نظم ۔ زندگی ۔ زندگی جینے نہیں دیتی مجھے

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک نظم پیش خدمت ہے ۔

زندگی

زندگی جینے نہیں دیتی مجھے
صبر کرنے تو کہیں دیتی مجھے !

پونچھنے دیتی نہیں یہ اشک بھی
بات بھی کہنے نہیں دیتی مجھے

مجھ کو دکھلاتی ہے جام ارغواں
اور پینے بھی نہیں دیتی مجھے

جانے اب ناراض ہے کس بات پر
اور معافی بھی نہیں دیتی مجھے

دم بخود رہتا ہوں، رہنے دو مجھے
آگہی جینے نہیں دیتی مجھے

وقت کا مرہم سبھی کو بانٹ کر
زخم سینے بھی نہیں دیتی مجھے

مصلحت کی بو ہے جام وصل میں
عاشقی پینے نہیں دیتی مجھے

جس طرف دیکھوں، بناوٹ کا رواج
سادگی جینے نہیں دیتی مجھے

جب تلک ہاتھوں سے تیرے لوں نہ جام
تشنگی پینے نہیں دیتی مجھے

زندگی سے بس شکایت ہے یہی
زندگی جینے نہیں دیتی مجھے

10۔10۔2022
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
زندگی

زندگی، جینے نہیں دیتی مجھے
صبر کرنے تو کہیں دیتی مجھے !

پونچھنے دیتی نہیں یہ اشک بھی
بات بھی کہنے نہیں دیتی مجھے

مجھے کو دکھلاتی ہے جام ارغواں
اور پینے بھی نہیں دیتی مجھے

جانے اب ناراض ہے کس بات پر
اور معافی بھی نہیں دیتی مجھے

دم بخود رہتا ہوں، رہنے دو مجھے
آگہی جینے نہیں دیتی مجھے

وقت کا مرہم سبھی کو بانٹ کر
زخم سینے بھی نہیں دیتی مجھے

مصلحت کی بو ہے جام وصل میں
عاشقی پینے نہیں دیتی مجھے

جس طرف دیکھوں، بناوٹ کا رواج
سادگی جینے نہیں دیتی مجھے

جب تلک ہاتھوں سے تیرے لوں نہ جام
تشنگی پینے نہیں دیتی مجھے

زندگی سے بس شکایت ہے یہی
زندگی جینے نہیں دیتی مجھے
ماشاءاللہ۔
بہت خوب عاطف بھائی۔لاجواب نظم ہے۔
سلامت رہیئے۔آمین۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
ایک نظم پیش خدمت ہے ۔

زندگی

زندگی، جینے نہیں دیتی مجھے
صبر کرنے تو کہیں دیتی مجھے !

پونچھنے دیتی نہیں یہ اشک بھی
بات بھی کہنے نہیں دیتی مجھے

مجھے کو دکھلاتی ہے جام ارغواں
اور پینے بھی نہیں دیتی مجھے

جانے اب ناراض ہے کس بات پر
اور معافی بھی نہیں دیتی مجھے

دم بخود رہتا ہوں، رہنے دو مجھے
آگہی جینے نہیں دیتی مجھے

وقت کا مرہم سبھی کو بانٹ کر
زخم سینے بھی نہیں دیتی مجھے

مصلحت کی بو ہے جام وصل میں
عاشقی پینے نہیں دیتی مجھے

جس طرف دیکھوں، بناوٹ کا رواج
سادگی جینے نہیں دیتی مجھے

جب تلک ہاتھوں سے تیرے لوں نہ جام
تشنگی پینے نہیں دیتی مجھے

زندگی سے بس شکایت ہے یہی
زندگی جینے نہیں دیتی مجھے

10۔10۔2022
خوبصورت اشعار سے مزین نظم ۔ واہ! بہت خوب۔
دم بخود رہتا ہوں، رہنے دو مجھے
آگہی جینے نہیں دیتی مجھے

جس طرف دیکھوں، بناوٹ کا رواج
سادگی جینے نہیں دیتی مجھے

زندگی سے بس شکایت ہے یہی
زندگی جینے نہیں دیتی مجھے
 

اے خان

محفلین
واه عاطف بھائی
بہت خوب
مجھ کو دکھلاتی ہے جام ارغواں
اور پینے بھی نہیں دیتی مجھے
یہی اسی کی تلاش تھی
جس طرف دیکھوں، بناوٹ کا رواج
سادگی جینے نہیں دیتی مجھے
❤️❤️❤️

