غنمتم ، خمس کیا ہے؟
سورۃ انفال آیت نمبر 41
8:41
وَاعْلَمُواْ أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلّهِ خُمُسَهُ
وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُمْ بِاللّهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اور جان لو کہ کسی بھی شے سے ہونے والی بڑھوتری( ٹیکس ادا کرنے سے پہلے منافع) کا پانچواں حصہ اللہ کے لئے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں کے لئے (ہے) اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہے۔ اگر تم اللہ پر اور اس (وحی) پر ایمان لائے ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے دن نازل فرمائی وہ دن (جب میدانِ بدر میں مومنوں اور کافروں کے) دونوں لشکر باہم مقابل ہوئے تھے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے
مندرجہ بالاء آیت میں کسی بھی اضافہ یا بڑھوتری کا پانچواں حصہ، اللہ اور رسول کا حق ہے اور مندرجہ بالاء کیٹیگریز میں خرچ ہوگا۔
سنی فقہ میں "غنمتم" کے معانی - مال غنیمت - کے کئے گئے ہیں جبکہ شیعہ فقہ میں "غنمتم " کے معانی اضافہ ، بڑھوتری کے کئے گئے ہیں۔ ریفرنس کے لئے دیکھئے
ان میں سے کونسے معانی درست ہیں؟
اس کا جواب ہم کو قرآن کریم کی ان آیات سے ملتا ہے 4:94 ، 6:146 ، 8:69 ، 20:18 ، 21:78، 48:15، 48:19، 48:20
ان سب آیات میں "غنم" کے معانی، فائیدہ، اضافہ یا بڑھوتری کے ہیں، مال غنیمت کے لئے اللہ تعالی لفظ "انفال" استعمال کرتےہیں
غنم کے معانی درج ذیل آیت میں مترجمین نے جنگ میں ہاتھ آیا ہوا مال غنیمت قرار دیا ہے۔
4:94 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ فَتَبَيَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا
تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِندَ اللّهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذَلِكَ كُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللّهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُواْ إِنَّ اللّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے،
تم دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے
کیا یہ لوگ اب اللہ تعالی سے جنگ کرکے مال غنیمت حاصل کریں گے؟
یہاں بہتر ترجمہ یہ ہوگا کہ
اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے،
تم دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو اللہ کے پاس بہت فائیدے ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے
ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں کہ ہم "غنم" کے معانی صرف اور صرف میدان جنگ میں ہونے والے فائیدے ، اضافے یا بڑھوتری تک محدود رکھیں۔ پھر اس بڑھوتری پر صرف 20 فیصد اللہ اور اس کے رسول اکرم کا حق ہے۔ جبہ سورۃ انفال کی آیت نمبر 1 کے مطابق، انفال ، یعنی مال غنیمت سو فی صد اللہ اور اس کے رسول اکرم کا حق ہے۔
یہان یہ ثابت ہوتا ہے کہ زکواۃ یا صدقات کی مقدار 20 فی صد ہے۔ جو کہ اسی وقت واجب الادا ہے جس وقت بڑھوتری ہوئی۔ دیگر یہ کہ تمام زرعی بڑھوتری پر بھی یہی پانچواں حصہ واجب الادا ہے۔ کم از کم مجھے قرآں حکیم میں کوئی دوسری شرح زکواۃ کی نہیں ملتی ہے۔ اگر آپ کے علم قرآن حکیم کی ایسی کوئی آیت ہے تو میں ہے تو مہربانی فرما کر آگاہ فرمائیے۔
6:141 وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ
وَآتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اور اسی نے وہ باغ پیدا کیے جو چھتو ں پر چڑھائے جاتے ہیں او رجو نہیں چڑھائے جاتے اور کھجور کے درخت او رکھیتی جن کے پھل مختلف ہیں اور زیتون اور انار پیدا کیے جو ایک دوسرے سے مشابہ اور جدا جدا بھی ہیں ان کے پھل کھاؤ جب وہ پھل لائیں
اور جس دن اسے کاٹو اس کا حق ادا کردو اور بے جا خرچ نہ کرو بے شک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا
صدقات اور زکواہ کی وصول شدہ یہ رقومات کے خرچ کرنے کے بارے میں قرآن حکیم دو مزید آیات میں حکم فراہم کرتا ہے
