زندگی کس کی نگاہِ بے پنہ کا تیر ہے : سیدہ سارا غزل ہاشمی

زندگی کس کی نگاہِ بے پنہ کا تیر ہے
جو دل ِ زندہ نظر آیا وہی نخچیر ہے

دیکھنے والوں پہ ظاہر ہے ہر اک پہلو مرا
آنکھ کی حیرت تری بھی میری ہی تصویر ہے

میں وہ لیلیٰ ہوں کہ ہے مجھ پر گراں صحرا مرا
تو وہ مجنوں ہے کہ ہر صحرا تری زنجیر ہے

راستوں کی خاک سے چمکی مسافر کی جبیں
شب کی تاریکی ستارے کیلئے تنویر ہے

دیکھ لیتی ہے تجھے اے خاورِ خیرہ اثر
آنکھ والوں کی نظر بھی لائقِ تحریر ہے

پردہ ء دل میں چھپا رکھا تھا جس غم کو غزل
آج دنیا میں اسی کی ہر طرف تشہیر ہے

سیدہ سارا غزل ہاشمی
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
زندگی کس کی نگاہِ بے پنہ کا تیر ہے​
جو دل ِ زندہ نظر آیا وہی نخچیر ہے​

میں وہ لیلیٰ ہوں کہ ہے مجھ پر گراں صحرا مرا​
تو وہ مجنوں ہے کہ ہر صحرا تری زنجیر ہے​

راستوں کی خاک سے چمکی مسافر کی جبیں​
شب کی تاریکی ستارے کیلئے تنویر ہے​

ویسے تو ساری غزل ہی بہت عمدہ ہے مگر یہ تین اشعار تو لا جواب ہیں۔
واہ بہت خوب
 
زندگی کس کی نگاہِ بے پنہ کا تیر ہے​
جو دل ِ زندہ نظر آیا وہی نخچیر ہے​

میں وہ لیلیٰ ہوں کہ ہے مجھ پر گراں صحرا مرا​
تو وہ مجنوں ہے کہ ہر صحرا تری زنجیر ہے​

راستوں کی خاک سے چمکی مسافر کی جبیں​
شب کی تاریکی ستارے کیلئے تنویر ہے​

ویسے تو ساری غزل ہی بہت عمدہ ہے مگر یہ تین اشعار تو لا جواب ہیں۔
واہ بہت خوب
سر بلال اعظم صاحب آپکی شفقت اور حوصلہ افزائی کے لئے بیحد شکرگزار ہوں۔ اللہ سوہنا ہمیش خوش و خرم رکھے۔ آمین
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
سر بلال اعظم صاحب آپکی شفقت اور حوصلہ افزائی کے لئے بیحد شکرگزار ہوں۔ اللہ سوہنا ہمیش خوش و خرم رکھے۔ آمین

باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن میں کسی بھی صورت میں اس لائق نہیں ہوں کہ آپ مجھے سر کہیں (شاید یہ احمد فراز کی تصویر کی وجہ سے ایسا ہوا ہے)، نہ میں علم میں آپ سے بڑھ کر ہوں اور نہ ہی عمر میں۔
لہٰذا آپ مجھے چھوٹا بھائی یا بلال بھائی کچھ بھی کہہ سکتی ہیں۔
 
باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن میں کسی بھی صورت میں اس لائق نہیں ہوں کہ آپ مجھے سر کہیں (شاید یہ احمد فراز کی تصویر کی وجہ سے ایسا ہوا ہے)، نہ میں علم میں آپ سے بڑھ کر ہوں اور نہ ہی عمر میں۔
لہٰذا آپ مجھے چھوٹا بھائی یا بلال بھائی کچھ بھی کہہ سکتی ہیں۔
ہمیشہ مسکراتے رہیں پیارے بلال بھیا۔ ہمیشہ سلامتی ہو
 
زندگی کس کی نگاہِ بے پنہ کا تیر ہے
جو دل ِ زندہ نظر آیا وہی نخچیر ہے

دیکھنے والوں پہ ظاہر ہے ہر اک پہلو مرا
آنکھ کی حیرت تری بھی میری ہی تصویر ہے

میں وہ لیلیٰ ہوں کہ ہے مجھ پر گراں صحرا مرا
تو وہ مجنوں ہے کہ ہر صحرا تری زنجیر ہے

راستوں کی خاک سے چمکی مسافر کی جبیں
شب کی تاریکی ستارے کیلئے تنویر ہے

دیکھ لیتی ہے تجھے اے خاورِ خیرہ اثر
آنکھ والوں کی نظر بھی لائقِ تحریر ہے

پردہ ء دل میں چھپا رکھا تھا جس غم کو غزل
آج دنیا میں اسی کی ہر طرف تشہیر ہے

سیدہ سارا غزل ہاشمی

کیا کہنے ۔ واہ واہ۔ بہت خوب۔
 
Top