زکواۃ کا نصاب، ڈھائی فی صد کی کیا دلیل ہے؟

میرا سوال بغور پڑھئے۔ اور پھر جواب عطا فرمائیے۔

میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ڈھائی فی صد زکواۃ کے نصاب کی کیا دلیل ہےِ؟ پلیز اس کا ریفرنس، قرآن یا حدیث سے فراہم کیجئے یا پھر بعد کے علماء سے کہ ڈھائی فیصد کے نصاب کی سورس ، بنیاد کیا ہے؟
قرآن کی آیت یا
کوئی روایت یا
بعد کے علماء کا کوئی فیصلہ

مجھے ریفرنس درکار ہے کہ ڈھائی فی صد کا نصاب کہاں سے آیا ہے؟ مہربانی سے عطا فرمائیے

مدیران سے درخواست:
پلیز وہ جوابات حذف کردیجئے جن میں کوئی ریفرنس نا ہو۔ مجھے صرف ریفرنس درکار ہے کہ نصاب کی بنیاد کیا ہے؟ اور اس کا ریفرنس کیا ہے؟

والسلام
 

ام اویس

محفلین
مسند امام اعظم میں کتاب الزکاة کے تحت باب الرّکاز ( ۸۷) باندھا گیا ہے ۔

ابو حنیفہ عن عطاء بن ابن عمر قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم الرکاز ما رکزہ الله تعالی فی المعادن الذی ینبت فی الارض

حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ رکاز وہ ہے جسکو الله تعالی نے کانوں میں گاڑا ہے ( اور ) جو پیدا ہوتی ہے زمین میں ۔

تشریح :- سوال پیدا ہوتا ہے کہ رکاز کیا ہے ؟
تو رکاز دراصل وہ چیز ہے جس کو الله تعالی کانوں میں بند پیدا فرماتا ہے ۔ یہ زمین ہی میں پیدا ہوتا ہے ۔
امام شافعی و امام مالک اور امام ابو حنیفہ کے درمیان رکاز ایک اختلافی بحث ہے ۔ حقیقت اس کی یہ ہے کہ امام شافعی اور امام مالک کانوں میں زکوة مانتے ہیں اور رکاز کو ایّام جاہلیت کے دفینوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں اور ان میں وہ خمس کے قائل ہیں ۔ امام شافعی ومالک کے نزدیک رکاز کان اور دفینہ دونوں کو شامل ہے چنانچہ وہ ہر دو میں خمس کے قائل ہیں ۔ امام شافعی و مالک کے مذہب کی دلیل قوی بلال بن الحارث المزنی والی حدیث ہے جسکو مالک نے مؤطا میں بیان کیا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرع کے نامیہ میں معادن قبیلے کو بلال بن الحارث المزنی کی جاگیر میں دے دیا تھا پس ان معادن سے کچھ نہیں لیا جاتا ہے آج تک مگر زکوٰة
امام صاحب اپنے خیال کے ثبوت میں قرآن پیش کرتے ہیں ۔ لفظ “ رکاز “ کی لغوی تحقیق کہ اختلاف یہیں ہے ۔ درحقیقت زمین سے نکالا جانے والا مال تین ناموں سے پکارا گیا ہے ۔ کنز ، معدن ، رکاز
کنز ۔ وہ خزانہ ہے جس کو انسان خود زمین میں دفن کرے ۔
معدن ۔ وہ جس کی تخلیق زمین کی تخلیق کے ساتھ ہوئی ہو ۔
رکاز ۔ دونوں کو شامل ہے اور عام
اب قرآن مجید میں اس طرح فرمایا ۔ واعلموا انما غنمتم من شیئٍ فإنّ لله خمسه
کہ جانو تم یہ کہ جو کچھ لوٹ لو کسی چیز سے پس تحقیق واسطے الله کے ہے پانچواں حصہ اس کا ۔
اور یہ ظاہر ہے کہ دفینہ اور اس کا محل زمین ہر دو پر لفظ غنیمت صادق آتا ہے کیونکہ پہلے وہ کفار کے قبضہ میں تھے پھر مسلمانوں نے ان کو چھینا ، لُوٹا اور قبضہ میں کیا ۔ جب یہ غنیمت میں شمار ہوئے تو اس کے حکم خمس کے نیچے بھی آئے اور ان میں خمس واجب ہوا ۔
سنت کی حجیت اس طرح کہ صحاح ستہ میں حدیث وارد ہے

(عن أبي هريرة- رضي الله عنه- أن رسول الله قال: "العجماء جبار، والبئر جبار، والمعدن جبار، وفي الركاز الخمس".

صحيح البخاري: (9/15)

کہ جانوروں میں بدلہ نہیں ، کنویں میں بدلہ نہیں ، کان میں بدلہ نہیں اور رکاز میں خمس ہے ۔ لہذا بنا پر تحقیق لغوی رکاز کو صرف دفینہ کے معنٰی میں لینا کوئی وجہ نہیں رکھتا خصوصا جبکہ خود آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی زبانی اس کی تائید ملتی ہو کہ امام محمد نے اپنی مؤطا میں اور نیز بیہقی نے نقل کیا ہے کہ آپ نے جب فرمایا کہ رکاز میں خمس ہے تو آپ سے پوچھا گیا یا رسول الله صلی الله علیہ وسلم رکاز کیا چیز ہے ؟
آپ نے فرمایا وہ مال جس کو الله تعالی نے زمین میں ان معادن میں پیدا کیا جو جبکہ آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ۔
اب شافعیہ کے استدلال کا جواب سنیے کہ حدیث بلال بن الحارث المزنی اول تو منقطع ہے ۔ جیسا کہ ابو عبید نے کتاب الاموال میں اس کی تصریح کی ہے پھر اس میں اس کا اظہار کب ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا کہ معادن سے زکوة لی جائے بلکہ قرینِ قیاس ہے کہ یہ اہل ولات کا اجتہاد ہے کیونکہ اس باب میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے کوئی روایت نہیں ۔
رہی مذہب حنفیہ کی بروئے قیاس تائید تو وہ بدیں صورت کے معادن کو پوری پوری غنیمت کی حیثیت حاصل ہے ۔ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا کہ پہلے یہ معادن کی زمین کفار کے قبضہ میں تھی ۔ پھر مسلمانوں نے اس کو بقوت وطاقت اپنے قبضہ میں کیا تو غنیمت ہوئی اور غنیمت میں چونکہ بلا شک وشبہ خمس ہے تو اس میں خمس کیوں نہ ہو ۔

مسند امام اعظم ۔(مترجم اردو) ترجمہ وتشریح مولانا دوست محمد شاکر صاحب
صفحہ ۱۷۳۔
 

ام اویس

محفلین
صحیح مسلم کتاب الزکوٰة کی پہلی حدیث مبارکہ ہے ۔

عن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ الله عَنْهُ:
أنَّ رَسُولَ اللهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: "لَيْسَ فيمَا دُونَ خَمْسَةِ أوْسَقٍ صَدَقَةٌ ولَا فِيمَا دُونَ خَمْسٍ ذَوْدٍ صَدَقَة، وَلَا فِيمَا دُونَ خمس اواق صدقہ

بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا پانچ ٹوکروں سے کم میں زکوة نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں زکوة ہے اور نہ پانچ اوقیہ سے کم میں ۔

امام نووی رحمہ نے وسق ، صاع اور رطل کی تحقیق بیان کی ہے ۔

مترجم کہتا ہے کہ پانچ اوقیہ کے دوسو درہم ہوتے ہیں ۔ اور تولوں کے حساب سے دوسو درہم ساڑھے باون تولہ ہیں اور یہ نصاب چاندی کی ہے ۔ اس سے کم میں زکوة واجب نہیں

جب دوسو درہم کی چاندی کا مالک ہو اور اس پر سال گزر جائے تو زکوة فرض ہوجاتی ہے پھر وہ ہر دو سو پر اپنے مال سے ربع عشر ادا کرے اور وہ پانچ درہم ہیں ہر دو سو درہم پر ۔

زکاة الذھب والفضہ
( التسہیل الضروری ، المسائل القدوری فی فقہ امام الاعظم ابی حنیفہ النعمان بن ثابت الکوفی رحمہ الله )
محمد عاشق الہی البرنی
دوسو درہم کا خمس ہے یعنی پانچواں حصہ ۔۔۔۔ تو سو درہم کا اڑھائی فیصد
والله اعلم
 
اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم سے زکواۃ کی تعریف

30:39 وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم ربا دیتے ہو کہ دولت عوام (پبلک ویلتھ) میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور جو تم زکوٰة دیتے ہو اور اُس سے خدا کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی (دولت عوام) دوگنی، چوگنی ہوتی ہے۔

قرآن کا یہ انداز ہے کہ کسی نظریے کو واضح کرنے کے لئے ، مخالف الفاظ سے کام لیتا ہے۔ اس آیت سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ زکواۃ دینے کے عمل کا مخالف عمل "ربا لینا ہے"

مزید دیکھئے کہ صدقات اور ربا کے مخالف ہونے کا تعلق
2:276 يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
مٹاتا ہے اللہ "ربا" کو
اور بڑھاتا ہے "صدقات" کو اور اللہ خوش نہیں سارے نا شکرے گنہگار سے

ان دو آیات سے یہ واضح ہے کہ "ربا" کا مخالف "صدقات" اور "زکواۃ" ہیں

ربا رکھ لینے یعنی جو رقم زکواہ یا صدقات کی مد میں بطور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ ) میں دی جانئ تھی ، نہیں دی گئی تو وہ ربا ہے؟
4:161 وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اور اس لئے کہ وہ "ربا" لے لیتے جبکہ وہ اس سے منع کیے گئے تھے اور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ) غلط طور کھا جاتے اور ان میں جو کافر ہوئے ہم نے ان کے لئے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے،

