عرفان سعید
محفلین
زندگی کی دو راہیں
عرفان سعید
معرکۂ حیات کے میدان ِ کارزار میں صرف دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کی ناؤ کو قسمت کی لہروں کے سہارے بے آسرا چھوڑ دیا جائے۔ اب اگر موجوں پُر سکون ہیں اور طغیانی سے عاری ہیں تو عین ممکن ہے کہ یہ سفینۂ حیات کو بحفاظت کسی خوبصورت اور خوش گوار مقام کے ساحل تک پہنچا دیں گی۔لیکن اگر اس سمندر میں طوفان اور شورش ہے تو یہ زندگی کی کشتی کو با ر بار اُلٹ پلٹ کریں گی، پٹخ پٹخ کر سنگلاخ چٹانوں اور آتش فشانوں پر دے ماریں گی اور کسی بنجر و ویران جزیرے پر بے یار و مدد گار پھینک دیں گی۔عرفان سعید
لیکن ایک دُوسری رہگزر بھی ہے اور وہ یہ کہ اپنے مُقدر کی تعمیر خُود کی جائے اور زندگی کی بیش قیمت، انمول اور خوبصورت عمارت کی تزئین و آرائش اپنے ہاتھوں کی جائے۔ اب زندگی کی کشتی کو حالات کی تلاطم خیز لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے اس بیڑے کو اس قدر پختہ اور مضبوط بنایا جائےکہ اب اس سمندر میں کتنا ہی طوفان کیوں نہ اُٹھے، کتنی ہی شورش و طغیانی برپا کیوں نہ ہو جائے، یہ سب اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں اور دم توڑ دیں، اور یہ سفینہ ہر سرکشی اور بغاوت کو کُچلتا ہوا آگے بڑھتا رہے۔
ہر انسان کے پاس دونوں میں سے کسی ایک راہ کے انتخاب کی مکمل آزادی ہے۔ پہلی راہ چُننا بہت آسان ہے لیکن اس کے سہارے زندگی گُزارنا نہایت مشکل ہے۔ دُوسرے راستے کا انتخاب اگرچہ بے حد عالی حوصلگی اور عزم و استقامت کا تقاضا کرتا ہے لیکن اس منزل کے مسافروں کے لیے زندگی بے حد سہل ہو جاتی ہے۔ اب یہ ہر شخص کی مرضی کہ وہ اپنی قسمت کا غُلام بننا پسند کرتا ہے یا اپنے مُقدر کا سکندر۔