زندگی کے اوراق سے۔۔۔۔

ایک بار ایک زخمی کو عبداللہ پورپل سے ریسکیو کیا، وہ بیچارہ اپنی دکان سے گھر واپس جا رہا تھا ۔ اس کی موٹر سائیکل کسی گاڑی سے ٹکرائی اور اس بیچارے کی حالت بگڑ گئی۔ اس کے موٹر سائیکل کے آگے آموں کے لٹکے اور بھرے ہوئے دو شاپروں میں سے ایک کھل کر بکھر گیا تھا اور ایک ابھی سلامت تھا۔ اس کی جان کے ساتھ اس کے مال کو بھی ریسکیو کرنے کی کوشش کی اورجس قدر تیزی سے ممکن ہوسکتا تھا اسے ہسپتال پہنچا دیا۔ اب ہسپتال شفٹنگ کے دوران ہمارے پاس مریض جب کہ ڈرائیورکے پاس آموں کے شاپر تھے۔ دیکھنے والے بہت سے لوگ ہماری ایمانداری اور کام سے لگن کو بڑے رشک سے دیکھ رہے تھے کہ ایک پولیس والے بھائی صاحب نے بڑی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے جو کچھ کہا وہ آج تک ہنسی اور افسوس کے ملے جلے جذبات کے ساتھ پردہ دماغ پر محفوظ ہے۔ فرمانے لگے:
یار عجیب لوگ ہو تم بھی ۔۔۔۔ یہ آم تو کھا لینے تھے۔۔۔۔۔۔ !




 

ہادیہ

محفلین
یعنی کسی کی جان کی کوئی اہمیت نہیں تھی پولیس والے کے نزدیک۔۔۔ انسان جس بھی شعبے سے منسلک ہو مگر سب سے پہلے وہ ایک انسان ہے اور انسانیت کو زندہ رکھنا چاہیئے اپنے اندر ۔۔۔۔یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
 
یعنی کسی کی جان کی کوئی اہمیت نہیں تھی پولیس والے کے نزدیک۔۔۔ انسان جس بھی شعبے سے منسلک ہو مگر سب سے پہلے وہ ایک انسان ہے اور انسانیت کو زندہ رکھنا چاہیئے اپنے اندر ۔۔۔۔یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔
کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے ہمارے معاشرے میں ۔ پولیس تو ایک طرف اب تو ڈاکٹروں کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں۔
 
Top