زندگی کے نام اک پیغام ۔۔۔

ہمارے بیتے ہوئے کل کا کوئی جسم نہیں ہوتا، لیکن اس کی موجودگی کا احساس ہمارے آج کو جھنجھوڑ دیتا ہے! غلطی کس کی تھی مجھے نہیں معلوم، ہاں مجھے تو بیچ میں آنا ہی تھا۔ معلوم نہیں لیکن ابھی بھی آنکھوں میں چُبتی ہو، اچھی لگتی ہو، منفرد لگتی ہو، اپنی لگتی ہو۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ وقت آگے بڑھ رہا ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں اور وقت کے مطابق چلنے کی جستجو کر رہا ہوں مگر وقت سے زیادہ تیز نہیں چل سکتا؛ نہیں ہے مجھ میں اتنی ہمت، وقت بھاگ رہا ہے!۔ سنو! کسی کے بھاگنے سے وقت نہیں بدلے گا، وہ اپنی ہی رفتار سے چلے گا۔ دنیا سے اعتبار اور بھروسہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم آنے والی نسل کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ یہ اعتبار کیا ہے؟ بھروسہ کس چیز کا نام ہے؟ اب بھروسہ و اعتبار میوزیم میں رکھ بھی تو نہیں سکتے!
سچ کے الگ الگ رُوپ ہوتے ہیں لیکن سچ ہمشہ سچ ہوتا ہے۔ مگر ہم اُس کو سچ مانتے ہیں جو ہمارے حق میں ہوتا ہے۔ بڑے خودگرز ہوتے ہیں ہم؛ جسے پسند کرتے ہیں اُس کی برائیاں بھول جاتے ہیں، جس سے نفرت کرتے ہیں اُس کی اچھائیاں بھول جاتے ہیں۔ اب تمہارا کہنا ہے کہ تم اپنے آپ کو جانتی ہو، کبھی تلاشہ ہے خود کو؟ دیکھو، جب کسی کو جاننا ہے، کسی کی چاہت کو پیچھانا ہے، ضروری ہے کہ پہلے خود کو پہچانوں؛ ورنہ چلتے رہو زندگی بھر ریل کی پٹری کی طرح، ملنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں! اکثر لوگ رشتوں کو سمجھ نہیں پاتے۔ غلط فہمی کی دُھند جمع ہو جاتی ہے اور اُسے دور کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ جتنا ہم سمجھتے ہیں اتنی آسان نہیں ہوتی زندگی، زندگی برسات کی سڑک کی طرح ہوتی ہے؛ کبھی پسلن، کبھی ٹھوکر؎ زندگی کا ہر پل آخری سمجھ کر جینا چاہیے! موت کے بعد زندہ کون رہتا ہے؟
 
Top