کاشفی

محفلین
زندگی کے ہجر میں
Appi_sober_picture.jpg

ہماری کلاسیکی شاعری میں جذبوں اور کیفیتوں کو بیان کرنے کی جو طاقت ہے وہ ہر زمانے اور ہر فرد کے لئے ہمیشہ تخلیقی تحریک کا ذریعہ ہوتی ہے۔ یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے سُر۔سامونڈی میں دورسمندر پار جانے والے تاجروں کی برہن بیوی کی واردات اور کیفیت کچھ اس طرح بیان کی تھی کہ مجھے اس میں آج کے زمانے میں کمانے کے لئے پردیس آنے والوں کے دکھ کا پرتو نظر آیا اور میں نے گاؤں میں بیٹھی عورت کو زندگی کی علامت بنا کر ہجر وفراق کا المیہ رقم کرنے کی کوشش کی تو وہ پھیل کر ایک ایسی طویل نظم بن گئی ہے۔جو الگ الگ کیفیتوں کو ملا کر ایک مربوط کہانی کا تاثر پیش کرتی ہے۔ اس لئے قارئین اسے ایک ساتھ پڑھیں گے تو شاید اثر انگیز ہوگا۔
(ثروت زہرا )

خاتون کی طر ف سے خطوط
دشتِ وفا کی نازنیں بیٹھی ہے انتظار میں
آس کے سوت کاتنا بس اس کے اختیار میں
کوکھ میں کل کو پالتی ۔گودوں میں صبحیں ڈھالتی
اسکو صلہ یہی ملا پیتم کے پیارے پیار میں
آنکھ میں سونی رات ہے کانوں میں ہوئی بات ہے
کس سے کہے کہ تم نہیں اسکی کسی پکار میں
کتنے زمانے گِل گئے کتنی مسافت ہوگئی
سجنا گئے پردیس کو اب کیا ہے گجرے ہا ر میں
اجڑی ہوئی صبحیں سبھی بکھری ہوئی شاموں کی لو
اک آگ ہے بس تاپنا ہستی کاردار میں
لکھتی ہے سجنا کے لئے بس چٹھیوں پہ چٹھیاں
سوچا ہے ابکے بانٹ دوں کچھ اپنے کوئے یار میں


پہلا خط
منے نے باتیں سیکھ لیں قدموں پہ چلنا آگیا
کل لڑکھڑایا صحن میں گر نے لگا تو یوں لگا
ہاتھوں کو پھیلائے ہوئے مانگے تمھارے ہاتھ کو
انگلی پکڑ کے میں چلی تو مجھ کو رونا آگیا
ہوتے جو تم تو میں بھلا منے کو کیونکر تھامتی
کیسے میں تیر ی یاد سے منے کی خواہش بانٹتی
بچوں کو اپنے باپ کے ہمراہ جب دیکھے ہے وہ
میں جانتی ہوں دل میں کیا اور کسطرح سوچے ہے وہ
جب لوٹتے ہیں شام کو اپنے گھروں کو لوگ سب
اٹھتا ہے چولھوں سے دھواں چھٹتے ہیں دن کے روگ سب
آتا ہے میرے پاس وہ اپنے سوالوں کو لیے
تم لوٹ کر کب آ ؤ گے اسکے جوابوں کو لیے


دوسرا خط
لو آگئے جاڑوں کے دن میلا لگا ہے گاؤں میں
پیپل تمھارا کٹ گیا بیٹھے تھے جسکی چھاؤں میں
پیسے تو مجھ کو مل گئے پر کیا اکیلی جاؤں میں
میلے میں اتنے لوگ ہیں ڈر ہے نہ گم ہو جاؤں میں
رحموں گیا تو ساتھ ہی کل ریشماں ہو آئی ہے
میرے لیے تو ساتھ کو اک درد ہے تنہائی ہے
جوڑے تمھارے مل گئے پر کیا انہیں پہنوگی میں
آیئنے سے پوچھوں گی کیا ؟اس چپ سے کیا بہلوں گی میں


تیسرا خط
اماں بہت بیمار ہے جوڑوں میں پھر سے درد ہے
آنکھوں میں امید وں کی لو اب کے بہت ہی سرد ہے
دن رات تیرے ذکر ہیں جو مجھ سے کرتی جاتی ہے
بچپن ترا صورت تری بس مالا جپتی جاتی ہے
تو تھا دوائیں لیتی تھی اب ان سے بھی پر خاش ہے
کہتی ہے جی کر کیا کروں کیا ڈاکٹر کے پاس ہے
کل ڈاکیے سے لڑ پڑی تم خط نہیں پہنچاتے ہو
بیٹا مرا چھٹی لکھے تم دھیان سے نہیں لاتے ہو
ملتا رہے کچھ حوصلہ یہ کام نہ روکا کرو
مجھ سے خفا ہو جائے گی خط تو ہمیں بھیجا کرو