گویا "زکوۃ " یا "صدقات " کا رکھ لینا یا کھا جانا ، "ربا کھا جانا ہے" کیونکہ ربا رکھ لینا یا کھا جانات ، زکواہ یا صدقات دینے ، دونوں کا مخالف عمل ہے ، ربا رکھ لینے سے عوام کی دولت( أَمْوَالَ النَّاسِ) میں کمی آتی ہے۔

زکواۃ یا صدقات کا مقصد کیا ہے، یہ کس کس پر خرچ کی جائے گی؟

9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بیشک صدقات (زکوٰۃ) ، غریبوں اور محتاجوں(پبلک ویلفئیر) اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں(آئی آر ایس یا ایف بی آر) اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(تعلیم کی سہولت) اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں (پبلک ریلیف) اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک ڈیبٹ ریلیف) اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر)(ڈیفنس آف آئیدیالوجیکل سٹیٹ) اور مسافروں پر (ذریاع سفر، ٹرانسپورٹ انفرا سٹرکچر) پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے


صدقات یعنی زکواۃ نا دینے والوں یعنی ربا کھا جانے والوں کے ساتھ کیا ہوگا؟
2:275 - الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَ۔ئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو لوگ "ربا" کھاجاتے ہیں وہ کبھی کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو ربا کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور رباء کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

ان آیات سے "ربا"، زکواۃ، صدقات اور ان کا اثر عوام کی دولت (پبلک ویلتھ) پر کیا پڑتا ہے، بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔

تو زکواہ یا صدقات کی مقدار کتنی ہے ؟ کیا زکواۃ یا صدقات کی مد میں واجب الادا رقوم (ربا) کو کھا جانا درست ہے؟ یہ آئندہ مراسلے میں

والسلام
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
فاروق سرور خان:
آپ کو چاہیے کہ کسی کے ترجمے میں اپنے الفاظ شامل نہ کریں۔ جو ترجمہ آپ نے طاہر القادری سے منسوب کیا ہے اس میں آپ نے اپنے الفاظ شامل کر دئیے جو کہ علمی خیانت ہے۔
تحریف شدہ ترجمہ
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
طاہر القادری : بیشک صدقات (زکوٰۃ) ، غریبوں اور محتاجوں(پبلک ویلفئیر) اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں(آئی آر ایس یا ایف بی آر) اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(تعلیم کی سہولت) اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں (پبلک ریلیف) اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک ڈیبٹ ریلیف) اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر)(ڈیفنس آف آئیدیالوجیکل سٹیٹ) اور مسافروں پر (ذریاع سفر، ٹرانسپورٹ انفرا سٹرکچر) پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

جب کہ اصل ترجمہ درج ذیل ہے:

9:60
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (طاہر القادری)
 
فاروق سرور خان:
آپ کو چاہیے کہ کسی کے ترجمے میں اپنے الفاظ شامل نہ کریں۔ جو ترجمہ آپ نے طاہر القادری سے منسوب کیا ہے اس میں آپ نے اپنے الفاظ شامل کر دئیے جو کہ علمی خیانت ہے۔
تحریف شدہ ترجمہ


جب کہ اصل ترجمہ درج ذیل ہے:

9:60
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (طاہر القادری)

ترجمے سے طاہر القادری کا نام ہٹا دیا ہے۔ اردو الفاظ کی وضاحت، انگریزی الفاظ سے میں نے کی ہے ۔ نام پر توجہ نہیں رہی۔ کوتاہی کی نشاندہی پربہت شکریہ۔
 
آخری تدوین:
غنمتم ، خمس کیا ہے؟
سورۃ انفال آیت نمبر 41
8:41 وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ کسی بھی شے سے ہونے والی بڑھوتری( ٹیکس ادا کرنے سے پہلے منافع) کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

مندرجہ بالاء آیت میں کسی بھی اضافہ یا بڑھوتری کا پانچواں حصہ، اللہ اور رسول کا حق ہے اور مندرجہ بالاء کیٹیگریز میں خرچ ہوگا۔

سنی فقہ میں "غنمتم" کے معانی - مال غنیمت - کے کئے گئے ہیں جبکہ شیعہ فقہ میں "غنمتم " کے معانی اضافہ ، بڑھوتری کے کئے گئے ہیں۔ ریفرنس کے لئے دیکھئے

ان میں سے کونسے معانی درست ہیں؟
اس کا جواب ہم کو قرآن کریم کی ان آیات سے ملتا ہے 4:94 ، 6:146 ، 8:69 ، 20:18 ، 21:78، 48:15، 48:19، 48:20

ان سب آیات میں "غنم" کے معانی، فائیدہ، اضافہ یا بڑھوتری کے ہیں، مال غنیمت کے لئے اللہ تعالی لفظ "انفال" استعمال کرتےہیں

غنم کے معانی درج ذیل آیت میں مترجمین نے جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت قرار دیا ہے۔
4:94 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُواْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے

کیا یہ لوگ اب اللہ تعالی سے جنگ کرکے مال غنیمت حاصل کریں گے؟
یہاں بہتر ترجمہ یہ ہوگا کہ
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو اللہ کے پاس بہت فائیدے ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے
ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کہ ہم "غنم" کے معانی صرف اور صرف میدان جنگ میں ہونے والے فائیدے ، اضافے یا بڑھوتری تک محدود رکھیں۔ پھر اس بڑھوتری پر صرف 20 فیصد اللہ اور اس کے رسول اکرم کا حق ہے۔ جبہ سورۃ انفال کی آیت نمبر 1 کے مطابق، انفال ، یعنی مال غنیمت سو فی صد اللہ اور اس کے رسول اکرم کا حق ہے۔

یہان یہ ثابت ہوتا ہے کہ زکواۃ یا صدقات کی مقدار 20 فی صد ہے۔ جو کہ اسی وقت واجب الادا ہے جس وقت بڑھوتری ہوئی۔ دیگر یہ کہ تمام زرعی بڑھوتری پر بھی یہی پانچواں حصہ واجب الادا ہے۔ کم از کم مجھے قرآں حکیم میں کوئی دوسری شرح زکواۃ کی نہیں ملتی ہے۔ اگر آپ کے علم قرآن حکیم کی ایسی کوئی آیت ہے تو میں ہے تو مہربانی فرما کر آگاہ فرمائیے۔
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہ اور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کردو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

صدقات اور زکواہ کی وصول شدہ یہ رقومات کے خرچ کرنے کے بارے میں قرآن حکیم دو مزید آیات میں حکم فراہم کرتا ہے
9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بیشک صدقات (زکوٰۃ) ، غریبوں اور محتاجوں(1۔ پبلک ویلفئیر) اور 2- ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں(آئی آر ایس یا ایف بی آر) اور 3- ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(تعلیم کی سہولت) اور (مزید یہ کہ) 4 انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں (پبلک ریلیف) اور 6 - قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک ڈیبٹ ریلیف) اور 7- اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر)(ڈیفنس آف آئیدیالوجیکل سٹیٹ) اور 8- مسافروں پر (ذرائع سفر، ٹرانسپورٹ انفرا سٹرکچر) پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

یہ 8 کیٹیگریز بنتی ہیں۔ ڈھائی فی صد کا حساب ، اموی خلفاء کے دور میں اسی آیت سے آیا ہے، جس میں علما نے تعلیم ، مدارس کی مد میں آٹھواں حصہ ، یعنی ڈھائی فی صد اپنے لئے قرار دیا، جو آج تک مدارس، مساجد کو لوگ دیتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی بڑھوتری کا تمام کا تمام 20 فی صد ، وفاقی ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کو ادا کیا جائے ، اور وہ یہ طے کریں کہ کسے محکمے کو کتنا ضروری ہے۔

ہم کو سورۃ بقرۃ ، آیت نمبر 177 میں بھی یہی ہدایت نظر آتی ہے۔
2: 177 لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

وہ رقم جو زکواۃ کی مد میں ادا کرنا فرض ہے، یہ اللہ کا حق ہے اور جو اس کو کھا گیا اس نے "ربا" یعنی اضافہ میں اللہ کا حق کھایا۔ جو قومیں اتنا ٹیکس (زکواۃ) ادا نہیں کرتی ہیں ، نا ان کے پاس ویلفئیر سسٹم ہوتا ہے، نا ان کے پاس تعلیم نظام کے لئے پیسہ ہوتا ہے، نا وہ صحت کے شعبے میں خرچ کرنے کے قابل ہوتے ہیں ، نا ان کا انفرا سٹرکچر بن پاتا ہے ، نا ہی ان کے پاس پبلک ڈیبٹ ریلیف سسٹم موجود ہوتا ہے، نا ہی وہ اپنے لوگوں کی گردن چھڑا سکتے ہیں، نا ہی وہ پبلک سرونٹس (مساکین) کی تنخواہین ادا کرسکتے ہیں۔ نا ہو وہ یتیموں کا خاطر خواہ انتظام کرسکتے ہیں۔ نا ہی ان کا دفاع مظبوط ہوتا ہے۔ یہ ہی وہ بے برکتی ہے جس کا تذکرہ (اوپر) 2:276 میں کیا ہے کہ "ربا" کھا جانے سے اللہ برکت نہیں دیتا، بلکہ برکت تو زکواہ (ٹیکس ) دینے سے ہوتی ہے۔

