نبیل
تکنیکی معاون
حکیم مومن خان مومن کے شاگرد آغا محمود بیگ راحت نے ہندوستان میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے مسلمان نوابوں کی معاشرت کے بارے میں حکایت کی صورت میں ایک دلچسپ کتاب "نتائج المعانی" لکھی تھی۔ اس کتاب سے ایک حکایت آپ بھی سن لیجیے:
ایک روز ابو نصر محمد اکبر شاہ ثانی کے دربار میں ذکر زوال سلطنت آ گیا۔ مفتی محمود خان نے عرض کی، "چار آدمیوں نے مملکت کو تباہ کر دیا: اول حکمیوں نے فرمانروایان بیدار مغز کو وہ مقویات کھلائیں کہ تاب تحمل نہ ہو سکی، مزاج عشرت طلب ہو گیا۔ دوسرے کلاونتوں نے، ان کے گھر میں جو نوخیز ہوئی اس کو پیش کیا اور اس میں اپنا افتخار پیدا کیا۔ سلاطین کو رقص و سرود میں مائل رکھا۔ ڈوم ڈھاڑی مدارالمہام ہوئے۔ جابجا خود سر ہو گئے۔ شرفا کو دربار میں مداخلت نہ ہوئی۔ ان کی بات کسی نے نہ سنی۔ وقت پر لوگوں نے طرح دی۔ غنیم کی بن آئی۔ تیرے کثرت عیال نے، ادھر ازواج کی کثرت ہوئی ادھر اولاد کی ترقی ہوئی۔ نزع خانگی سے خلش ہوئی۔ چوتھے مشائخ و پیر زادوں نے۔ جب کبھی حاضر ہوئے اور کبھی ذکر سلطنت آیا، اپنے تئیں عرش پر پہنچایا۔ مسائل تصوف بیان کرنے لگے۔ کنج عزلت کی خوبیاں عرض کرنے لگے۔ خون بندگان خدا سے ڈرانے لگے۔ دعاؤں کا لشکر حضور کی فتح و نصرت کو کافی ہے، دشمن ادھر منہ بھی نہیں کرنے کا، خود پامال سم سمندران لشکر دعائے دولت و اقبال ہوگا۔ فرمانروا ان کے دام میں آگئے۔ پیر جی کی دعا پر تکیہ کیا، چار بالش عشرت پر تکیہ نشین ہوئے۔ اراکین گوشہ نشین ہوئے، غنیم نے قابو پایا، اقلیم پر زور لایا۔ دعا کی فوج آتی رہی، حکومت جاتی رہی۔"
سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک (میاں محمد افضل) سے اقتباس
ایک روز ابو نصر محمد اکبر شاہ ثانی کے دربار میں ذکر زوال سلطنت آ گیا۔ مفتی محمود خان نے عرض کی، "چار آدمیوں نے مملکت کو تباہ کر دیا: اول حکمیوں نے فرمانروایان بیدار مغز کو وہ مقویات کھلائیں کہ تاب تحمل نہ ہو سکی، مزاج عشرت طلب ہو گیا۔ دوسرے کلاونتوں نے، ان کے گھر میں جو نوخیز ہوئی اس کو پیش کیا اور اس میں اپنا افتخار پیدا کیا۔ سلاطین کو رقص و سرود میں مائل رکھا۔ ڈوم ڈھاڑی مدارالمہام ہوئے۔ جابجا خود سر ہو گئے۔ شرفا کو دربار میں مداخلت نہ ہوئی۔ ان کی بات کسی نے نہ سنی۔ وقت پر لوگوں نے طرح دی۔ غنیم کی بن آئی۔ تیرے کثرت عیال نے، ادھر ازواج کی کثرت ہوئی ادھر اولاد کی ترقی ہوئی۔ نزع خانگی سے خلش ہوئی۔ چوتھے مشائخ و پیر زادوں نے۔ جب کبھی حاضر ہوئے اور کبھی ذکر سلطنت آیا، اپنے تئیں عرش پر پہنچایا۔ مسائل تصوف بیان کرنے لگے۔ کنج عزلت کی خوبیاں عرض کرنے لگے۔ خون بندگان خدا سے ڈرانے لگے۔ دعاؤں کا لشکر حضور کی فتح و نصرت کو کافی ہے، دشمن ادھر منہ بھی نہیں کرنے کا، خود پامال سم سمندران لشکر دعائے دولت و اقبال ہوگا۔ فرمانروا ان کے دام میں آگئے۔ پیر جی کی دعا پر تکیہ کیا، چار بالش عشرت پر تکیہ نشین ہوئے۔ اراکین گوشہ نشین ہوئے، غنیم نے قابو پایا، اقلیم پر زور لایا۔ دعا کی فوج آتی رہی، حکومت جاتی رہی۔"
سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک (میاں محمد افضل) سے اقتباس