چوتھا خط
چھوٹا تمام رات کل جلتا رہا بخار میں
کرتی میں کیا کہ کچھ نہیں ہے میرے اختیار میں
بھائی تمھارے کہہ رہے ہیں ٹھیک خود ہو جائے گا
اب کون جا کے شہر سے اسکی دوا ئی لائے گا
کتنا تو کرتے ہیں مرا ان کے بھی اپنے کام ہیں
زندہ ہیں تو اس زندگی کے سو سو انتظام ہیں
ہوتے جو میرے ساتھ تم میں کیوں سہارے ڈھونڈتی
کیوں زندگی کی ناؤمیں تنہا کنارے ڈھونڈتی


پانچواں خط
بچوں کو کپڑے مل گئے اماں کی چادر اچھی ہے
تم بن مگر کیا ہے یہ سب یہ بات بھی تو سچی ہے
شیدا بھی گھر کو آگیا کیسٹ تمھاری مل گئی
گھر بھر میں پھر آواز سے خوشبو تمھاری گھل گئی
لیکن لکھو جلدی کہ کیا بیمار ہو کمزور ہو
کھانا کہاں سے کھاتے ہو گھر سے تو اتنا دور ہو
اچھا کہوں ایک بات میں دل میں اگر نہ تم کرو
کہتا ہے شیدا بھابی تم اب یاد اسکو کم کرو
کیا کوئی دوجی مل گئی یا مجھ سے اب دل بھر گیا
کہتے تھے تیرے پیار میں لوٹا گیا میں مر گیا


چھٹا خط
میکے سے بھائی آیا تھا کہتا تھا آنے کے لیے
معلوم ہے نہ روکو گے تم مجھ کو جانے کے لیے
تیرے سوا پھر جاؤں میں اپنی ہنسی اڑؤاؤں میں
بھابھی کے طعنے کیا کہو ں اب کس کو یاں بتلاؤں میں
ہنستے ہیں ذیر لب سبھی کیا میں سمجھتی ہی نہیں
جیسے نظر سے دور ہوں تو دل میں رہتی بھی نہیں
ہر اک کریدے ہے مجھے گزری جوانی کی طرح
بیوہ نہیں ہوں، پھر بھی ہوں الجھی کہانی کی طرح


ساتواں خط
رمضان آنے وا لے ہیں پھر عید میں کیا دیر ہے
میرے لیے تو زندگی بس رات دن کا پھیر ہے
پچھلے برس بھی تم نہ تھے اب کے برس تو آؤ گے
یا چاند راتوں کی جگہ آنسو کے رتھ بجھواؤ گے
تم آؤ گے تو دیکھنا ننھا بھی مسجد جائے گا
بچوں کی طرح باپ کی ہمراہی پر اترائے گا
رنگوں میں تیرے رنگ کے آ ئینے سے مل لوں گی میں
زندہ لگوں کی خود کو بھی کچھ دیر کو جی لوں گی میں
چوڑی مری آنچل مرا گجرا مر ا کاجل مرا
تم آؤ تو ہوجائے گا اس وقت کا پل پل مرا


آٹھواں خط
تپتی دوپہروں میں مرے یخ بستہ تن کی جوت ہے
سردی کی راتوں کی تپش ہر پل کی آہٹ موت ہے
ٹھنڈے صحن پہ ننگے پیروں رات بھر پھرتی رہوں
مٹکوں سے اپنی اوک بھر بھر پیاس کو پیتی رہوں
اتنی اکیلی ہوگئی کہ خود سے بھی الجھن میں ہوں
سب کے لیے موجود پرنہ تن نہ اپنے من میں ہوں
آئینہ ڈھک کر رکھ دیا کیوں یاد خود کو آُؤں میں
کس کے لیے زندہ رہوں اچھا ہے کہ مر جاؤں میں
میں نے تو اتنی عمر میں برہا کی دنیا دیکھ لی
کیسے ڈھکیں خواب آوری جادوگری یہ سیکھ لی


