زندگی ہے کیا پتا ، غم کے سوا ، کچھ بھی نہیں------برائے اصلاح

الف عین
@خلیل الر حمن
@سیّد عاطف علی
---------
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
----------
زندگی میں غم ہی غم ، اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
جس کسی نے کی وفا ، اُس کو ملا ، کچھ بھی نہیں
-------یا
زندگی ہے کیا پتا ، غم کے سوا ، کچھ بھی نہیں
جانتے ہیں بس یہی ہم کو ملا ، کچھ بھی نہیں
---------------یا
ہیں مسائل ہر طرف ، اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
بس مصائب کے سوا ہم کو ملا ، کچھ بھی نہیں
------------
سوچتے ہی سوچتے ہم نے گزاری زندگی
یہ کریں گے ، وہ کریں گے ، پر کیا ، کچھ بھی نہیں
------------
ہم ہوئے ہیں دور اُن سے قربتوں کو ڈھونڈتے
کیں وفائیں ہر طرح سے ، پر صلہ ، کچھ بھی نہیں
------یا
ہو سکا جو کر دیا ، لیکن صلہ ، کچھ بھی نہیں
--------------
ہم نے مارے لاکھ پتھر ،آم اونچے تھے بہت
کر کے کوشش دیکھ لی ،لیکن گرا ، کچھ بھی نہیں
-------------
ہم منافق تھے نہیں جو بات کرتے دوغلی
ہاتھ خالی ہیں تبھی ، ہم کو ملا ، کچھ بھی نہیں
----------------
ہاتھ خالی ہو نہ پاتے ہم جو لیتے رشوتیں
-----یا
جیب خالی تب نہ ہوتی ہم جو لیتے رشوتیں
چار بچوں کے لئے جو ہے غذا ، کچھ بھی نہیں
-------------
اب جہنّم لازمی ہے کر چکے کرتوت جو
رب نے بخشیں گر خطائیں ، پھر سزا ، کچھ بھی نہیں
--------------------
آجکل کی لڑکیوں کو آپ خود بھی دیکھئے
حرکتیں بھی دیکھئے اُن میں حیا ، کچھ بھی نہیں
-----------یا
خود کو مسلم کہہ رہی ہیں ، پر ، حیا ، کچھ بھی نہیں
--------------
جن کی نظریں دیکھتی تھیں تم کو ارشد پیار سے
اُن سے تم کو ہے جو ملا ، وہ بتا ، کچھ بھی نہیں
----------------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بھائی آپ کچھ مصرعوں کے متبادل ہی یہاں دیتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ہر مصرع کے کئی کئی متبادل ہو سکتے ہیں، آپ نے جو یہاں دیا ہے، وہ کیا واقعی آپ کے نزدیک بہترین متبادل تھا؟ جیسا کہ میں کہتا ہوں کہ ہر متبادل پر خوب خوب غور کریں، اگر آپ اچھا شعر سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو یہ قطعی مشکل نہیں کہ مفہوم کے درست اظہار اور روانی وغیرہ پر خود غور کر کے بہترین متبادل پیش کیا کریں۔ چلیے پہلے میں اپنی مثال دوں۔
پرسوں رات نیند غائب ہو گئی اور اشعار اترنے لگے تین چار سال بعد، ایک شعر کے اتنی مختلف شکلوں پر غور کیا میں نے:
پہلا مصرعہ :
تجھ بن بھی بہت خوب گزرتے ہیں مرے دن
تجھ بن بھی بہت اچھے گزرتے ہیں مرے دن
تجھ بن بھی گزرتے ہیں مرے دن بہت اچھے
دوسرا مصرع
دینی مجھے یہ جھوٹی گواہی نہیں آتی
جھوٹی مجھے دینی یہ گواہی نہیں آتی
دینی مجھے جھوٹی یہ گواہی نہیں آتی
جھوٹی یہ مجھے دینی گواہی نہیں آتی
اور آخر میں نے دونوں مصرعوں کے تیسرے متبادل کو منتخب کیا۔
ایک اور شعر
اولی':
لاتے ہی تری خوشبو چلی جاتی ہے یک لخت
لاتی ہے تری خوشبو، چلی جاتی ہے اک دم
خوشبو تری لاتی ہے، چلی جاتی ہے فوراً
(ہر مصرع میں آخری لفظ فوراً، اک دم، یکدم، یک لخت متبادل کے طور پر بھی رکھا ہے)
ثانی :
ہاتھوں میں مرے باد صبا ہی نہیں آتی
(اس کے کسی متبادل پر غور نہیں کیا گیا)