زندگی سے بس شکایت ہے یہی
زندگی جینے نہیں دیتی مجھے
زبردست
 
دم بخود رہتا ہوں، رہنے دو مجھے
آگہی جینے نہیں دیتی مجھے

مصلحت کی بو ہے جام وصل میں
عاشقی پینے نہیں دیتی مجھے

جس طرف دیکھوں، بناوٹ کا رواج
سادگی جینے نہیں دیتی مجھے

زندگی سے بس شکایت ہے یہی
زندگی جینے نہیں دیتی مجھے
کیا کہنے عاطف بھائی۔ بہت عمدہ نظم
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ، عاطف بھائی ! اچھے اشعار کہے ۔
ویسے یہ کلام کچھ " تجرباتی " سا ہوگیا۔ یعنی موضوعاتی اعتبار سے کیفیت اس کی غزل یا مسلسل غزل کی سی ہے لیکن غزل کے فارمیٹ یعنی قافیہ ردیف کا اہتمام نہیں ۔ نظم کہنے میں تامل اس لئے ہے کہ اشعار میں یکجہتی اور موضوعاتی تسلسل نہیں ۔ مجموعی طور پر یہ مسلسل غزل سے قریب ترین ہے۔ سو خوب تجربہ ہے! :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب ، عاطف بھائی ! اچھے اشعار کہے ۔
ویسے یہ کلام کچھ " تجرباتی " سا ہوگیا۔ یعنی موضوعاتی اعتبار سے کیفیت اس کی غزل یا مسلسل غزل کی سی ہے لیکن غزل کے فارمیٹ یعنی قافیہ ردیف کا اہتمام نہیں ۔ نظم کہنے میں تامل اس لئے ہے کہ اشعار میں یکجہتی اور موضوعاتی تسلسل نہیں ۔ مجموعی طور پر یہ مسلسل غزل سے قریب ترین ہے۔ سو خوب تجربہ ہے! :)
ممنون و متفق ہوں ظہیر بھائی بالکل ۔ مسلسل غزل ہی تھی لیکن کچھ طبع زادیت کے عناصر در آ گئے اور نمونہ میں پیوند لگ گئے ۔ اب اس عقلی آلکسی کو اور کہاں تک کوسوں اسی بنا پر ٹوٹے پھوٹے، مڑے تڑے سے تغزل کو نظم کا نام دے دیا ۔ :)
بقول مرزا کے پھر غزل کی روش پہ چل نکلا ۔خامہ طبع چاہتا تھا لگام۔ آپ نے بالکل درست نبض پر ہاتھ رکھی اور دلشاد کیا ۔
 
ایک نظم پیش خدمت ہے ۔

زندگی

زندگی، جینے نہیں دیتی مجھے
صبر کرنے تو کہیں دیتی مجھے !

پونچھنے دیتی نہیں یہ اشک بھی
بات بھی کہنے نہیں دیتی مجھے

مجھ کو دکھلاتی ہے جام ارغواں
اور پینے بھی نہیں دیتی مجھے

جانے اب ناراض ہے کس بات پر
اور معافی بھی نہیں دیتی مجھے

دم بخود رہتا ہوں، رہنے دو مجھے
آگہی جینے نہیں دیتی مجھے

وقت کا مرہم سبھی کو بانٹ کر
زخم سینے بھی نہیں دیتی مجھے

مصلحت کی بو ہے جام وصل میں
عاشقی پینے نہیں دیتی مجھے

جس طرف دیکھوں، بناوٹ کا رواج
سادگی جینے نہیں دیتی مجھے

جب تلک ہاتھوں سے تیرے لوں نہ جام
تشنگی پینے نہیں دیتی مجھے

زندگی سے بس شکایت ہے یہی
زندگی جینے نہیں دیتی مجھے

10۔10۔2022
عاطف بھائی ، میں نے بھی جب یہ تخلیق پڑھی تھی تو ظہیر صاحب کی طرح مجھے بھی تسلسل کا مسئلہ نظر آیا تھا . ویسے چند اشعار اچھے ہیں .
 
Top