آخری خط
خط لکھ کے بھی اب کیا کروں اور کیوں اسے بھیجا کروں
سوچا ہے دکھ بھی سینت کے اب دل میں ہی رکھا کروں
برزخ ہے دن سے رات کا بس راکھ ہی ہوجاؤں میں
اس زندگی سے کیا ملا اب موت کے گھر جاؤں میں
گھڑیوں کی سوئی پر ٹنگی میں وقت کی جاگیر ہوں
امید کی زیبائی ہوں تنہائی کی تصویر ہوں
سب کچھ تو ہے پر وہ نہیں جسکے لیے جی جاؤں میں
کڑوی ہے سانسوں کی مہک یہ زہر کیوں پی جاؤں میں
کہتی ہے یہ دنیا صحیح مجھ میں ہی کوئی گن نہیں
کس کام کی یہ زندگی ہمرا ہ جب ساجن نہیں


مرد کی طرف سے خطوط
پہلا خط
جمعہ کی چھٹی آج ہے کچھ کام ہے نہ کاج ہے
صبح کی کرنوں میں د ھلا اک خامشی کا راج ہے
گھر سے نکل کر آیا ہوں باہر ہوا میں سانس لوں
یادوں کی چادر تان کر ان دور یوں کی باس لوں
ساحل کی خالی بینچ پر سستالوں بیٹھا ہوں ذرا
ہفتے کے گھن چکر نہیں سو دل کا رستہ لوں ذرا
لہروں کی اس زیبائی میں خوشبو وطن کی گھل گئی
صفحوں سی گزری ذندگی نظروں کے آگے کھل گئی
گرمی کی شاموں میں دھلا اپنا صحن یاد آتا ہے
مہکی فضاؤں میں بسا چلمن کوئی لہراتا ہے
تم کو تو سب معلوم ہے کمرے میں ہم دس رہتے ہیں
بسنا بساناکیا یہاں اک قبر میں بس رہتے ہیں
اف وہ ندی کا زور پھر کیا بات تھی اس شام میں
تیر ی سروں سی وہ ہنسی لہروں کے اہتمام میں
بانکی ہواکے ساتھ وہ آنچل کا اڑنا ناز سے
پگڈنڈیوں کے موڑ پر مڑنا تر ا انداز سے


دوسرا خط
پچھلے کئی دن خط لکھے نہ تم سے میں نے بات کی
کیا میں کہوں پردیس میں قسمت نے پھر کیا گھات کی
میں نے بتایا تھا تمھیں رحموں کے بارے میں کھبی
جب میں یہاں پر آیا تھا دو سال سے تھا وہ تبھی
یاروں کا پیارا یار تھا کمرا ہمارا ایک تھا
دن رات کاہی ساتھ تھا طبیعت کا نیکوں نیک تھا
کچھ روز سے طبیعت میں وہ گرمی نہ تھی یارا نہ تھا
لیکن کلینک کے لیے تنخواہ کا وارا نہ تھا
پرسوں گئے جب کام پر وہ گر پڑا یک دم وہیں
لے کر دوا خانے گئے نکلا کسی پل دم وہیں
کوئی وجہہ کوئی سبب معلوم ہی نہ ہو سکا
اک جبر تھا حالات کا سو قید وہ نہ سہہ سکا
پینتس کے سن میں لگتا تھا کہ پورا( 45)پینتالیس کا ہے
دل بند ہی ہو جانا تھا یہ درد تو نالش کا ہے
شادی کے دس سالوں میں وہ کل سال بھرہی گھر رہا
برسہا برس پر دیس کا آلام اسکے سر رہا
کل بولتا تھا مجھ سے وہ بچیّ کی اپنے بولیاں
اب کو ن جا کے اسکو دے حصے کی اسکے لوریاں
کاغذ بہت سے کمپنی پورے کرے تو جائے وہ
مٹی سے ذندہ نہ سہی مر کر سہی مل جائے وہ
لگتا ہے کمرے میں کہیں اب بھی یہیں موجود ہے
غربت کا قصّہ ایک ہے یہ آپ ہی ممدود ہے
خط پڑھ کے تم نہ سوچنا میں ٹھیک خود ہو جاؤں گا
مصروف ہو کر کام میں خود کو ہی میں بہلاؤں گا


