نور وجدان
لائبریرین
کشمیر کی وادیوں میں آسمانوں سے زہرہ دیوی کا ظہور کچھ عرصہ قبل ہوا تھا۔کہا جاتا ہے جب اس نے زمین پر قدم رکھا تھا تب سر سبز قالینوں نے اسکے نرم و نازک پاؤں کے لمس کو پانے کا شرف حاصل کیا۔ندی نالوں کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی اس کے ہونے کے احساس کو تقویت دے رہا تھا ۔کوئی نیا آنے والا یہ گمان نہ کرسکا کہ زہرا دیوی یہاں حکومت کرنے آئی تھی یا وہ اپنے دیوتا کو ڈھونڈنے ۔۔ ۔اس کی آتے ہی بلبل سے دوستی ہوگئی۔ شہزادی کو بتایا گیا تھا جس جانور سے اسکی پہلے دوستی ہوگی وہی اسکو دیوتا کے پاس لے جانے کا سبب بنے گا۔
زہرہ دیوی کی عادت تھی وہ رات اپنے محل میں مقید بلبل سے گانا سنا کرتی تھی اور سنتے ہی سو جایا کرتی تھی۔ کبھی اس سے باتیں کیا کرتی تھی۔ بلبل ہی سب زیادہ قریب تھی۔بلبل صبح سویرے شہزادی کے ساتھ دربار میں شریک ہوتی تھی ۔ایک دن اسے نئے مسافر کی آمد کی خبر ہوئی۔صحرا کا باسی 'باز' راستہ بھول گیا اور شہزادی زہرہ کی دیوی کی وادی میں آگھسا۔وہ سیاہ و سپید پرندہ باقی پرندوں میں نمایاں لگ رہا تھا۔شہزادی کو وہ باز اتنا پسند آیا تھا کہ اسے اپنے کاندھے پہ آنے کو کہا۔ اب وہ کاندھے پہ ہوتا تھا اور زہرہ شہزادی پانیوں پہ چلتی تھی تو کبھی چوٹیوں پہ اور کبھی سبزے کی اوٹ میں باز سے آنکھ مچولی کھیلتی۔ کچھ عرصہ یونہی کھیل میں وقت گزرتا رہا۔شہزادی بلبل کا گانا سنتی تو کبھی باز کے ساتھ اپنی اڑان بھرا کرتی تھی۔یوں باز اور بلبل میں کافی دوستی ہوگئی تھی ۔
اس ماہ کی چاند رات کا شہزادی زہرہ کو شدت سے انتظار تھا۔ شہزادی نے یہ پڑھ رکھا تھا اپالو دیوتا کسی جانور کے روپ میں بلندوبالا پہاڑیوں میں ظہور ہوگا۔اور تب اس نے چاند رات کو اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہونا تھا۔ یوں وہ روز دربار لگاتی تھی تاکہ وہاں پہ سب کے دلوں پہ حکومت کرکے اپنی محبت کو پالے۔چودھویں رات کے آنے میں چند ہی راتیں رہ گئی تھیں۔اس نے بلبل سے کہا ' جاؤ باز کو بلا کر لاؤ ' ننھی سی بلبل گنگناتی ہوئی شہزادی کے کان کے قریب آکر پھڑپھڑائی اور پھر محل سے باہر کی طرف اڑتی چلی گئ تھی۔سارا دن گزر گیا مگر اسکی بلبل نہ آئی۔ اسکے نہ ہونے کے احساس نے شہزادی کو پریشان کردیا۔ پورے جنگل سے جانور نکل آئے شہزادی نے سب سے باری باری پوچھا مگر کوئی بھی اسکے بارے میں معلومات نہ دے سکا نہ ہی باز کا پتا چل سکا۔
یوں دو دن گزر گئے اور شہزادی کا پریشانی سے برا حال تھا۔ اپنے محبت کا سراغ پانے آئی تھی ۔مگر کیا خبر کہ وقت دیوتاؤں کے لیے زیادہ بے رحم ہوتا تھا ۔ شہزادی نے خود اس کی تلاش شروع کردی ایک جنگل سے دوسرے جنگل پھرتی رہی۔ یوں پھرتے پھرتے نڈھال نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی۔نیند میں ایک خواب آیا جس میں اسے بلبل نظر آئی ۔اسے لگا سراب ہے مگر وہ پاگلوں کی طرح اسکے پیچھے بھاگتی رہی پھر بھی وہ اسکے ہاتھ نہ آئی۔اس نے اسے آواز دی؛
''سنو میری پیاری!'' میرے پاس وقت کم ہے ، محبت میری جان کا عذاب بنتی جارہی ہے۔۔ تم تو میری ساتھی ہو۔۔''
بلبل نے اسے اشارہ کیا اور سمندر کی طرف لے گئی۔وہاں اُسے وہی باز نظر آیا۔اس نے شہزادی کو نظر اٹھا کر دیکھا اور لمبی اڑان بھر کر فضاؤں میں کھو گیا۔اسکے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ صحراؤں میں پہنچ گئی، وہاں اسے بلبل پھر نظر آئی وہ بلبل کو لپکنے کو لیے بڑھی ہی تھی یکایک عقاب اس پہ حملہ آور ہوا ، اسکے چیتھڑے اڑا دیے۔شہزادی اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوگئی۔