میرے خیال میں آپ کی یہی غزل متبادلات کی مشق کے لیے خوب ہے، یہ کام کریں اور آل کی نظر میں جو دو بہترین متبادل ہوں، انہیں پیش کریں۔
 
الف عین
(اصلاح کے بعد حاضرِ خدمت )
غم ملے ہیں زندگی میں ، اور ملا ، کچھ بھی نہیں
سوچئے گا آپ بھی ،اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
------------
سب گزاری زندگی بس سوچتے ہی سوچتے
یہ کریں گے ، وہ کریں گے ، پر کیا ، کچھ بھی نہیں
------------
ہو گئے ہیں دور اُن سے قربتوں کو ڈھونڈتے
ہو سکا جو کر دیا ، لیکن صلہ ، کچھ بھی نہیں
--------------
ہم نے مارے لاکھ پتھر ،آم اونچے تھے بہت
کر کے کوشش دیکھ لی ،لیکن گرا ، کچھ بھی نہیں
-------------
ہم منافق تھے نہیں جو بات کرتے دوغلی
ہاتھ خالی ہیں تبھی ، ہم کو ملا ، کچھ بھی نہیں
----------------
جیب خالی تب نہ ہوتی ہم جو لیتے رشوتیں
چار بچوں کو ملی جو ، وہ غذا ، کچھ بھی نہیں
-------------
اب جہنّم لازمی ہے کر چکے کرتوت جو
رب نے بخشیں گر خطائیں ، پھر سزا ، کچھ بھی نہیں
--------------------
آجکل کی لڑکیوں کو آپ خود بھی دیکھئے
ان کی اکثر حرکتوں میں، اب حیا ، کچھ بھی نہیں
--------------
جن کی نظریں دیکھتی تھیں تم کو ارشد پیار سے
اُن سے تم کو ہے جو ملا ، وہ بتا ، کچھ بھی نہیں
----------------
 

الف عین

لائبریرین
میں نے اصلاح کی ہی کہاں تھی جو اب اصلاح کے بعد پیش کر رہے ہیں! اور جو میں نے مشورہ دیا تھا اس پر کوئی عمل ہی نہیں کیا گیا!!
ہر مصرع کے سارے متبادل لکھیں اور ان میں سے آپ کو خود جو خوب رواں لگے، مفہومِ پوری طرح واضح لگے، ایسے دو تین مصرعے یہاں پیش کریں اور بتائیں کہ یہ کیوں بہتر لگتا ہے؟
اب تک میں ہر مصرع کی غلطیاں بتاتا آیا ہوں جن میں کچھ آپ خود درست کر لیتے ہیں، اب آپ ان اغلاط سے واقف ہو گئے ہیں تو خود درست کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اپنے اشعار کو دوسروں کی نظر سے دیکھنا شروع کیجیے۔
اس غزل کی دونوں صورتوں پر اپنا وقت خرچ نہیں کر رہا ہوں، بس پہلی نظر میں ہی ی احساس ہوا کہ یہ اچھی غزل ہو سکتی ہے اور اب اتنی بہت سی غزلوں کی اصلاح کے بعد اب کم از کم مجھے بار بار شتر گربہ یا اظہار کا نقص یا دو لختی کی نشاندہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ اگر آپ خود غور کر کے اپنی طرف سے مکمل سمجھ کر پیش کریں تو مجھے بہت خوشی ہو گی
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
صرف ایک رائے دے رہا ہوں، جس کی دعوت نہیں دی گئی، اس سے شاید شاعرِ محترم کے سامنے کچھ باتیں اور عیاں ہوسکیں۔۔۔ معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے ۔۔ خیر، دیکھ لیجئے گا۔۔