تیسرا خط
ماں کی طبیعت کیسی ہے کیا ڈاکٹر کا کہنا ہے
مجھ کو تمھارے آسرے دوری کا دکھ یہ سہنا ہے
اب کے کلینک جانا تو تفصیل سے سب پوچھنا
اسکے لیے پر ہیزاور کیا ہو غذا سب پوچھنا
میں ہوں یہاں پر دیس میں دل ہے وہیں اٹکا ہوا
ہر فون کی گھنٹی پہ دل لرزا کوئی کھٹکا ہوا
آزاری ء افلاس نے صورت نہ دی اسکے سوا
مالک نے بھی تونوکری مجھ کو نہ دی ا سکے سوا
اچھا کہو بٹیا مری اسکول کیسے جاتی ہے
جایا کرو تم چھوڑنے تنہا بہت گھبراتی ہے
کل فون پر روتی رہی کچھ مسئلہ تھا کیا اسے
تم بیٹھ کر آرام سے سننا کسی پل تو اسے
یہ عمر ہے کچی ابھی ہر نقش خود پر لیتی ہے
معصوم ہے نادان ہے ہر بات دل پر لیتی ہے
میں ساتھ جوہوتا ذرا اسکے مسائل پوچھتا
دنیا کے پیچ وخم سبھی اسکی نظر میں کھولتا


چو تھا خط
کل یار ہم سب نکلے تھے لمحوں کی وحشت جھاڑنے
شہروں کی رونق دیکھنے تنہا ئیو ں کو مارنے
مزدور کالونی میں ہیں سو شہر سے ہی دور ہیں
ہم آدمی تھوڑی ہی ہیں پرزے ہیں اور مزدور ہیں
اکثر شہر تک آنے کو بس کا کرایہ بھی نہیں
اس شہر میں مزدور کا کوئی گزارہ ہی نہیں
شہروں کے شہر آبا د پر ہم کابکوں میں قید ہیں
جس جیب میں درھم یہاں بس وہ ہی دیدہ مند ہیں
کچھ چند سو ہیں اور پھر گھر بھیج کے بچتا ہے کیا
بچوں کو بھوکا مارکریہ شوق سب سجتا ہے کیا
دس بیس درھم بچ گئے تو فون کر لیتا ہوں میں
آواز تیری دل کے اس صحرامیں بھر لیتا ہوںمیں
ویسے یہاں پر بلڈنگیں ہیں آسماں کو چومتی
اپنے لیے صحراء کی لو اور یہ زمیں ہےِ گھومتی
ہر قوم کی ہی عورتیں مصروف کاروبار ہیں
تم سوچ بھی سکتی نہیں یہ اتنی طرح دار ہیں
عورت بھی مردوں کی طرح ہر نوکری کے لائق ہے
ہر اک ہنر میں طاق ہے اور دیکھنے کے لائق ہے
لیکن تمھاری گندمی رنگت کے آگے ہیچ ہیں
کالی گھٹا کی جوت میں دنیا کے کتنے پیچ ہیں
دنیا ئیں ہیں دو سمت کی اور میں کہیں برزخ میں ہوں
تیرے بنا بس یوں سمجھ میں عمر کی دوزخ میں ہوں
اجلی ہواوُں سے بندھی میری غلامی تھک گئی
اس ہجر کے آزار سے تنہا جوانی تھک گئی


پا نچواں خط
کل رات بھر میں جسم کی بھٹی میں خود بُھنتا رہا
اس زندگی سے خواب تک انگار کچھ چنتا رہا
اترا تھا پچھلی رات تو کمرے کی چھت پر چاند بھی
اس آنکھ میں چہرہ ترا کب ہو سکا ہے ما ند بھی
تھک چور کے دن بھر کے ہم گرتے ہیں اور سو جاتے ہیں
لیکن یہ یادوں کے مسافر خواب میں آجاتے ہیں
کل رات تو بس رات بھر اک ہوک کی اٹھتی رہی
وہ نیند تھی یا خواب تھا اک پیاس سی چھبتی رہی
پرزوں کے اس انبار میں کتنا میں خو د سے کام لوں
کتنا نہ میں سوچوں تمھیں اور خود کو کیسے باندھ لوں
میں پھیلتی اس دھوپ میں خود میں سمٹتا ضبط ہوں
اک شام سے اگلی تلک امید کا اک ربط ہوں