جب لوگ "ربا" کھا جاتے ہیں ، تو زکواۃ کم ہوجاتی ہے، پبلک ویلتھ (اموال الناس 4:161 ) کم ہوجاتی ہے، اور غربت عام ہوجاتی ہے۔
جب کسی بھی قوم کی آمدنی کا 20 فی صد حصہ مائع حالت میں اس قوم پر دولت کی گردش کا باعث بنتا ہے تو پھر ترقی ہوتی ہے ، برکت ہوتی ہے۔
آپ سب کی خدمت کے لئے میں نے ان آیات کو جمع کردیا ہے۔ ترجمے تمام کے تمام دوسرے مترجمین کے ہیں۔ بریکٹ میں انگریزی الفاظ کا اضافہ میں نے میکرو اکنامک پکچر کے لحاظ سے کیا ہے

کچھ میرے بارے میں : 2003 سے 2007 تک میں نے لائین لائین کرکے عربی کی آیات کے 27 تراجم اوپن برہان پر لگائے، قرآن حکیم کے تراجم 27 بار پڑھنے کے باعث ، یہ ذہن میں رہ گیا کہ یہ بات کس آیت میں ملے گی۔ اوپن برہان کی شکل میں ایک اچھا ریفرنس تیار ہوگیا ، جس میں کسی بھی لفظ کو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ کن آیات مین کس معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اور تمام الفاظ کو ان کے روٹ ورڈ کی مدد سے آپس میں تعلق قائم کیا، جس کی مدد سے کسی بھی لفظ سے بننے والے دوسرے الفاظ کو پڑھا اور تحقیق کی جاسکتی ہے۔ کتاب آپ کے سامنے ہے، یہ اوزار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ریسرچ کیجئے ، آپ سب پڑھے لکھے ہیں۔ فیصلہ آپ خود کیجئے اور ہدایت اللہ تعالی سے مانگئے۔

اسلامی ملکوں کے تباہ شدہ معیشیت کی واحد وجہ زکواۃ کی آرگنائزڈ ادائیگی کی کمی ہے۔ جب ٹیکس ادا ہوگا تو معاملات خود بہتری کی طرف مائیل ہوجائیں گے
انشاء اللہ تعالی،

والسلام
 
آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
ان سب آیات میں "غنم" کے معانی، فائیدہ، اضافہ یا بڑھوتری کے ہیں، مال غنیمت کے لئے اللہ تعالی لفظ "انفال" استعمال کرتےہیں
غنم کی مثال:
20:18 قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى
طاہر القادری : انہوں نے کہا: یہ میری لاٹھی ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور میں اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لئے کئی اور فائدے بھی ہیں
خان صاحب، اگر ہم صحیح سمجھے ہیں تو جو آپ نے لکھا ہے اور جس طرح سے آپ نے الفاظ اور اور ترجمے کو ہم رنگ کیا ہے ، ہمیں لگتا ہے کہ آپ الفاظ کے ترجمے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ غنمی کا ترجمہ "میرے لیے کئی اور فائدے " نہیں ، بلکہ میری بکریاں ہیں۔ آپ تحقیق فرما لیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کچھ میرے بارے میں : 2003 سے 2007 تک میں نے لائین لائین کرکے عربی کی آیات کے 27 تراجم اوپن برہان پر لگائے، قرآن حکیم کے تراجم 27 بار پڑھنے کے باعث ، یہ ذہن میں رہ گیا کہ یہ بات کس آیت میں ملے گی۔ اوپن برہان کی شکل میں ایک اچھا ریفرنس تیار ہوگیا ، جس میں کسی بھی لفظ کو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ کن آیات مین کس معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اور تمام الفاظ کو ان کے روٹ ورڈ کی مدد سے آپس میں تعلق قائم کیا، جس کی مدد سے کسی بھی لفظ سے بننے والے دوسرے الفاظ کو پڑھا اور تحقیق کی جاسکتی ہے۔ کتاب آپ کے سامنے ہے، یہ اوزار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ریسرچ کیجئے ، آپ سب پڑھے لکھے ہیں۔ فیصلہ آپ خود کیجئے اور ہدایت اللہ تعالی سے مانگئے۔
بہت اچھا کام ہے اور کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اس میں چند تفاسیر بھی شامل کر دیں کیوں کہ آپ نے اپنے مراسلے میں جو باتیں ترجمہ کی ذیل میں کی ہیں وہ بھی تفسیر و توضیح ہی ہے اگرچہ تفسیر بالرائے ہے ، تفیسر بالماثور ہوتی تو بہت اعلیٰ ہوتا۔
 
خان صاحب، اگر ہم صحیح سمجھے ہیں تو جو آپ نے لکھا ہے اور جس طرح سے آپ نے الفاظ اور اور ترجمے کو ہم رنگ کیا ہے ، ہمیں لگتا ہے کہ آپ الفاظ کے ترجمے میں غلط فہمی کا شکار ہیں۔ غنمی کا ترجمہ "میرے لیے کئی اور فائدے " نہیں ، بلکہ میری بکریاں ہیں۔ آپ تحقیق فرما لیں۔
بہت شکریہ الشفاٰ، مراسلے کے متن میں ترمیم کردی ہے۔ اور ایک دوسری آیت ، بطور بہتر مثال "غنم" کے معانی کے لئے فراہم کی ہے۔ ایک بار پھر شکریہ۔
 
بہت اچھا کام ہے اور کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اس میں چند تفاسیر بھی شامل کر دیں کیوں کہ آپ نے اپنے مراسلے میں جو باتیں ترجمہ کی ذیل میں کی ہیں وہ بھی تفسیر و توضیح ہی ہے اگرچہ تفسیر بالرائے ہے ، تفیسر بالماثور ہوتی تو بہت اعلیٰ ہوتا۔

بہت شکریہ آپ کی توجہ کا برادر من۔

تفسیر بالماثور کیا ہے؟

"تفسیر بالمأثور
اس سے مراد وہ تفسیر ہے جو قرآن، احادیث نبویہ ﷺ یا اقوال صحابہ و تابعین سے منقول ہو ان مأخذوں کے ساتھ تفسیر کرنا تفسیر بالماثور کہلاتا ہے۔ ان کے علاوہ کسی تفسیر کو تفسیربالماثور نہیں کہہ سکتے۔ احادیث اور اقوال صحابہ و تابعین سے منقول تفسیر کے بارے میں سندی حیثیت کو جاننا اور تحقیق کرنا انتہائی ضروری ہے اگر وہ صحیح سند سے ثابت ہو تو مقبول ہوگی ورنہ نہیں۔"


قرآنی آیات سے اخذ شدہ نتائج کیا تفسیر بالرائے کے زمرے میں آئیں گے؟
میرے دونوں بنیادی مراسلوں میں قرآن کریم کے ماخذ یا ریفرنس موجود ہیں۔ لہذا یہ تفسیر بالماثورقرار پائی۔
ممکن ہے کہ کوئی نکتہ بناء ماخذ یا ریفرنس کے رہ گیا ہو، آپ مہربانی فرمائیے اور ان نکات کی نشاندہی فرمائیے، جن کے بارے میں اللہ تعالی کے فرمان، قرآن حکیم سے ریفرنس فراہم کرنے میں کوتاہی ہو گئی ہو تاکہ میں ان نکات کا ماخذ یعنی ریفرنس فراہم کرسکوں۔

میں نے زکواۃ، صدقات اور رباء کے موضوع کے بارے میں ان آیات پر انفرادی مسائیل کے بجائے اجتماعی مسائیل کے طور پر غور کیا ہے۔ کہ جہاں روزہ، حج ، نماز کا ثواب ، انفرادی طور پر پہنچتا ہے، کیونکہ آپ کے روزہ، حج، نماز کا ثواب یا اثر ، مجھ تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن زکواۃ، صدقات دینے کے اثرات اور ربا (منافع کا وہ حصہ جو اللہ کا حق ) چھپا یا بچا لینے کے اثرات ساری قوم پر اجتماعی طور پر پڑتے ہیں۔کچھ افراد کے ان احکامات پر عمل کرنے سے سارے سارے نظام پر فرق نہیں پڑے گا۔

عموماً ، "ربا" کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ، جو مال ، مال سے کمایا جائے تو وہ "ربا" ہے اور حرام ہے۔ مجھے اب تک "ربا" کی ایسی کوئی تعریف، اللہ تعالی کے فرمان قرآن حکیم سے نہیں ملی، اگر کسی صاحب کے علم میں ہو، یا پچھلے 1400 سے زائید سالوں میں کسی بھی مفتی یا عالم نے قرآن حکیم سے کوئی ریفرنس فراہم کیا ہو تو مہربانی فرما کر فراہم کیجئے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم "ربا" کی اس تعریف کو تفسیر بالرائے سے زیادہ اہمیت دیں؟ جبکہ "ربا" کی تعریف و تفسیر بالماثور قرآن حکیم سے بنیادی ماخذ و ریفرنس کے ساتھ دستیاب ہے۔

ایک بار پھر شکریہ۔
والسلام۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
ڈھائی فیصد نصاب صحاح ستہ و دیگر کتب کے باب الزکوة میں درج ہے۔ کچھ احادیث کے ٹکڑے ہدیہ ہیں:

صحیح بخاری
کتاب: زکوۃ کا بیان
باب: باب: بکریوں کی زکوٰۃ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1454

ترجمہ:
اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) واجب ہوگی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سو نوے (درہم) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔

سنن ابوداؤد
کتاب: کتاب الزکوٰة
باب: زکوة کا نصاب
حدیث نمبر: 1558

ترجمہ:
۔۔۔ ١ ؎، پانچ اوقیہ ٢ ؎ سے کم (چاندی) میں زکاۃ نہیں ہے ۔۔۔

وضاحت: ١ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونٹ کا نصاب پانچ اونٹ ہے، اور چاندی کا پانچ اوقیہ، اور غلے اور پھلوں (جیسے کھجور اور کشمش وغیرہ) کا نصاب پانچ وسق ہے، اور سونے کا نصاب دوسری حدیث میں مذکور ہے جو بیس (٢٠) دینار ہے، جس کے ساڑھے سات تولے ہوتے ہیں، یہ چیزیں اگر نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر سال گزر جائے تو سونے اور چاندی میں ہر سال چالیسواں حصہ زکاۃ کا نکالنا ہوگا۔ ٢ ؎: اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے پانچ اوقیہ دو سو درہم کا ہوا، موجودہ وزن کے حساب سے دو سو درہم کا وزن پانچ سو پچانوے (٥٩٥) گرام ہے۔

سنن ابوداؤد
کتاب: کتاب الزکوٰة
باب: چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
حدیث نمبر: 1572

ترجمہ:
۔۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: چالیسواں حصہ نکالو، ہر چالیس (٤٠) درہم میں ایک (١) درہم، اور جب تک دو سو (٢٠٠) درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا، جب دو سو (٢٠٠) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (٥) درہم زکاۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو۔۔۔
 
سنن ابوداؤد
کتاب: کتاب الزکوٰة
باب: چرنے والے جانوروں کی زکوة کا بیان
حدیث نمبر: 1572

ترجمہ:
۔۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: چالیسواں حصہ نکالو، ہر چالیس (٤٠) درہم میں ایک (١) درہم، اور جب تک دو سو (٢٠٠) درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا، جب دو سو (٢٠٠) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (٥) درہم زکاۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو۔۔۔

یہی کچھ ریفرنس اوپر بھی فراہم کیا گیا۔ رسول اکرم سے منسوب اس روایت میں چالیسواں حصہ ، ہم کو قرآن حکیم میں کہیں نہیں ملتا۔ کوئی ریفرنس فراہم کیجئے مہربانی فرما کر۔

یہ ڈھائی فیصد ٹیکس، سال ختم ہونے پر کسی شخص کے اثاثوں پر ہی لاگو ہوسکتا ہے۔ گویا یہ وہ ٹیکس نہیں ہے جس پر ہم اب تک بات کر چکے ہیں۔ اگر کوئی ایسا ٹیکس قرآن حکیم سے ثابت ہے تو وہ پھر اس بیس فی صد سے اضافی ، بطور پراپرٹی ٹیکس شمار ہوگا نا کہ ٹرانسیکشن پر شمار ہوگا؟
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
یہی کچھریفرنس اوپر بھی فراہم کیا گیا۔ رسول اکرم سے منسوب اس روایت میں چالیسواں حصہ ، ہم کو قرآن حکیم میں کہیں نہیں ملتا۔ کوئی ریفرنس فراہم کیجئے مہربانی فرما کر۔

ہمیں نماز کا کوئی طریقہ قرآن کریم میں نہیں ملا۔کوئی ریفرنس فراہم کیجئے مہربانی فرما کر۔
 

سید رافع

محفلین
یہی کچھریفرنس اوپر بھی فراہم کیا گیا۔ رسول اکرم سے منسوب اس روایت میں چالیسواں حصہ ، ہم کو قرآن حکیم میں کہیں نہیں ملتا۔ کوئی ریفرنس فراہم کیجئے مہربانی فرما کر۔

قرآن میں زکوۃ کے چالیسویں حصہ دینے کا حکم موجود نہیں ہے۔

یہ یاد رہے اونٹ پر چالیسواں حصہ نہیں دینا ہوتا۔

یہ بھی یاد رہے کہ فصل پر چالیسواں حصہ نہیں دینا ہوتا۔

یہ بھی یاد رہے کہ پھل پر چالیسواں حصہ نہیں دینا ہوتا۔

پھر کس چیز پر چالیسواں حصہ دینا ہوتا ہے؟

اس چیز کا کیا نام ہے جس پر چالیسواں حصہ دینا ہوتا ہے؟

یہ بات نصاب اور شئے میں تعلق کی یاد دھانی کے لیے کی گئی تاکہ قرآن میں نصاب اور شئے دونوں تلاش کریں۔

قرآن سے زکوۃ کا نصاب کچھ اور ثابت کیا جا سکتا ہے، اگر ان آیات کا انکار کر دیں۔ یہ کہہ دیں کہ یہ احکام اس دور کے لوگوں یا صحابہ تک مخصوص تھے۔ ہم سے ان آیات کو کوئی واسطہ نہیں۔

اور جو کچھ تمھیں رسول دیں ، اسے لے لو ( الحشر : ٧ )

بولیں کہ ہم کیسے رسول ﷺ سے لے سکتے ہیں؟

اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ( محمد : ٣٣ )


بولیں کہ ہم کیسے انکی اطاعت کر سکتے ہیں جب کہ وہ سامنے دکھائی نہیں دیتے؟

اے رسول ، کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ( اٰل عمرٰن : ٣١ )

بولیں کہ ہم انکی تابعداری کیسے کر سکتے ہیں جبکہ وہ حکم دینے کے لیے موجود ہی نہیں ہیں؟
 
ہمیں نماز کا کوئی طریقہ قرآن کریم میں نہیں ملا۔کوئی ریفرنس فراہم کیجئے مہربانی فرما کر۔
کیا آپ اپنا سوال ایک نئے دھاگے میں کرسکتی ہیں؟ نماز کا طریقہ جو آپ درست سمجھتی ہیں، اور کیوں سمجھتی ہیں ، وہاں درج کردیجئے، مجھے ٹیگ کردیجئے، میں وہاں خلوص کے ساتھ جواب دے کر خوشی محسوس کروں گا۔ تاکہ ہم اس دھاگے کو زکواۃ، صدقات، ربا، ٹیکس اور اسلامی معیشیت، اور اسلامی بینکنگ اور اسی قسم کے مالی معاملات تک محدود رکھ سکیں۔
مختصراً عرض یہ ہے کہ یہ بات پہلے بھی ہو چکی ہے ، آپ اس کے لئے یہ دھاگہ ملاحظہ فرمائیے

اگر کوئی سوال رہ جائے تواس دھاگے میں کرلیجئے تاکہ یہ ایک جگہ ہی رہے۔ میں نے آُ کا سوال اور ایک مختصر جواب مندرجہ بالاء دھاگے میں فراہم کردیا ہے۔

بہت شکریہ،
والسلام
 
آخری تدوین:
قرآن میں زکوۃ کے چالیسویں حصہ دینے کا حکم موجود نہیں ہے۔

یہ یاد رہے اونٹ پر چالیسواں حصہ نہیں دینا ہوتا۔

یہ بھی یاد رہے کہ فصل پر چالیسواں حصہ نہیں دینا ہوتا۔

یہ بھی یاد رہے کہ پھل پر چالیسواں حصہ نہیں دینا ہوتا۔

پھر کس چیز پر چالیسواں حصہ دینا ہوتا ہے؟

اس چیز کا کیا نام ہے جس پر چالیسواں حصہ دینا ہوتا ہے؟

یہ بات نصاب اور شئے میں تعلق کی یاد دھانی کے لیے کی گئی تاکہ قرآن میں نصاب اور شئے دونوں تلاش کریں۔

قرآن سے زکوۃ کا نصاب کچھ اور ثابت کیا جا سکتا ہے، اگر ان آیات کا انکار کر دیں۔ یہ کہہ دیں کہ یہ احکام اس دور کے لوگوں یا صحابہ تک مخصوص تھے۔ ہم سے ان آیات کو کوئی واسطہ نہیں۔

اور جو کچھ تمھیں رسول دیں ، اسے لے لو ( الحشر : ٧ )

بولیں کہ ہم کیسے رسول ﷺ سے لے سکتے ہیں؟

اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو ( محمد : ٣٣ )


بولیں کہ ہم کیسے انکی اطاعت کر سکتے ہیں جب کہ وہ سامنے دکھائی نہیں دیتے؟

اے رسول ، کہہ دیجئے ! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو ( اٰل عمرٰن : ٣١ )

بولیں کہ ہم انکی تابعداری کیسے کر سکتے ہیں جبکہ وہ حکم دینے کے لیے موجود ہی نہیں ہیں؟

ان میں سے کس کس نکتے کا ماخذ قرآن حکیم سے ملتا ہے؟ اگر ماخذ قرآن حکیم سے نہیں ملتا تو پھر یہ تو سنی علماء کی رائے ہوئی ، کیوں کہ شیعہ علماء خمس (بیس فی صدزکواہ) کے قائیل ہیں
اگر آپ کی بات مان لی جائے تو سنی کتب روایات نے مکمل طور پر قرآن حکیم کے ٹیکس، ربا، زکواۃ، وغیرہ کے بارے میں حکامات کو ختم کردیا ہے۔ اور اس کی وجہ ہمیں سمجھ آتی ہے کہ بنو امیہ کے بادشاہ ، ریاست مدینہ کو ٹیکس (زکواۃ، صدقات، آتی المال وغیرہ) ادا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ لہذا اپنی مرضی کی روایات کو فروغ دیا ، اور اس طرح مکمل طور پر اپنا "ربا" رکھ لیا، کھا لیا اور بطور پبلک ویلتھ (اموال الناس) ادا نہیں کیا۔ لیکن آج پبلک ویلتھ، کسی بادشاہ کے لئے نہیں ہے۔ آج یہ پبلک ویلتھ (اموال الناس) کیوں نا قرآن حکیم کے ہدایت کردہ طریقے کے مطابق ادا کی جائے۔ کیوں نا "ربا" یا پبلک ویلتھ کھانے کو روکا جائے؟ اور کیوں نا ٹیکس (زکواۃ، صدقات، اتی المال) آرگنائزڈ طریقے سے جمع کیا جائے۔ اس میں میرا کوئی ذاتی فائیدہ نہیں ۔ ہمیں یہی قرآنی نظریات، دنیا کی تمام کامیان معیشیتوں میں نظر آتے ہییں۔ جب تک ان نظریات کو درست نہیں کیا جائے گا ، کس طور درستگی آئے گی۔