9:60 إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بیشک صدقات (زکوٰۃ) ، غریبوں اور محتاجوں(1۔ پبلک ویلفئیر) اور 2- ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں(آئی آر ایس یا ایف بی آر) اور 3- ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو(تعلیم کی سہولت) اور (مزید یہ کہ) 4 انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں (پبلک ریلیف) اور 6 - قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں (پبلک ڈیبٹ ریلیف) اور 7- اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر)(ڈیفنس آف آئیدیالوجیکل سٹیٹ) اور 8- مسافروں پر (ذرائع سفر، ٹرانسپورٹ انفرا سٹرکچر) پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے
یہ 8 کیٹیگریز بنتی ہیں۔ ڈھائی فی صد کا حساب ، اموی خلفاء کے دور میں اسی آیت سے آیا ہے، جس میں علما نے تعلیم ، مدارس کی مد میں آٹھواں حصہ ، یعنی ڈھائی فی صد اپنے لئے قرار دیا، جو آج تک مدارس، مساجد کو لوگ دیتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی بڑھوتری کا تمام کا تمام 20 فی صد ، وفاقی ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کو ادا کیا جائے ، اور وہ یہ طے کریں کہ کسے محکمے کو کتنا ضروری ہے۔
ہم کو سورۃ بقرۃ ، آیت نمبر 177 میں بھی یہی ہدایت نظر آتی ہے۔
2: 177 لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَ۔كِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَ۔ئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَ۔ئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا)
مال قرابت داروں پر اور
یتیموں پر اور
محتاجوں پر اور
مسافروں پر اور
مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور
زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں
وہ رقم جو زکواۃ کی مد میں ادا کرنا فرض ہے، یہ اللہ کا حق ہے اور جو اس کو کھا گیا اس نے "ربا" یعنی اضافہ میں اللہ کا حق کھایا۔ جو قومیں اتنا ٹیکس (زکواۃ) ادا نہیں کرتی ہیں ، نا ان کے پاس ویلفئیر سسٹم ہوتا ہے، نا ان کے پاس تعلیم نظام کے لئے پیسہ ہوتا ہے، نا وہ صحت کے شعبے میں خرچ کرنے کے قابل ہوتے ہیں ، نا ان کا انفرا سٹرکچر بن پاتا ہے ، نا ہی ان کے پاس پبلک ڈیبٹ ریلیف سسٹم موجود ہوتا ہے، نا ہی وہ اپنے لوگوں کی گردن چھڑا سکتے ہیں، نا ہی وہ پبلک سرونٹس (مساکین) کی تنخواہین ادا کرسکتے ہیں۔ نا ہو وہ یتیموں کا خاطر خواہ انتظام کرسکتے ہیں۔ نا ہی ان کا دفاع مظبوط ہوتا ہے۔ یہ ہی وہ بے برکتی ہے جس کا تذکرہ (اوپر) 2:276 میں کیا ہے کہ "ربا" کھا جانے سے اللہ برکت نہیں دیتا، بلکہ برکت تو زکواہ (ٹیکس ) دینے سے ہوتی ہے۔
جب لوگ "ربا" کھا جاتے ہیں ، تو زکواۃ کم ہوجاتی ہے، پبلک ویلتھ (اموال الناس 4:161 ) کم ہوجاتی ہے، اور غربت عام ہوجاتی ہے۔
جب کسی بھی قوم کی آمدنی کا 20 فی صد حصہ مائع حالت میں اس قوم پر دولت کی گردش کا باعث بنتا ہے تو پھر ترقی ہوتی ہے ، برکت ہوتی ہے۔
آپ سب کی خدمت کے لئے میں نے ان آیات کو جمع کردیا ہے۔ ترجمے تمام کے تمام دوسرے مترجمین کے ہیں۔ بریکٹ میں انگریزی الفاظ کا اضافہ میں نے میکرو اکنامک پکچر کے لحاظ سے کیا ہے
کچھ میرے بارے میں : 2003 سے 2007 تک میں نے لائین لائین کرکے عربی کی آیات کے 27 تراجم اوپن برہان پر لگائے، قرآن حکیم کے تراجم 27 بار پڑھنے کے باعث ، یہ ذہن میں رہ گیا کہ یہ بات کس آیت میں ملے گی۔ اوپن برہان کی شکل میں ایک اچھا ریفرنس تیار ہوگیا ، جس میں کسی بھی لفظ کو دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ کن آیات مین کس معانی میں استعمال ہوا ہے۔ اور تمام الفاظ کو ان کے روٹ ورڈ کی مدد سے آپس میں تعلق قائم کیا، جس کی مدد سے کسی بھی لفظ سے بننے والے دوسرے الفاظ کو پڑھا اور تحقیق کی جاسکتی ہے۔ کتاب آپ کے سامنے ہے، یہ اوزار آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنی ریسرچ کیجئے ، آپ سب پڑھے لکھے ہیں۔ فیصلہ آپ خود کیجئے اور ہدایت اللہ تعالی سے مانگئے۔
اسلامی ملکوں کے تباہ شدہ معیشیت کی واحد وجہ زکواۃ کی آرگنائزڈ ادائیگی کی کمی ہے۔ جب ٹیکس ادا ہوگا تو معاملات خود بہتری کی طرف مائیل ہوجائیں گے
انشاء اللہ تعالی،
والسلام