شیزان
لائبریرین
زندگی پاؤں نہ دَھر جانبِ انجام ابھی
مرے ذمے ہیں ادُھورے سے کئی کام ابھی
مرے ذمے ہیں ادُھورے سے کئی کام ابھی
ابھی تازہ ہے بہت گھاؤ بچھڑ جانے کا
گھیر لیتی ہے تری یاد سرِشام ابھی
گھیر لیتی ہے تری یاد سرِشام ابھی
اِک نظر اور اِدھر دیکھ مسیحا میرے
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
ترے بیمار کو آیا نہیں آرام ابھی
رات آئی ہے تو کیا ، تم تو نہیں آئے ہو
مری قسمت میں کہاں لِکھا ہے آرام ابھی
مری قسمت میں کہاں لِکھا ہے آرام ابھی
جان دینے میں کروں دیر، یہ مُمکن ہے کہاں
مجھ تک آیا ہے مری جاں ترا پیغام ابھی
مجھ تک آیا ہے مری جاں ترا پیغام ابھی
طائرِ دل کے ذرا پَر تو نِکل لینے دو
اِس پرندے کو بھی آنا ہے تہِ دام ابھی
اِس پرندے کو بھی آنا ہے تہِ دام ابھی
توڑ سکتا ہے مرا دل یہ زمانہ کیسے
میرے سینے میں دھڑکتا ہے ترا نام ابھی
میرے سینے میں دھڑکتا ہے ترا نام ابھی
میرے ہاتھوں میں ہے موجُود ترے ہاتھ کا لمس
دِل میں برپا ہے اُسی شام کا کہرام ابھی
دِل میں برپا ہے اُسی شام کا کہرام ابھی
میں ترا حسن سخن میں ابھی ڈھالوں کیسے
میرے اشعار بنے ہیں کہاں اِلہام ابھی
میرے اشعار بنے ہیں کہاں اِلہام ابھی
مری نظریں کریں کیسے ترے چہرے کا طواف
مری آنکھوں نے تو باندھے نہیں احرام ابھی
مری آنکھوں نے تو باندھے نہیں احرام ابھی
یاد کے ابَر سے آنکھیں مری بھیگی ہیں عدیم
اِک دھندلکا سا ہے ،بھیگی تو نہیں شام ابھی
اِک دھندلکا سا ہے ،بھیگی تو نہیں شام ابھی
نذرِ اقبال
عدیم ہاشمی