بنیادی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حکیم کے مطابق اور بہت سے قریبی صحابہ کے مطابق (تفسیر بالماثور):
1۔ ٹیکس (زکواۃ، صدقات، آتی المال ) بیس فی صد ہے، جو مرکزی حکومت کو ، کمانے یا اضافہ ہونے کے وقت پر ، واجب الادا ہے،
2۔ رباء کھانا ، اموال الناس یعنی پبلگ ویلتھ کو کھانا ہے ناکہ مال کا منافع کھانا رباء ہے۔
3۔ اگر ڈھائی فی صد زکواۃ سالانہ ہے تو یہ پراپرٹی ٹیکس ہے ، کیوں کہ ہر روایت یا فقہ کی کتب میں یہ ڈھائی فی صد ، سالانہ والجب الادا ہے۔

میری رائے (تفسیر بالرائے) میں بنیادی معیشیت کو بہتر بنانے کے لئے ان تصورات کو بہتر سمجھنا بہت ضروری ہے۔ غور فرمائیے۔

والسلام
 

سید رافع

محفلین
30:39] وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم ربا دیتے ہو کہ دولت عوام (پبلک ویلتھ) میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور جو تم زکوٰة دیتے ہو اور اُس سے خدا کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی (دولت عوام) دوگنی، چوگنی ہوتی ہے۔

قرآن توحید یعنی واحد ذات کو پہچاننے کے دوران یکسوئی برقرار رکھنے کی کتاب ہے۔ آپکی یکسوئی ٹوٹ سکتی ہے لیکن اس کلام میں ایک لفظ کجا، ایک حروف بھی اس مقصد سے نہیں ہٹتا۔ اللہ اصل میں ایک بھید ہے اور یہ کتاب قرآن اس بھید کو پہچاننےکی کتاب ہے۔ اس بھید یا ھو کو سمجھنے کے لیے جس قدر یکسوئی کی ضرورت ہے وہ یکسوئی اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔

آیت میں انسان کے کسی دوسرے انسان کو مال دینے کے دو طریقے بیان ہوئے ہیں۔ دونوں سے مال بڑھتا ہے۔ ایک زکاۃ اور ایک اسکا الٹ ربا۔ اس پوری آیت میں چوٹی کا لفظ وَجْهَ ہے۔ ربا میں اضافے کی خواہش انسان لوگوں سے کرتا ہے جبکہ زکاۃ میں وَجْهَ یعنی رخ اللہ کی جانب ہے۔ ایک سے شرک کی وجہ سے یکسوئی ٹوتی ہے جبکہ دوسرے سے توحید سمجھنے کی یکسوئی بڑھتی ہے۔ ربا سے انسان یکسوئی توڑ کر أَمْوَالِ النَّاسِ پر توجہ کر کے مشرک بنتا ہے اور زکاۃ یعنی پاکیزگی سے انسان وَجْهَ یعنی رخ اللہ کی جانب کر کے یکسوئی حاصل کرتا ہے۔ یہ آیت قلب کی توجہ اور قلب میں پیدا ہونے والی نیت کو یکسو کر رہی ہے۔

30:39]دولت عوام (پبلک ویلتھ)

ایک ترجمہ یہ بھی ملاحظہ ہو۔ یہ لفظی ترجمہ ہے۔

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں۔

یہاں أَمْوَالِ کا لفظ معنیٰ خیز ہے۔ یعنی أَمْوَالِ النَّاسِ تو متعین ہے کہ لوگوں کے مال ہیں۔ لیکن اضافہ کس چیز میں ہو متعین نہیں ہے۔ لفظ رِّبًا، لِّيَرْبُوَاْ اور يَرْبُوا تینوں کا معنیٰ اضافہ ہے۔ اسی لیے اس آیت کو مال کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح توحید کی طرف رہنمائی نہیں ہے۔ اصل توحید سے یکسوئی ہٹ جانا یہ ہے کہ اگر کسی نے سلام کیا اور آپ نے جواب وعلیکم السلام کہا لیکن چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اس نیت سے کہ یہ مال دار ہے۔ تو آیت کے مطابق قلب کا وَجْهَ یا رخ اب بھی أَمْوَالِ النَّاسِ ہیں۔ اللہ کا حکم اس انسان پر جاری ہو جائے گا "اور جو تم اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا "۔ نیت دل کے پختہ ارادے کو کہتے ہیں نا کہ غفلت میں کسی عمل کے کر جانے کو۔

قرآن کا یہ انداز ہے کہ کسی نظریے کو واضح کرنے کے لئے ، مخالف الفاظ سے کام لیتا ہے۔ اس آیت سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ زکواۃ دینے کے عمل کا مخالف عمل "ربا لینا ہے"

مزید دیکھئے کہ صدقات اور ربا کے مخالف ہونے کا تعلق
2:276 يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
مٹاتا ہے اللہ "ربا" کو
اور بڑھاتا ہے "صدقات" کو اور اللہ خوش نہیں سارے نا شکرے گنہگار سے

لفظی ترجمے سے پتہ چلتا ہے کہ زکاۃ کا مادہ وہی پاکیزگی ہے جو زکی، ازکی یا تزکیہ کا ہے۔ یعنی زکاۃ اصل میں قلب کی نیت کے رخ کی تبدیلی کی وجہ سے پاک کرتی ہے جس سے قلب کی بھید جاننے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ زکاۃ کی رقم دوسرا انسان ہی استعمال میں لاتا ہے نا کہ اللہ، سو مال غیر اہم ہے، وَجْهَ یا رخ اہم ہے۔ جیسا کہ روزے میں بھوکا رہنا یا قربانی میں جانور کا ذبح کرنا اہم نہیں ہے بلکہ ظاہر سے باطن کی طرف اللہ سے ھو کی طرف منتقل ہونا ہے۔ زکاۃ کا الٹ یا ضدمحض اضافے کی نیت ہے جو لفظ رِّبًا اور لفظ لِّيَرْبُوَاْ سے معلوم ہوتا ہے۔ صرف اضافے کی نیت نتیجہ خیز نہیں ہے۔ اس سے اضافہ نہیں ہو گا۔ ہو گا بھی تو اصل میں نہیں ہوا ہو گا۔

کیونکے زکاۃ کا مادہ وہی پاکیزگی ہے جو زکی، ازکی یا تزکیہ کا ہے سو اسکا برعکس ناپاکی ہی ہو گی۔

يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ کا کچھ کچھ تو سورہ روم 30 آیت 33 سے بھی پتہ چل ہی گیا تھا جو کہ ہم نے اوپر دیکھی۔

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمہارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ میں دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال عند اللہ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں

یہاں يَمْحَقُ (یعنی نیست و نابود) سے اس میں مذید شدت دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی اللہ مٹا دینے کے جلال اور قہر کے ساتھ اس الْرِّبَا پر توجہ کر رہا ہے۔ الْرِّبَا نہ ہوا ایک کافر قوم ہوئی۔ یہ لفظ يَمْحَقُ دو ہی جگہ قرآن میں آیا ہے۔ دوسری جگہ وَيَمۡحَقَ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ (اور کافروں کو مٹا دے) سورہ آل عمران آیت 141 ہے۔

اصل وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ہے جس سے اس کے کفر سے زائد ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی الْرِّبَا کفر تو ہے ہی کیونکہ یکسوئی ختم ہوئی بلکہ گناہ بھی ہے۔ بعض کفر نیکی کی صورت میں ہوتے ہیں جیسا کہ زکاۃ کی رقم غیرمستحق کو حلال سمجھ کر دینا لیکن یہ الْرِّبَا نیکی والا کفر نہیں بلکہ کھلا گناہ ہے کیونکہ اس سے دوسرے انسان الْرِّبَا یعنی اضافہ دینے کی تکلیف سہتے ہیں۔ الْرِّبَا سے دیگر انسان صرف قرض کی مجبوری ہی نہیں سہتے ہیں بلکہ وہ زائد اضافے کی خوشی و خواہش کا ظلم بھی سہتے ہیں۔

ان دو آیات سے یہ واضح ہے کہ "ربا" کا مخالف "صدقات" اور "زکواۃ" ہیں
ربا رکھ لینے یعنی جو رقم زکواہ یا صدقات کی مد میں بطور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ ) میں دی جانئ تھی ، نہیں دی گئی تو وہ ربا ہے؟
الْرِّبَا پر اوپر دی گئی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ خواہش کفر اور گناہ دونوں بیک وقت ہے۔ یہ زکاۃ کا مخالف لفظ ہے۔ زکاۃ پاکیزگی کی قبیل کا لفظ ہے۔ سو اس کا مخالف الْرِّبَا ناپاکی ہوا۔

صدقہ زکاۃ سے علحیدہ لفظ ہے۔ یہ لفظ صدیق یا سچا ہونے کے قبیل کا لفظ ہے۔ زکاۃ تو اس بنیادی پاکیزگی کے لیے ہے جس سے اللہ کے بھید یعنی ھو کے لیے یکسوئی برقرار رہتی ہے۔ جبکہ جو اس بنیادی پاکی سے آگے بڑھ گیا ہے وہ سچا بن جائے گا اور اسکا مال کے متعلق فعل بھی سچا ہو جائے گا جو کہ صدقہ ہے۔


4:161 وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اور اس لئے کہ وہ "ربا" لے لیتے جبکہ وہ اس سے منع کیے گئے تھے اور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ) غلط طور کھا جاتے اور ان میں جو کافر ہوئے ہم نے ان کے لئے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے،
الْرِّبَا کے پبلک ویلتھ ہونے کا سوال تو جب ہوتا کہ جب کہ اسکا اثر كَفَّارٍ أَثِيمٍ کے قبیل کا نہ ہوتا۔ عوام کی دولت صحیح طور اور غلط طور پر کھانے کا فرق وَجْهَ یعنی قلب کے رخ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جس اضافے میں قلب کا رخ لوگوں کی طرف رہے وہی مال کے معاملے میں کافر ہیں۔ انہی کے لیےعَذَابًا أَلِيمًا یعنی المناک عذاب تیار کر رکھا گیا ہے۔

گویا "زکوۃ " یا "صدقات " کا رکھ لینا یا کھا جانا ، "ربا کھا جانا ہے" کیونکہ ربا رکھ لینا یا کھا جانات ، زکواہ یا صدقات دینے ، دونوں کا مخالف عمل ہے ، ربا رکھ لینے سے عوام کی دولت( أَمْوَالَ النَّاسِ) میں کمی آتی ہے۔
زکاۃ ادا کرنے سے بھی انسانوں کے اموال میں کمی ہی آتی ہے۔ ہر سو روپے میں سے ڈھائی روپے سال گزرنے پر کم ہو جاتے ہیں۔ أَمْوَالَ النَّاسِ کو پبلک ویلتھ یا زکاۃ کی مد میں جمع کی ہوئی رقم کہنا کس قرینے سے ہے؟ لفظ أَمْوَالَ کے معنیٰ مالوں اور النَّاسِ انسانوں ہے۔ سو یہ انسانوں کے مالوں میں سے لینا تو ہو سکتا ہے پبلک ویلتھ یا عوام کی دولت جو کہ وزارت خزانہ یا بیت مال جمع کرتا ہے کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے تو الْرِّبَا کی آیات وزارت خزانہ، بیت المال اور ٹیکس کے محکمے میں کام کرنے والوں سے متعلق ہوئیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

زکواۃ یا صدقات کا مقصد کیا ہے، یہ کس کس پر خرچ کی جائے گی؟

9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بیشک صدقات (زکوٰۃ) ، غریبوں اور محتاجوں(پبلک ویلفئیر) اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں(آئی آر ایس یا ایف بی آر) اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(تعلیم کی سہولت) اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں (پبلک ریلیف) اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک ڈیبٹ ریلیف) اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر)(ڈیفنس آف آئیدیالوجیکل سٹیٹ) اور مسافروں پر (ذریاع سفر، ٹرانسپورٹ انفرا سٹرکچر) پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

یہ اصلاً صدقات کے مصارف ہیں نہ کہ زکاۃ کے۔ صدقہ میں زکاۃ بھی آ جاتی ہے لیکن زکاۃ میں صدقہ نہیں آتا۔ زکاۃ بھی ان لوگوں کو مستحقین زکاۃ ہونے کی صورت میں دی جا سکتی ہے۔ زکوۃ کے مصارف کتب احادیث کے باب الزکوۃ میں درج ہیں، کچھ یہاں دیکھیں۔ مثلا اگرچہ شوہر غریب ہو اور لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ کی قبیل کا ہو لیکن اسکو زکاۃ نہیں دی جا سکتی البتہ صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے غریب والدین اگرچہ امریکہ ملنے کے لیے آئیں وہ وَابْنِ السَّبِيلِ ہیں لیکن لڑکی اپنے والدین کو زکاۃ کی رقم نہیں دے سکتی البتہ صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سید زادہ چاہے وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ کے قبیل کا ہو اسکو زکاۃ نہیں دی جا سکتی۔

صدقات یعنی زکواۃ نا دینے والوں یعنی ربا کھا جانے والوں کے ساتھ کیا ہوگا؟
2:275 - الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَ۔ئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو لوگ "ربا" کھاجاتے ہیں وہ کبھی کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو ربا کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور رباء کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

صدقات یعنی زکواۃ نا دینے والوں یعنی ربا کھا جانے والوں کے ساتھ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ زکاۃ کی ادا نہ کی جانے والی رقم کو اضافے والی رقم یا ربا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ نا ادا کی جانے والی رقم اسی کے پاس رہی اور أَمْوَالَ النَّاسِ میں شامل ہی نہ ہوئی۔ جبکہ اوپر سورہ روم آیت 33 کی آیت میں صاف طور پر ظاہر ہے کہ ربا کا أَمْوَالِ النَّاسِ میں ملنا ضروری ہے۔ اسکو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں۔

جن لوگوں کو الرِّبَا کے کفر میں آخرت میں سزا دی جائے گی وہ اس لیے نہیں کہ انہوں نے زکاۃ ادا نہیں کی بلکہ انکا جرم یہ بیان کیا گیا کہ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو ربا کی مانند ہے۔ یعنی وہ الرِّبَا کو الْبَيْعَ کے مخالف نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس جیسا سمجھتے تھے۔

واللہ اعلم و رسول اعلم ﷺ۔
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ
30:39] وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم ربا دیتے ہو کہ دولت عوام (پبلک ویلتھ) میں اضافہ ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور جو تم زکوٰة دیتے ہو اور اُس سے خدا کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو یہ وہ لوگ ہیں جن کی (دولت عوام) دوگنی، چوگنی ہوتی ہے۔

قرآن توحید یعنی واحد ذات کو پہچاننے کے دوران یکسوئی برقرار رکھنے کی کتاب ہے۔ آپکی یکسوئی ٹوٹ سکتی ہے لیکن اس کلام میں ایک لفظ کجا، ایک حروف بھی اس مقصد سے نہیں ہٹتا۔ اللہ اصل میں ایک بھید ہے اور یہ کتاب قرآن اس بھید کو پہچاننےکی کتاب ہے۔ اس بھید یا ھو کو سمجھنے کے لیے جس قدر یکسوئی کی ضرورت ہے وہ یکسوئی اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔

آیت میں انسان کے کسی دوسرے انسان کو مال دینے کے دو طریقے بیان ہوئے ہیں۔ دونوں سے مال بڑھتا ہے۔ ایک زکاۃ اور ایک اسکا الٹ ربا۔ اس پوری آیت میں چوٹی کا لفظ وَجْهَ ہے۔ ربا میں اضافے کی خواہش انسان لوگوں سے کرتا ہے جبکہ زکاۃ میں وَجْهَ یعنی رخ اللہ کی جانب ہے۔ ایک سے شرک کی وجہ سے یکسوئی ٹوتی ہے جبکہ دوسرے سے توحید سمجھنے کی یکسوئی بڑھتی ہے۔ ربا سے انسان یکسوئی توڑ کر أَمْوَالِ النَّاسِ پر توجہ کر کے مشرک بنتا ہے اور زکاۃ یعنی پاکیزگی سے انسان وَجْهَ یعنی رخ اللہ کی جانب کر کے یکسوئی حاصل کرتا ہے۔ یہ آیت قلب کی توجہ اور قلب میں پیدا ہونے والی نیت کو یکسو کر رہی ہے۔

30:39]دولت عوام (پبلک ویلتھ)

ایک ترجمہ یہ بھی ملاحظہ ہو۔ یہ لفظی ترجمہ ہے۔

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں۔

یہاں أَمْوَالِ کا لفظ معنیٰ خیز ہے۔ یعنی أَمْوَالِ النَّاسِ تو متعین ہے کہ لوگوں کے مال ہیں۔ لیکن اضافہ کس چیز میں ہو متعین نہیں ہے۔ لفظ رِّبًا، لِّيَرْبُوَاْ اور يَرْبُوا تینوں کا معنیٰ اضافہ ہے۔ اسی لیے اس آیت کو مال کے ساتھ مخصوص کرنا صحیح توحید کی طرف رہنمائی نہیں ہے۔ اصل توحید سے یکسوئی ہٹ جانا یہ ہے کہ اگر کسی نے سلام کیا اور آپ نے جواب وعلیکم السلام کہا لیکن چہرے پر مسکراہٹ آ گئی اس نیت سے کہ یہ مال دار ہے۔ تو آیت کے مطابق قلب کا وَجْهَ یا رخ اب بھی أَمْوَالِ النَّاسِ ہیں۔ اللہ کا حکم اس انسان پر جاری ہو جائے گا "اور جو تم اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا "۔ نیت دل کے پختہ ارادے کو کہتے ہیں نا کہ غفلت میں کسی عمل کے کر جانے کو۔

قرآن کا یہ انداز ہے کہ کسی نظریے کو واضح کرنے کے لئے ، مخالف الفاظ سے کام لیتا ہے۔ اس آیت سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ زکواۃ دینے کے عمل کا مخالف عمل "ربا لینا ہے"