غم ملے ہیں زندگی میں ، اور ملا ، کچھ بھی نہیں
سوچئے گا آپ بھی ،اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
۔۔ غم کا م ملے سے ٹکرایا، زندگی میں غم ہی غم ہیں، اور ملا کچھ بھی نہیں، کرسکتے ہیں


سب گزاری زندگی بس سوچتے ہی سوچتے
یہ کریں گے ، وہ کریں گے ، پر کیا ، کچھ بھی نہیں
------------یہاں بھی وہی۔۔۔ بس سوچتے کا مسئلہ ۔۔۔ سوچتے ہی سوچتے ہم نے گزاری زندگی ۔۔۔ کرسکتے ہیں۔
۔۔۔ دوسرا مصرع کمزور ہے میری نظر میں ۔۔۔ یہ کریں گے وہ کریں گے سے بہتر کچھ سوچئے ۔۔۔


ہو گئے ہیں دور اُن سے قربتوں کو ڈھونڈتے
ہو سکا جو کر دیا ، لیکن صلہ ، کچھ بھی نہیں
--------------کمزورشعر ہے مجموعی طور پر ۔۔۔


ہم نے مارے لاکھ پتھر ،آم اونچے تھے بہت
کر کے کوشش دیکھ لی ،لیکن گرا ، کچھ بھی نہیں
-------------مزاحیہ شعر نہیں لگتا ، اور اگر آپ کو غزل کہنی ہے تو میں ایسے کسی شعر کو شامل کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔۔۔
ہم منافق تھے نہیں جو بات کرتے دوغلی
ہاتھ خالی ہیں تبھی ، ہم کو ملا ، کچھ بھی نہیں
----------------دوغلی بات بھی درست نہیں لگتا۔۔۔ دوسرے مصرعے کا پہلے سے تعلق بھی کچھ نہیں لگتا۔
جیب خالی تب نہ ہوتی ہم جو لیتے رشوتیں
چار بچوں کو ملی جو ، وہ غذا ، کچھ بھی نہیں
-------------یہ جیب خالی والی بات شاید اوپر والے مصرعے کے لیے ہو، پھر بھی میں ایسی شاعری کو غزل کے لیے اچھا نہیں سمجھتا۔
اب جہنّم لازمی ہے کر چکے کرتوت جو
رب نے بخشیں گر خطائیں ، پھر سزا ، کچھ بھی نہیں
--------------------۔۔ جنت اور جہنم کا فیصلہ ہم کیسے کرسکتے ہیں؟ کرتوت کرچکنا بھی کمزور سی بات ہے۔۔۔
آجکل کی لڑکیوں کو آپ خود بھی دیکھئے
ان کی اکثر حرکتوں میں، اب حیا ، کچھ بھی نہیں
--------------یہ صنفِ نازک کے خلاف محاذ کھول لیا آپ نے۔۔۔ کچھ لڑکیاں حیا سوز افعال میں ملوث ہوسکتی ہیں، سب نہیں۔
جن کی نظریں دیکھتی تھیں تم کو ارشد پیار سے
اُن سے تم کو ہے جو ملا ، وہ بتا ، کچھ بھی نہیں
۔۔۔ان سے تم کو جو ملا، والا مصرع سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔
 
