محمود احمد غزنوی
محفلین
زندگی رقصِ شرر ہو جیسے
مضطرب کوئی لہر ہو جیسے
وہ جو نکلے تو یوں دکھائی دے
ہر نظر محوِ نظر ہو جیسے۔ ۔ ۔
بس رہا ہے وہ میری سانسوں میں
اور اسکو یہ خبر ہو جیسے
اسی امّید پر اسے مانگُوں
کہ دعاؤں میں اثر ہو جیسے
دل میں یوں غم کو چھپا رکھا ہے
گہرے پانی میں گہر ہو جیسے
چھوڑئیے رات گئی بات گئی
سمجھئیے خوابِ سحر ہو جیسے
تیرے بن زندگی یوں لگتی ہے
ایک صحرا کا سفر ہو جیسے
تیرے لہجے کی حلاوت محمود
ایسا لگتا ہے زہر ہو جیسے۔ ۔ ۔
مضطرب کوئی لہر ہو جیسے
وہ جو نکلے تو یوں دکھائی دے
ہر نظر محوِ نظر ہو جیسے۔ ۔ ۔
بس رہا ہے وہ میری سانسوں میں
اور اسکو یہ خبر ہو جیسے
اسی امّید پر اسے مانگُوں
کہ دعاؤں میں اثر ہو جیسے
دل میں یوں غم کو چھپا رکھا ہے
گہرے پانی میں گہر ہو جیسے
چھوڑئیے رات گئی بات گئی
سمجھئیے خوابِ سحر ہو جیسے
تیرے بن زندگی یوں لگتی ہے
ایک صحرا کا سفر ہو جیسے
تیرے لہجے کی حلاوت محمود
ایسا لگتا ہے زہر ہو جیسے۔ ۔ ۔