مزید دیکھئے کہ صدقات اور ربا کے مخالف ہونے کا تعلق
2:276 يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
مٹاتا ہے اللہ "ربا" کو
اور بڑھاتا ہے "صدقات" کو اور اللہ خوش نہیں سارے نا شکرے گنہگار سے

لفظی ترجمے سے پتہ چلتا ہے کہ زکاۃ کا مادہ وہی پاکیزگی ہے جو زکی، ازکی یا تزکیہ کا ہے۔ یعنی زکاۃ اصل میں قلب کی نیت کے رخ کی تبدیلی کی وجہ سے پاک کرتی ہے جس سے قلب کی بھید جاننے کی استعداد بڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ زکاۃ کی رقم دوسرا انسان ہی استعمال میں لاتا ہے نا کہ اللہ، سو مال غیر اہم ہے، وَجْهَ یا رخ اہم ہے۔ جیسا کہ روزے میں بھوکا رہنا یا قربانی میں جانور کا ذبح کرنا اہم نہیں ہے بلکہ ظاہر سے باطن کی طرف اللہ سے ھو کی طرف منتقل ہونا ہے۔ زکاۃ کا الٹ یا ضدمحض اضافے کی نیت ہے جو لفظ رِّبًا اور لفظ لِّيَرْبُوَاْ سے معلوم ہوتا ہے۔ صرف اضافے کی نیت نتیجہ خیز نہیں ہے۔ اس سے اضافہ نہیں ہو گا۔ ہو گا بھی تو اصل میں نہیں ہوا ہو گا۔

کیونکے زکاۃ کا مادہ وہی پاکیزگی ہے جو زکی، ازکی یا تزکیہ کا ہے سو اسکا برعکس ناپاکی ہی ہو گی۔

يَمْحَقُ اللّهُ الْرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ کا کچھ کچھ تو سورہ روم 30 آیت 33 سے بھی پتہ چل ہی گیا تھا جو کہ ہم نے اوپر دیکھی۔

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ (تمہارا اثاثہ) لوگوں کے مال میں مل کر بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوٰۃ میں دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال عند اللہ) کثرت سے بڑھانے والے ہیں

یہاں يَمْحَقُ (یعنی نیست و نابود) سے اس میں مذید شدت دیکھی جا سکتی ہے۔ یعنی اللہ مٹا دینے کے جلال اور قہر کے ساتھ اس الْرِّبَا پر توجہ کر رہا ہے۔ الْرِّبَا نہ ہوا ایک کافر قوم ہوئی۔ یہ لفظ يَمْحَقُ دو ہی جگہ قرآن میں آیا ہے۔ دوسری جگہ وَيَمۡحَقَ الۡكٰفِرِيۡنَ‏ (اور کافروں کو مٹا دے) سورہ آل عمران آیت 141 ہے۔

اصل وَاللّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ ہے جس سے اس کے کفر سے زائد ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ یعنی الْرِّبَا کفر تو ہے ہی کیونکہ یکسوئی ختم ہوئی بلکہ گناہ بھی ہے۔ بعض کفر نیکی کی صورت میں ہوتے ہیں جیسا کہ زکاۃ کی رقم غیرمستحق کو حلال سمجھ کر دینا لیکن یہ الْرِّبَا نیکی والا کفر نہیں بلکہ کھلا گناہ ہے کیونکہ اس سے دوسرے انسان الْرِّبَا یعنی اضافہ دینے کی تکلیف سہتے ہیں۔ الْرِّبَا سے دیگر انسان صرف قرض کی مجبوری ہی نہیں سہتے ہیں بلکہ وہ زائد اضافے کی خوشی و خواہش کا ظلم بھی سہتے ہیں۔

ان دو آیات سے یہ واضح ہے کہ "ربا" کا مخالف "صدقات" اور "زکواۃ" ہیں
ربا رکھ لینے یعنی جو رقم زکواہ یا صدقات کی مد میں بطور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ ) میں دی جانئ تھی ، نہیں دی گئی تو وہ ربا ہے؟
الْرِّبَا پر اوپر دی گئی وضاحت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ خواہش کفر اور گناہ دونوں بیک وقت ہے۔ یہ زکاۃ کا مخالف لفظ ہے۔ زکاۃ پاکیزگی کی قبیل کا لفظ ہے۔ سو اس کا مخالف الْرِّبَا ناپاکی ہوا۔

صدقہ زکاۃ سے علحیدہ لفظ ہے۔ یہ لفظ صدیق یا سچا ہونے کے قبیل کا لفظ ہے۔ زکاۃ تو اس بنیادی پاکیزگی کے لیے ہے جس سے اللہ کے بھید یعنی ھو کے لیے یکسوئی برقرار رہتی ہے۔ جبکہ جو اس بنیادی پاکی سے آگے بڑھ گیا ہے وہ سچا بن جائے گا اور اسکا مال کے متعلق فعل بھی سچا ہو جائے گا جو کہ صدقہ ہے۔


4:161 وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
اور اس لئے کہ وہ "ربا" لے لیتے جبکہ وہ اس سے منع کیے گئے تھے اور عوام کی دولت (پبلک ویلتھ) غلط طور کھا جاتے اور ان میں جو کافر ہوئے ہم نے ان کے لئے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے،
الْرِّبَا کے پبلک ویلتھ ہونے کا سوال تو جب ہوتا کہ جب کہ اسکا اثر كَفَّارٍ أَثِيمٍ کے قبیل کا نہ ہوتا۔ عوام کی دولت صحیح طور اور غلط طور پر کھانے کا فرق وَجْهَ یعنی قلب کے رخ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جس اضافے میں قلب کا رخ لوگوں کی طرف رہے وہی مال کے معاملے میں کافر ہیں۔ انہی کے لیےعَذَابًا أَلِيمًا یعنی المناک عذاب تیار کر رکھا گیا ہے۔

گویا "زکوۃ " یا "صدقات " کا رکھ لینا یا کھا جانا ، "ربا کھا جانا ہے" کیونکہ ربا رکھ لینا یا کھا جانات ، زکواہ یا صدقات دینے ، دونوں کا مخالف عمل ہے ، ربا رکھ لینے سے عوام کی دولت( أَمْوَالَ النَّاسِ) میں کمی آتی ہے۔
زکاۃ ادا کرنے سے بھی انسانوں کے اموال میں کمی ہی آتی ہے۔ ہر سو روپے میں سے ڈھائی روپے سال گزرنے پر کم ہو جاتے ہیں۔ أَمْوَالَ النَّاسِ کو پبلک ویلتھ یا زکاۃ کی مد میں جمع کی ہوئی رقم کہنا کس قرینے سے ہے؟ لفظ أَمْوَالَ کے معنیٰ مالوں اور النَّاسِ انسانوں ہے۔ سو یہ انسانوں کے مالوں میں سے لینا تو ہو سکتا ہے پبلک ویلتھ یا عوام کی دولت جو کہ وزارت خزانہ یا بیت مال جمع کرتا ہے کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے تو الْرِّبَا کی آیات وزارت خزانہ، بیت المال اور ٹیکس کے محکمے میں کام کرنے والوں سے متعلق ہوئیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

زکواۃ یا صدقات کا مقصد کیا ہے، یہ کس کس پر خرچ کی جائے گی؟

9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بیشک صدقات (زکوٰۃ) ، غریبوں اور محتاجوں(پبلک ویلفئیر) اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں(آئی آر ایس یا ایف بی آر) اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(تعلیم کی سہولت) اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں (پبلک ریلیف) اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک ڈیبٹ ریلیف) اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر)(ڈیفنس آف آئیدیالوجیکل سٹیٹ) اور مسافروں پر (ذریاع سفر، ٹرانسپورٹ انفرا سٹرکچر) پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے

یہ اصلاً صدقات کے مصارف ہیں نہ کہ زکاۃ کے۔ صدقہ میں زکاۃ بھی آ جاتی ہے لیکن زکاۃ میں صدقہ نہیں آتا۔ زکاۃ بھی ان لوگوں کو مستحقین زکاۃ ہونے کی صورت میں دی جا سکتی ہے۔ زکوۃ کے مصارف کتب احادیث کے باب الزکوۃ میں درج ہیں، کچھ یہاں دیکھیں۔ مثلا اگرچہ شوہر غریب ہو اور لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ کی قبیل کا ہو لیکن اسکو زکاۃ نہیں دی جا سکتی البتہ صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لڑکی کے غریب والدین اگرچہ امریکہ ملنے کے لیے آئیں وہ وَابْنِ السَّبِيلِ ہیں لیکن لڑکی اپنے والدین کو زکاۃ کی رقم نہیں دے سکتی البتہ صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سید زادہ چاہے وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ کے قبیل کا ہو اسکو زکاۃ نہیں دی جا سکتی۔

صدقات یعنی زکواۃ نا دینے والوں یعنی ربا کھا جانے والوں کے ساتھ کیا ہوگا؟
2:275 - الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لاَ يَقُومُونَ إِلاَّ كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُوْلَ۔ئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو لوگ "ربا" کھاجاتے ہیں وہ کبھی کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو ربا کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور رباء کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

