نوید ناظم
محفلین
زندگی اُسے پسند کرتی ہے جو زندگی کو پسند کر لے۔۔۔۔ یہ بڑی نازک مزاج ہے' گلے اور شکوے کا بوجھ برداشت نہیں کرتی۔ لوگوں کو گلہ ہے کہ اولاد ہے اور خرچ پورا نہیں ہوتا لیکن جس کا خرچ پورا ہوتا ہے اسے گلہ ہے کہ اولاد نہیں۔۔۔۔ اپنے دکھ‘ دوسروں کے دکھ نظر نہیں آنے دیتے اور یوں ہر کوئی ہر کسی سے بیگانہ ہوتا جا رہا ہے۔
زندگی پانی کی طرح اپنا رستہ آپ بناتی ہے۔۔۔۔ یہ اپنے لیے ہنسنے اور رونے کے جواز خود پیدا کر لیتی ہے۔ حرکت میں زندگی اور زندگی میں حرکت موجود رہتی ہے۔۔۔ دن نہ گزریں تو بھی دن کٹتے رہتے ہیں۔۔۔۔ بڑے بڑے غم زندگی سے گزر جاتے ہیں اور انسان زندہ رہنے کے لیے بہانے تراشتا رہتا ہے' یہ نئے چہروں میں پرانی دوستیاں تلاشتا رہتا ہے۔ امیر زندگی کو گزارتا ہے اور غریب کو زندگی گزارتی ہے مگر پھر بھی دونوں اپنے اپنے مدارمیں گردش کرتے رہتے ہیں اور یوں دونوں کے دن کٹتے رہتے ہیں۔۔۔ انسان زندگی میں ٹھہراو ڈھونڈتا ہے مگر اس کے مزاج میں بہاو ہے' بے بہا بہاو۔۔۔اور یہ کہ ایک آتشِ مدام اس کا ںصیب ہو جیسے۔۔۔۔ زندگی ایک شمع کی صورت جلتی ہے اور انسان پروانے کی طرح اس کے گرد گھومتا ہے' اس کا یہ طواف اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ آخری سانس بھی تھم نہ جائے۔ یہ چاند کی طرح طلوع ہوتی ہے اور انسان چکور کی طرح اس کے گرد محوِ پرواز رہتا ہے۔ یہ زندگی کو اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ زندگی اسے نہ چھوڑ دے۔۔۔۔ مگر زندگی انسان کو کبھی چھوڑ کر نہیں جاتی' یہ صرف نام اور بھیس بدلتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ زندگی اعمال کا نام ہے تو یہ سزا یا جزا کی صورت ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔ زندگی مختصر ہے مگر یہ انسان پر کبھی تمام نہیں ہوتی۔۔۔ یہ ایک بار شباب بن کر گزر جائے تو بار بار یاد بن کر گرزتی ہے۔
اصل میں انسان زندگی کا سرمایا ہے اور زندگی انسان کا سرمایا۔۔۔۔ یہ سرمایا ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خالق کی بہترین تخلیق ہے۔۔۔۔ ایک شاہکار ہے۔۔۔۔ ایک راز ہے۔۔۔۔ ایسا راز جو صرف ان پر آشکار ہو سکتا ہے جو اِسے کھُلے دل کے ساتھ قبول کر لیں !
زندگی پانی کی طرح اپنا رستہ آپ بناتی ہے۔۔۔۔ یہ اپنے لیے ہنسنے اور رونے کے جواز خود پیدا کر لیتی ہے۔ حرکت میں زندگی اور زندگی میں حرکت موجود رہتی ہے۔۔۔ دن نہ گزریں تو بھی دن کٹتے رہتے ہیں۔۔۔۔ بڑے بڑے غم زندگی سے گزر جاتے ہیں اور انسان زندہ رہنے کے لیے بہانے تراشتا رہتا ہے' یہ نئے چہروں میں پرانی دوستیاں تلاشتا رہتا ہے۔ امیر زندگی کو گزارتا ہے اور غریب کو زندگی گزارتی ہے مگر پھر بھی دونوں اپنے اپنے مدارمیں گردش کرتے رہتے ہیں اور یوں دونوں کے دن کٹتے رہتے ہیں۔۔۔ انسان زندگی میں ٹھہراو ڈھونڈتا ہے مگر اس کے مزاج میں بہاو ہے' بے بہا بہاو۔۔۔اور یہ کہ ایک آتشِ مدام اس کا ںصیب ہو جیسے۔۔۔۔ زندگی ایک شمع کی صورت جلتی ہے اور انسان پروانے کی طرح اس کے گرد گھومتا ہے' اس کا یہ طواف اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ آخری سانس بھی تھم نہ جائے۔ یہ چاند کی طرح طلوع ہوتی ہے اور انسان چکور کی طرح اس کے گرد محوِ پرواز رہتا ہے۔ یہ زندگی کو اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتا جب تک کہ زندگی اسے نہ چھوڑ دے۔۔۔۔ مگر زندگی انسان کو کبھی چھوڑ کر نہیں جاتی' یہ صرف نام اور بھیس بدلتی ہے۔ اگر کہا جائے کہ زندگی اعمال کا نام ہے تو یہ سزا یا جزا کی صورت ہمیشہ ساتھ رہتی ہے۔ زندگی مختصر ہے مگر یہ انسان پر کبھی تمام نہیں ہوتی۔۔۔ یہ ایک بار شباب بن کر گزر جائے تو بار بار یاد بن کر گرزتی ہے۔
اصل میں انسان زندگی کا سرمایا ہے اور زندگی انسان کا سرمایا۔۔۔۔ یہ سرمایا ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ یہ خالق کی بہترین تخلیق ہے۔۔۔۔ ایک شاہکار ہے۔۔۔۔ ایک راز ہے۔۔۔۔ ایسا راز جو صرف ان پر آشکار ہو سکتا ہے جو اِسے کھُلے دل کے ساتھ قبول کر لیں !