الف عین
(مشق--ہوم ورک)
زندگی میں غم ہی غم ، اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں ( ہیں کی کمی ہے )
غم ملے ہیں زندگی میں ، اور ملا ، کچھ بھی نہیں (م کا اتصال )
زندگی ہے کیا پتا ، غم کے سوا ، کچھ بھی نہیں (غیر واضع )
ہیں مسائل ہر طرف ، اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
بس مصائب کے سوا ہم کو ملا ، کچھ بھی نہیں
غم ہی غم ہیں زندگی میں ،اس کے سوا ،کچھ بھی نہیں (بحر میں نہیں)
ہیں ہزاروں غم یہاں ، اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں (میرے خیال میں زیادہ واضع )
-------------------
سب گزاری زندگی بس سوستے ہی سوچتے ( س کا اتصال )
سوچتے ہی سوچتے ہم نے گزاری زندگی ( بہتر )
سوچنے ہی سوچنے میں زندگی ہے کھو گئی
ہم نے کھویا زندگی کو سوچتے ہی سوچتے (میری پسند )
------------
یہ کریں گے وہ کریں گے پر کیا کچھ بھی نہیں
سوچنے میں وقت گزرا اور ہوا کچھ بھی نہیں (بہتر میرے خیال میں
وقت گزرا سوچنے میں ، اور ،ہوا کچھ بھی نہیں
پیش تھا یہ مرحلہ ،جو کر سکا ، کچھ بھی نہیں
---------------
ہو گئے ہیں دور ان سے قربتوں کو ڈھونڈتے (بہتر)
چاہتے تھے قربتیں لیکن ہوئے ہیں دور ہم
قربتوں کو ڈھونتے اک دوسرے سے دور ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اب بھی پانچ چھ اشعار باقی ہیں مشق کرنے کے لیے، اور اب بھی سوچتے رہیں کہ کیا مزید کوئی بہتر مصرع ہو سکتا ہے!
 
صرف ایک رائے دے رہا ہوں، جس کی دعوت نہیں دی گئی، اس سے شاید شاعرِ محترم کے سامنے کچھ باتیں اور عیاں ہوسکیں۔۔۔ معاملہ برعکس بھی ہوسکتا ہے ۔۔ خیر، دیکھ لیجئے گا۔۔

غم ملے ہیں زندگی میں ، اور ملا ، کچھ بھی نہیں
سوچئے گا آپ بھی ،اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
۔۔ غم کا م ملے سے ٹکرایا، زندگی میں غم ہی غم ہیں، اور ملا کچھ بھی نہیں، کرسکتے ہیں


سب گزاری زندگی بس سوچتے ہی سوچتے
یہ کریں گے ، وہ کریں گے ، پر کیا ، کچھ بھی نہیں
------------یہاں بھی وہی۔۔۔ بس سوچتے کا مسئلہ ۔۔۔ سوچتے ہی سوچتے ہم نے گزاری زندگی ۔۔۔ کرسکتے ہیں۔
۔۔۔ دوسرا مصرع کمزور ہے میری نظر میں ۔۔۔ یہ کریں گے وہ کریں گے سے بہتر کچھ سوچئے ۔۔۔


ہو گئے ہیں دور اُن سے قربتوں کو ڈھونڈتے
ہو سکا جو کر دیا ، لیکن صلہ ، کچھ بھی نہیں
--------------کمزورشعر ہے مجموعی طور پر ۔۔۔