صدقات یعنی زکواۃ نا دینے والوں یعنی ربا کھا جانے والوں کے ساتھ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ زکاۃ کی ادا نہ کی جانے والی رقم کو اضافے والی رقم یا ربا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ نا ادا کی جانے والی رقم اسی کے پاس رہی اور أَمْوَالَ النَّاسِ میں شامل ہی نہ ہوئی۔ جبکہ اوپر سورہ روم آیت 33 کی آیت میں صاف طور پر ظاہر ہے کہ ربا کا أَمْوَالِ النَّاسِ میں ملنا ضروری ہے۔ اسکو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوا عِندَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
اور جو تم اضافہ پر دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں مل کراضافہ ہوتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک اضافہ نہ ہو گا اور جو مال تم پاکیزہ ہونے کو دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ کثرت سے بڑھانے والے ہیں۔

جن لوگوں کو الرِّبَا کے کفر میں آخرت میں سزا دی جائے گی وہ اس لیے نہیں کہ انہوں نے زکاۃ ادا نہیں کی بلکہ انکا جرم یہ بیان کیا گیا کہ قَالُواْ إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وہ کہتے تھے کہ تجارت بھی تو ربا کی مانند ہے۔ یعنی وہ الرِّبَا کو الْبَيْعَ کے مخالف نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس جیسا سمجھتے تھے۔

واللہ اعلم و رسول اعلم ﷺ۔
 

سید رافع

محفلین
شیعہ علماء خمس (بیس فی صدزکواہ) کے قائیل ہیں
آپکی یہ معلومات صحیح نہیں۔ شیعہ بھی چالیسواں حصہ زکاۃ کا ادا کرتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی جو کہ اس دور بڑے شیعہ عالم ہیں انکی ویب سائٹ پر یہی لکھا ہے کہ شیعہ ۴۰؍۱ بطورزکوٰۃ دے:

( ۱۰۵؍)مروجہ مثقال ہے لہٰذاجب چاندی کی مقدار( ۱۰۵؍) مثقال تک پہنچ جائے اور وہ دوسری شرائط بھی پوری کرتی ہوجو بیان کی جاچکی ہیں تو ضروری ہے کہ انسان اس کا(۴۰؍۱ )جودومثقال اور( ۱۵؍)نخودبنتاہے بطورزکوٰۃ دے اور اگروہ اس مقدارتک نہ پہنچے تواس پرزکوٰۃ واجب نہیں ہے۔


Ali_Sistani_edit1.jpg


شیعہ خمس بھی دیتے ہیں جو کہ الگ عبادت ہے۔ خمس زکاۃ نہیں۔ زکاۃ خمس نہیں۔ یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ اگر آپکا واقعی مال کی للہی حقیقت تک پہچنے کا ارادہ ہے تو الفاظ اور اسکے دائرہ کار کو عدل و انصاف سے سمجھنا ہو گا۔ ورنہ کسی کا نہیں آپکا اپنا نقصان ہے۔ خمس کا تعلق مال غنیمت سے ہے جسکو شیعہ نے بڑھا کر ہر ہر شئے سے کر دیا جسکا تعلق زکاۃ سے ہے۔ یہ رد عمل ہے۔ جیسے کہ تبرا و لعنت اسلامی عبادت نہیں لیکن کیونکہ اولین دور میں سنی تبرا و لعنت کرتے تھے چنانچہ اس سے ضایع ہونے والے دین کو بچانے کے لیے آج ایسی مذموم چیزیں اسلامی دنیا میں باقی ہیں۔ اصول یہ ہے کہ اولین زیادتی کرنے والا (یعنی سنی مسلم) زیادہ سزا کا مستحق ہے لیکن اس کی وجہ سے قرآن نہیں بدلا جائے گا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ خمس اور زکاۃ ایک ہی چیز ہے۔ یہ عدل کے خلاف ہے۔ آپ نہ ہی سنی کا ساتھ دیں نہ ہی شیعہ کا، بلکہ قرآن کے عدل کو تھام لیں اور ان لڑنے والے گروہوں کے درمیان صلح کی سبیل کریں یا کم از کم ایک ایسا گروہ پیدا کریں جو انکے درمیان صلح عدل کے ساتھ کرنے کا خواہشمند ہو۔ یہ سب سے اچھا کام ہو گا۔

اگر آپ کی بات مان لی جائے تو سنی کتب روایات نے مکمل طور پر قرآن حکیم کے ٹیکس، ربا، زکواۃ، وغیرہ کے بارے میں حکامات کو ختم کردیا ہے
یہ آپ کو غلط فہمی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں شور مچ جاتا اگر ایسی علمی چوری ہوتی۔ قرآن میں کہاں ٹیکس کا لفظ آیا ہے؟ ربا تو کفر ہے اور مسلم کو زیب نہیں دیتا کہ اضافہ طلب کرے۔ زکاۃ کے احکام شیعہ و سنی کچھ تفصیلات کے فرق (خاص کر بینک میں جمع رقم) سے وہی ہیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔ سنی کتب روایات یعنی صحاح ستہ و دیگر کتب آجکل موبائل فون پر دستاب ہیں۔ آپ اس ایپ میں ہی حدیث کی کتب میں باب زکاۃ دیکھ لیں۔

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.atq.quranemajeedapp.org.islamone&hl=en

اور اس کی وجہ ہمیں سمجھ آتی ہے کہ بنو امیہ کے بادشاہ ، ریاست مدینہ کو ٹیکس (زکواۃ، صدقات، آتی المال وغیرہ) ادا نہیں کرنا چاہتے تھے ۔

بنو امیہ کی خلافت میں کوئی ریاست مدینہ نہ تھی۔ آپ کو یہ غلط فہمی ہے۔ ہاں خمس کیونکہ اہل بیت کا سیدھا سیدھا حق تھا تو وہ خوب خوب دبایا گیا۔ 85 برس تک بنو امیہ منبروں پر جناب علی علیہ السلام کو گالیاں دیتے۔ یہ ہمارے اولین دور میں جمعے کے خطبے تھے۔ عمر بن عبد العزیز رح نے اس فعل قبیح کو ختم فرمایا۔ شیعہ آج بھی لعنت کی رسم جاری رکھتے ہیں تو وہ اسی دور کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس سے آپکو یاددھانی ہوتی ہے کہ قرآن کے مطالب جاننے میں چوکنے رہیں۔ ورنہ نہ ہی اللہ کے بھید کو پا سکیں گے اور نہ ہی ایسا ایمان ملے گا جس سے اس کام میں یکسوئی ملے۔

لہذا اپنی مرضی کی روایات کو فروغ دیا ، اور اس طرح مکمل طور پر اپنا "ربا" رکھ لیا، کھا لیا اور بطور پبلک ویلتھ (اموال الناس) ادا نہیں کیا۔

مرضی کی روایات کو فروغ دینے کی بات صحیح ہے۔ باقی ربا یا اضافہ طلب کرنا تو فعل شنیع ہے۔ اموال الناس کی بحث تو آپ یقیناً اوپر دیکھ ہی چکے ہوں گے۔

آج یہ پبلک ویلتھ (اموال الناس) کیوں نا قرآن حکیم کے ہدایت کردہ طریقے کے مطابق ادا کی جائے۔ کیوں نا "ربا" یا پبلک ویلتھ کھانے کو روکا جائے؟ اور کیوں نا ٹیکس (زکواۃ، صدقات، اتی المال) آرگنائزڈ طریقے سے جمع کیا جائے۔ اس میں میرا کوئی ذاتی فائیدہ نہیں ۔ ہمیں یہی قرآنی نظریات، دنیا کی تمام کامیان معیشیتوں میں نظر آتے ہییں۔ جب تک ان نظریات کو درست نہیں کیا جائے گا ، کس طور درستگی آئے گی۔

ٹیکس سے منظم طریقے سے جمع ہو ہی رہا ہے۔ زکاۃ کو جمع کرنے کا بھی ادارہ ہے ہی۔ لیکن ربا زکاۃ ادا نہ کیے جانے والی رقم نہیں۔

بنیادی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن حکیم کے مطابق اور بہت سے قریبی صحابہ کے مطابق (تفسیر بالماثور):
1۔ ٹیکس (زکواۃ، صدقات، آتی المال ) بیس فی صد ہے، جو مرکزی حکومت کو ، کمانے یا اضافہ ہونے کے وقت پر ، واجب الادا ہے،
یہ صحیح نہیں۔ زکاۃ سونے چاندی پر ڈھائی فیصد اور جنگ کا مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ، اسکے رسول ﷺ اور انکی آل مبارک و دیگر کا ہے۔ خمس کا تعلق کمائی یا فائدے سے نہیں۔ بلکہ جنگ کے مال غنیمت سے ہے۔ چاہے جنگ کیے بغیر صرف قیام سے ہی حاصل ہو جائے۔

2۔ رباء کھانا ، اموال الناس یعنی پبلگ ویلتھ کو کھانا ہے ناکہ مال کا منافع کھانا رباء ہے۔
یہ صحیح نہیں۔اسکی بحث تو آپ یقیناً اوپر دیکھ ہی چکے ہوں گے۔

3۔ اگر ڈھائی فی صد زکواۃ سالانہ ہے تو یہ پراپرٹی ٹیکس ہے ، کیوں کہ ہر روایت یا فقہ کی کتب میں یہ ڈھائی فی صد ، سالانہ والجب الادا ہے۔
زکاۃ بچ جانے والے مال، فصل، جانور پر سال گزرنے کے بعد ادا ہوتا ہے۔ سو یہ پراپرٹی یا جائداد کا ٹیکس نہیں۔ ہاں پراپرٹی ٹیکس زکاۃ کے کل کا ایک حصہ ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی پراپرٹی کا مالک ہی نہ ہو جیسا کہ رینٹ کے مکان میں رہتا ہو تب بھی اسے سونے پر زکاۃ دینی ہو گی اگر وہ نصاب سے زائد ہے۔
 
Top