چھٹا خط
آموں کی ابکی فصل میں ہو گی فضا بہکی ہوئی
اپنے صحن کے پیڑ سے ہوگی فضا مہکی ہوئی
میں تو اب تک انبڑیاں کیا آم تک چکھا نہیں
تم نے تو چکھنے کے لئے اچار بھی بھیجا نہیں
باغیچہ کے ان پیڑوں میں اس سال فصلیں کیسی ہیں
تم دھیان تو رکھنا ذر ا سب کی نظر میں ر ہتیں ہیں
گیہوں کی فصلیں کٹ گیئں یا کٹنے والی ہیں ابھی
بابا سے کہنا چکیوں پہ بھیج کر رکھ لیں سبھی
سوچا تھا ابکی فصل کی اپنے کٹائی خود کروں
اپنے لیے گندم بچے اتنی کمائی خو د کروں
تیرے لیے پھر سال بھر چکی کا نہ چکر رہے
تو ایک او ر سو کام پھر یہ فکر تونہ سر رہے
وہ گندمی ہاتھوں سے اتری گھر کی تازہ روٹیاں
بڑھتے ہوئے شعلوں کی لو جیسے تمھاری چوٹیاں
مہندی لگے اس ہاتھ کی خوشبو سے میرا سنگ وہ
جھکتے ہوئے تندور تک چہرے کا شعلہ رنگ وہ
تم کو منی آ رڈر ملا یا ا ب تلک پہنچا نہیں
مجھ کو تسلی ہو سکے لکھو اگر لکھا نہیں
پیسے ملیں تو قرض کی یہ قسط بھی دے آنا تم
کتنے رہے کیا باقی ہیں یہ بات تو بتلانا تم
یہ سود تو اب عمر بھر ہی جان چھوڑے گا نہیں
کیا اصل ہم بھر پائیں گے یہ وقت موڑے گا نہیں


ساتواں خط
رمضان پھر سے آئے ہیں اوقات میں کچھ نرمی ہے
لیکن یہ موسم کیا کہوں اب تک بہت ہی گرمی ہے
افطار کا تو مسجدوں میں اچھا انتظام ہے
گھر کا کہاں وہ ذائقہ بھرنے سے دوزخ کام ہے
اماں کی وہ تیاریاں جو سہ پہر سے چلتی تھیں
گرما گرم پکوان جو افطار تک ہی تلتی تھیں
آذان کی آواز میں ہر سمت سے اللّہ ہو
بابا کی تڑکے ڈانٹ وہ دل ڈھونڈتا ہے کو بہ کو
ڈھولک پہ ممدو آتا تو ہو گا جگانے کے لیے
اٹھ جا ؤ روزے داروں اونچے سُر میں گانے کے لئے
وہ گاوُں کی چوپال میں سحر ی کی اپنی بیٹھکیں
گھی کے پراٹھوں کی مہک وہ جھٹ پٹے کی کروٹیں
میں خود پکا لوں کچھ یہاں لیکن اجازت ہی نہیں
کہتے ہیں لیبر کیمپ میں چولھا ضرورت ہی نہیں
کچھ اوّر ٹائم مل گیا تو عید تک بھیجوا دوں گا
تنخواہ کے ہمراہ کا میں پیشگی ہی کہہ دوں گا
ماں اور بچوں کے لیے کپڑے تو سلوانے کو دو
اپنے لیے بھی سلک کا جوڑا تو کڑھوانے کو دو
میں آسکوں گا یا نہیں کیوں پوچھ کر دکھ دیتی ہو
یہ دوریاں کچھ کم نہیں آزار تم بھی دیتی ہو۔
اس ہجر کے صحراوُں میں کیا عیدوشب برات ہے
تم لو گ سب آباد ہو کافی یہی اک بات ہے
تم آئینے سے پوچھ لو نینوں میں درپن کون ہے
تم میں ہوئیں میں تم ہوا سو اب تو سکھ کی رین ہے
پگلی تو میرے نام کی مہندی لگا کر دیکھنا
میں سُرخیوں کو گھولوں گا تم خوشبووُں سے کھیلنا
میں آنسووُں کے رتھ نہیں تیرے لئے سکھ لاوُں گا
بچوں کی خوشیوں کے لیے یہ وقت بھی سہہ جاؤں گا


آخری خط
اے میری ہجر ذندگی کیا پیٹ کی وہ آگ تھی
جس بھوک نے جدا ہم کو کیا وہ زندگی کی باگ تھی
دھڑکن سے وہ دھڑکن جد ا جو ہرخوشی کا جام ہے
کھیتی مری سورج مر ا چندا مرا آنگن مرا
میں بے وطن سب سے جدا لگتا نہیں ہے من مرا
کچھ بھی نہیں جو پاس ہے ویسے تو ہر آرام ہے
اک چاکری میرے لیے جو وقت کا انعام ہے
تیرے خطوں کی آگ میں کچھ زندگی کے پل تو ہیں
دھڑکن کو دینے کے لئے کوئی نئے سے چھل تو ہیں
میں خط لکھوں تو کیا لکھوں حرفوں سے کچھ ہوتا نہیں
زخموں کو کوئی آنسووں کے جام سے دھوتا نہیں
 
Top