ہم نے مارے لاکھ پتھر ،آم اونچے تھے بہت
کر کے کوشش دیکھ لی ،لیکن گرا ، کچھ بھی نہیں
-------------مزاحیہ شعر نہیں لگتا ، اور اگر آپ کو غزل کہنی ہے تو میں ایسے کسی شعر کو شامل کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔۔۔
ہم منافق تھے نہیں جو بات کرتے دوغلی
ہاتھ خالی ہیں تبھی ، ہم کو ملا ، کچھ بھی نہیں
----------------دوغلی بات بھی درست نہیں لگتا۔۔۔ دوسرے مصرعے کا پہلے سے تعلق بھی کچھ نہیں لگتا۔
جیب خالی تب نہ ہوتی ہم جو لیتے رشوتیں
چار بچوں کو ملی جو ، وہ غذا ، کچھ بھی نہیں
-------------یہ جیب خالی والی بات شاید اوپر والے مصرعے کے لیے ہو، پھر بھی میں ایسی شاعری کو غزل کے لیے اچھا نہیں سمجھتا۔
اب جہنّم لازمی ہے کر چکے کرتوت جو
رب نے بخشیں گر خطائیں ، پھر سزا ، کچھ بھی نہیں
--------------------۔۔ جنت اور جہنم کا فیصلہ ہم کیسے کرسکتے ہیں؟ کرتوت کرچکنا بھی کمزور سی بات ہے۔۔۔
آجکل کی لڑکیوں کو آپ خود بھی دیکھئے
ان کی اکثر حرکتوں میں، اب حیا ، کچھ بھی نہیں
--------------یہ صنفِ نازک کے خلاف محاذ کھول لیا آپ نے۔۔۔ کچھ لڑکیاں حیا سوز افعال میں ملوث ہوسکتی ہیں، سب نہیں۔
جن کی نظریں دیکھتی تھیں تم کو ارشد پیار سے
اُن سے تم کو ہے جو ملا ، وہ بتا ، کچھ بھی نہیں
۔۔۔ان سے تم کو جو ملا، والا مصرع سمجھ میں نہیں آیا ۔۔۔
شاہد بھائی آپ کے مشوروں اور اصلاح کا بہت بہت شکریہ،اس سے پہلے میں نے کئی دفہ آپ کو ٹیگ کیا لیکن آپ نے توجہ نہیں دی ۔اسی طرح رہنمائی کرتے رہیں ممنون ہوں گا۔جو اشعار آپ کو پسند نہیں آئے ان کو تبدیل کر کے اسی غزل پر کام کر رہا ہوں اور استادِ محترم کے حکم کے مطابق مشق کر رہا سب مصرعے فائنل کر کے غزل دوبارا کل پیش کروں گا دوبارا شکریہ
 
استادِ محترم۔۔ شاہد بھائی کو کچھ اشعار پسند نہیں ۔ انہوں نے غزل کے لئے مناسب نہیں سمجھے ان کو تبدیل کے دوبارا لکھ رہا ہوں اور مشق کر رہا ہوں تمام مصرعے فائل کر کے دوبارا انشاءاللہ کل پیش کروں گا
 
الف عین
شاہد شاہنواز
( غزل دوبارا حاضر ہے مشق کے بعد کوشش تو کی ہے بہتر کرنے کی،باقی رب جانے یا اساتذہ )
--------------
دکھ اُٹھائے زندگی بھر ، اور ملا ، کچھ بھی نہیں
زندگی میرے لئے ، غم کے سوا ، کچھ بھی نہیں
---------------
میں خوشی کو ڈھونڈتا ہوں ، حسرتوں کی راکھ میں
سب جلے ارمان میرے ، اور بچا ، کچھ بھی نہیں
------------
مفلسی کے دور میں کوئی نہ میرے ساتھ تھا
دوستوں سے کی شکایت ، یا گلہ ، کچھ بھینہیں
---------------
دور ہم سے ہو گئی ہے ہر خوشی ہی روٹھ کر
حسرتیں ہیں ، یاس ہے ،اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
----------
ہم سدا سے قید ہیں کیوں زندگی کی جیل میں
کیوں ملی ہے یہ سزا ،ہم کو پتا ، کچھ بھی نہیں
----------
جو ملک کو لوٹتے تھے ،اب پڑے ہیں جیل میں
جرم جتنا تھا بڑا ، اِتنی سزا ، کچھ بھی نہیں
-----------
دل میں حسرت ہی رہی شربت پئیں دیدار کا
دوریاں تھیں اس قدر ، جتنا پیا ، کچھ بھی نہیں
----------------
جل گیا سامان سارا ، جو بنایا شوق سے
دل اسی میں جل گیا ، شاید بچا ، کچھ بھی نہیں
--------------
دل سے اُٹھتی ہیں دعائیں ، اب خدایا رحم کر
میرے دل میں اب دعا ،اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
----------
سب سے ارشد کہہ رہا ہے پیار کرنا چاہئے
زندگی میں دوستو ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں
-------------
 

