ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احباب ِ محفل ! اس مسلسل سی غزل میں نہ تو کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی اس کا پس منظر بتانے کی کوئی ضرورت ہے ۔ بس اس تلخ نوائی پر معذرت چاہتا ہوں۔
زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں
ماضی کی داستاں میں بسایا گیا ہمیں
زندہ حقیقتوں سے چھپایا گیا ہمیں
ماضی کی داستاں میں بسایا گیا ہمیں
چھینا گیا لبوں سے تبسم بنامِ سوز
قصے کہانیوں پہ رُلایا گیا ہمیں
اپنے سوا ہر عکس ہی بگڑا ہوا لگا
آئینہ اِس طرح سے دکھایا گیا ہمیں
پہلے تو ایک درسِ اخوّت دیا گیا
پھر حرفِ اختلاف پڑھایا گیا ہمیں
کانوں میں زہرِ کفر انڈیلا گیا ہے روز
پھر کلمہء قرآن سنایا گیا ہمیں
اُٹھ کر پتہ چلا کہ قیامت گذر چکی
ایسا تھپک تھپک کے سُلایا گیا ہمیں
دوزخ کی آگ بھوکے بدن سے لپیٹ کر
وعدہ بہشت کا بھی دلایا گیا ہمیں
تقریبِ دوستاں میں ستم در ستم ہوا
تعظیم ِدشمناں میں اٹھایا گیا ہمیں
پیشانیوں پہ قیمتیں لکھ کر مثالِ جنس
بے حد و بے حساب کمایا گیا ہمیں
پانی نہیں تھے خون پسینہ تھے ہم ظہیر
سیراب بستیوں میں بہایا گیا ہمیں
ظہیر احمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸
ٹیگ: سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی فاتح
قصے کہانیوں پہ رُلایا گیا ہمیں
اپنے سوا ہر عکس ہی بگڑا ہوا لگا
آئینہ اِس طرح سے دکھایا گیا ہمیں
پہلے تو ایک درسِ اخوّت دیا گیا
پھر حرفِ اختلاف پڑھایا گیا ہمیں
کانوں میں زہرِ کفر انڈیلا گیا ہے روز
پھر کلمہء قرآن سنایا گیا ہمیں
اُٹھ کر پتہ چلا کہ قیامت گذر چکی
ایسا تھپک تھپک کے سُلایا گیا ہمیں
دوزخ کی آگ بھوکے بدن سے لپیٹ کر
وعدہ بہشت کا بھی دلایا گیا ہمیں
تقریبِ دوستاں میں ستم در ستم ہوا
تعظیم ِدشمناں میں اٹھایا گیا ہمیں
پیشانیوں پہ قیمتیں لکھ کر مثالِ جنس
بے حد و بے حساب کمایا گیا ہمیں
پانی نہیں تھے خون پسینہ تھے ہم ظہیر
سیراب بستیوں میں بہایا گیا ہمیں
ظہیر احمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸
ٹیگ: سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی فاتح
آخری تدوین: