عرفان سعید
محفلین
زندگی کا سفر
زندگی کا سفر ہمیشہ یک طرفہ شاہراہ پر جاری و ساری رہتا ہے۔ وقت کی تیز گام گاڑی کو روکنا تو ممکن نہیں ہوتا، لیکن چند لمحوں کو ہم اس گزرگاہ پر رُک تو سکتے ہیں،کچھ دیر کو سستا تو سکتے ہیں، سوچ بچار تو کر سکتے ہیں، اپنے ہمراہ زادِ راہ کا حساب تو لگا سکتے ہیں، اپنے لائحہ عمل کا جائزہ تو لے سکتے ہیں، اپنے ماضی کی یادوں میں تو کھو سکتے ہیں، اپنے مستقبل میں تو جھانک سکتے ہیں۔ لیکن ان سب امکانات کے باوصف یہ ایک دائمی حقیقت ہے کہ ہمیں صرف آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ ماضی کے دریچوں میں جب چاہیں ، ہم دیکھ تو سکتے ہیں کہ شارعِ حیات پر کتنی مسافت طے کیے بیٹھے ہیں، کن کن وادیوں، کہساروں، مرغزاروں اور ریگزاروں سے گزر آئے ہیں، لیکن سفرِ زندگی میں واپسی کی سب راہیں مسدود ہیں، پلٹنے کے سب راستے بند ہیں، مراجعت کے تمام امکانات ناپید ہیں۔کبھی کبھی تھوڑی دیر کے لیے رک کر اپنی داستانِ حیات کی کتاب کے اوراق پلٹ کر غور و فکر کرنا چاہیے کہ آج جس مقام تک پہنچ گیا ہوں، جس جگہ پر کھڑا ہوں، کیا یہاں سے اپنی منزل تک جا پاؤں گا؟ کیا میرا اگلا قدم مجھے درست سمت میں لے کر جائے گا یا پھر مجھے مزید برگشتہ و حیران کر دے گا؟ اب تک زندگی میں کیا کھویا اور کیا پایا؟کیا کامرانی نے میری جبیں کو بوسہ دیا یا پھر ناکامیوں نے میرے ارادوں کو پامال کیا؟ زندگی کی معنویت و مقصدیت کیا مجھ پر عیاں ہے یا یہ خزینہ میری نظر سے پنہاں ہے؟ میری سماعت کیا میرے روح کے ترانوں کو سنتی ہے یا پھر روز و شب کے ہنگاموں اور شورو غل سے گھائل ہے؟ میری بصارت و بصیرت کیا میری شخصیت کی اتھاہ گہرائیوں میں پوشیدہ جواہر کا احاطہ کرتی ہے یا پھر زمانے کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں غرق ہے؟
چند لمحوں کو مجھے اپنے اندر جھانکنا ہے، اپنی منزل کا تعین کرنا ہے، اپنی رفتار اور سمت کا اندازہ کرنا ہے، سب رکاوٹوں پر حاوی ہونا ہے، اپنی کاوش اور جہدِ مسلسل کو ہمت و توانائی کا ایندھن فراہم کرنا ہے۔ بس چند لمحوں کو رُکنا شرط ہے۔