یوں ‌غم کو چھپا رکھا ہے (1)
گہرے پانی میں گہر ہو جیسے (1)

چھوڑئیے رات گئی بات گئی (1)
جانئے خوابِ سحر ہو جیسے (1)

تیرے بن زندگی کچھ ایسے ہے (2)
(یوں تو تقطیع میں زندگی کا ی گرا دیا جائے تو مصرع وزن (1) میں آ جائے گا لیکن اس طرح مصرع کا صوتی تاثر بگڑ جاتا ہے۔)
زندگی بن ترے کچھ ایسے ہے (1)
کوئی صحرا کا سفر ہو جیسے (1)

تیرے لہجے کی حلاوت محمود (1)
تلخیوں کا یہ ثمر ہو جیسے (1)

(1) فاعلاتن فعلاتن فعلن
(2) فاعلاتن مفاعلن فعلن
 

الف عین

لائبریرین
وارث کی بات اوپر دیکھی تھی کہ دو بحریں ’سائڈ بائے سائڈ‘ چل رہی ہیں، اچھا ہوا فاتح نے اس کی نشان دہی کر دی۔ میرے لئے اب کچھ کہنے کو بچا نہیں ہے۔ البتہ یہ جرور کہوں گا کہ ردیف ’ہو جیسے‘ ہی سامنے کی اور عام فہم ہے، ’ہے گویا‘ کم از کم مجھے جمی نہیں۔
محمود، یہ دونوں بحریں بہت کنفیوزنگ ہیں، اچھے اچھے غلطی کر دیتے ہیں، اس لئے مایون ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ثانی مصرعے سارے
فاعلاتن فعلاتن فعلن
میں ہیں، اس لئے اولیٰ کو اس حساب سے درست کرنے کی ضرورت ہے۔
 
Top