الف عین

لائبریرین
ڈھائی اشعار کی ہی مشق کی گئی تھی میں باقی کا منتظر تھا کہ آپ نے پوری غزل ہی پیش کر دی جس میں صرف مطلع شامل ہے جس پر مشق کی تھی لیکن مزے کی بات یہ کہ ان میں سے کوئی مصرع استعمال ہی نہیں کیا گیا۔ بہر حال مطلع اب بہت بہتر ہو گیا ہے

میں خوشی کو ڈھونڈتا ہوں ، حسرتوں کی راکھ میں
سب جلے ارمان میرے ، اور بچا ، کچھ بھی نہیں
------------ درست ، شاید 'جل چکے ہیں سارے ارماں' بہتر ٹکڑا ہو

مفلسی کے دور میں کوئی نہ میرے ساتھ تھا
دوستوں سے کی شکایت ، یا گلہ ، کچھ بھینہیں
--------------- مراد یہی نا کہ کسی نے میرا ساتھ نہیں دیا لیکن میں کسی سے شکایت نہیں کر رہا؟ یہ مضمون واضح نہیں ہو رہا، ربط کے لیے مگر/لیکن/پھر بھی کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے

دور ہم سے ہو گئی ہے ہر خوشی ہی روٹھ کر
حسرتیں ہیں ، یاس ہے ،اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
---------- ٹھیک حالانکہ بہتر ہس سکتا ہے

ہم سدا سے قید ہیں کیوں زندگی کی جیل میں
کیوں ملی ہے یہ سزا ،ہم کو پتا ، کچھ بھی نہیں
---------- درست

جو ملک کو لوٹتے تھے ،اب پڑے ہیں جیل میں
جرم جتنا تھا بڑا ، اِتنی سزا ، کچھ بھی نہیں
----------- پہلا مصرع بحر سے خارج ہو گیا
ملک کو جو... درست ہو گا، ممکن ہے کتابت کی غلطی ہو۔
دوسرا مصرع 'اتنی سزا' سے واضح نہیں ہوتا
شاید
جرم ان کا تھا بڑا لیکن سزا. ...
بہتر ہو

دل میں حسرت ہی رہی شربت پئیں دیدار کا
دوریاں تھیں اس قدر ، جتنا پیا ، کچھ بھی نہیں
---------------- اسے نکال ہی دو، بیکار کا اضافہ لگ رہا ہے

جل گیا سامان سارا ، جو بنایا شوق سے
دل اسی میں جل گیا ، شاید بچا ، کچھ بھی نہیں
-------------- یہ بھی نکالنے کے قابل ہے

دل سے اُٹھتی ہیں دعائیں ، اب خدایا رحم کر
میرے دل میں اب دعا ،اس کے سوا ، کچھ بھی نہیں
---------- ٹھیک

سب سے ارشد کہہ رہا ہے پیار کرنا چاہئے
زندگی میں دوستو ، اس کے سوا کچھ بھی نہیں
. درست
کیکن یہ سب پھر اسی طرح ہو گیا ہے جس طرح اپ چاہتے ہیں، میرا مشورہ اب بھی یہی ہے کہ خود غور کرنا سیکھیں، روانی یا عدم روانی، مفہوم کی درست ادائیگی یا عجز بیان، شتر گر.بہ وغیرہ خود ہی درست کر کے مطمئن ہو کر پیش کریں۔ محض زبان و بیان کی درستی سے ہی اچھا شعر نہیں بنتا، لیکن کم از کم اس میں تو کوتاہی نہ کی جائے۔ اس لیے میرا مشق کا مشورہ قائم ہے، کسی دوسری غزل پر سہی
 
Top