خواب سے بیدار ہونے کے بعد اسکے دل کو قرار نہیں ملا اور زہرہ دیوی دریاؤں ، جنگلوں ،پہاڑیوں اور وادیوں سے ہوتی ہوئی صحراؤں میں پہنچی۔ویران و بیابان صحرا میں اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ پیاس کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتی ہوئی سمندر کے کنارے پہنچ گئی۔
اسے وہی باز نظر آیا، سمندر کے کنارے پانی پی رہا تھا۔شہزادی کو دیکھ کر اڑان بھری اور وہ اس کا تعاقب کرتی ہوئی ایک جزیرے میں پہنچ گئی۔ یہاں اسکو باز نہیں ملا، وہ جزیرے میں پہاڑ پر چڑھ کر باز کو آواز دیتی رہی۔تب ہی اسکو بلبل کی آواز سنائی دی۔ اس آواز میں درد بھری موسیقیت تھی۔آواز کی سمت بھاگتے بھاگتے اسے بلبل اور باز نظر آئے۔وہ جو گہرے دوست تھے اب دشمن بن چکے تھے باز کی چونچ خون سے لتھڑی ہوئی تھی ۔محبت کا خون ہوگیا۔
زہرہ دیوی نے درد کا لبادہ اوڑھ لیا اور جل پری بن کر اس سمندر میں رہنے کا تہیہ کرلیا ۔چاند ڈوب چکا تھا۔رات آنکھیں موندے جل پری کے حسن کو تک رہی تھی۔ اکثر ان راتوں میں ہر سال بہت طوفان آیا کرتا تھا۔اور سب کچھ غرق کردیتا تھا۔ لوگ اس ماہ سمندر میں سفر نہیں کرتے تھے کہیں سمندر کی لہریں انہیں بھی غرق نہ کرلیں
زہرہ دیوی کی عادت تھی وہ رات اپنے محل میں مقید بلبل سے گانا سنا کرتی تھی اور سنتے ہی سو جایا کرتی تھی۔ کبھی اس سے باتیں کیا کرتی تھی۔ بلبل ہی سب زیادہ قریب تھی۔بلبل صبح سویرے شہزادی کے ساتھ دربار میں شریک ہوتی تھی ۔ایک دن اسے نئے مسافر کی آمد کی خبر ہوئی۔صحرا کا باسی 'باز' راستہ بھول گیا اور شہزادی زہرہ کی دیوی کی وادی میں آگھسا۔وہ سیاہ و سپید پرندہ باقی پرندوں میں نمایاں لگ رہا تھا۔شہزادی کو وہ باز اتنا پسند آیا تھا کہ اسے اپنے کاندھے پہ آنے کو کہا۔ اب وہ کاندھے پہ ہوتا تھا اور زہرہ شہزادی پانیوں پہ چلتی تھی تو کبھی چوٹیوں پہ اور کبھی سبزے کی اوٹ میں باز سے آنکھ مچولی کھیلتی۔ کچھ عرصہ یونہی کھیل میں وقت گزرتا رہا۔شہزادی بلبل کا گانا سنتی تو کبھی باز کے ساتھ اپنی اڑان بھرا کرتی تھی۔یوں باز اور بلبل میں کافی دوستی ہوگئی تھی ۔
اس ماہ کی چاند رات کا شہزادی زہرہ کو شدت سے انتظار تھا۔ شہزادی نے یہ پڑھ رکھا تھا اپالو دیوتا کسی جانور کے روپ میں بلندوبالا پہاڑیوں میں ظہور ہوگا۔اور تب اس نے چاند رات کو اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہونا تھا۔ یوں وہ روز دربار لگاتی تھی تاکہ وہاں پہ سب کے دلوں پہ حکومت کرکے اپنی محبت کو پالے۔چودھویں رات کے آنے میں چند ہی راتیں رہ گئی تھیں۔اس نے بلبل سے کہا ' جاؤ باز کو بلا کر لاؤ ' ننھی سی بلبل گنگناتی ہوئی شہزادی کے کان کے قریب آکر پھڑپھڑائی اور پھر محل سے باہر کی طرف اڑتی چلی گئ تھی۔سارا دن گزر گیا مگر اسکی بلبل نہ آئی۔ اسکے نہ ہونے کے احساس نے شہزادی کو پریشان کردیا۔ پورے جنگل سے جانور نکل آئے شہزادی نے سب سے باری باری پوچھا مگر کوئی بھی اسکے بارے میں معلومات نہ دے سکا نہ ہی باز کا پتا چل سکا۔
یوں دو دن گزر گئے اور شہزادی کا پریشانی سے برا حال تھا۔ اپنے محبت کا سراغ پانے آئی تھی ۔مگر کیا خبر کہ وقت دیوتاؤں کے لیے زیادہ بے رحم ہوتا تھا ۔ شہزادی نے خود اس کی تلاش شروع کردی ایک جنگل سے دوسرے جنگل پھرتی رہی۔ یوں پھرتے پھرتے نڈھال نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی۔نیند میں ایک خواب آیا جس میں اسے بلبل نظر آئی ۔اسے لگا سراب ہے مگر وہ پاگلوں کی طرح اسکے پیچھے بھاگتی رہی پھر بھی وہ اسکے ہاتھ نہ آئی۔اس نے اسے آواز دی؛
''سنو میری پیاری!'' میرے پاس وقت کم ہے ، محبت میری جان کا عذاب بنتی جارہی ہے۔۔ تم تو میری ساتھی ہو۔۔''
بلبل نے اسے اشارہ کیا اور سمندر کی طرف لے گئی۔وہاں اُسے وہی باز نظر آیا۔اس نے شہزادی کو نظر اٹھا کر دیکھا اور لمبی اڑان بھر کر فضاؤں میں کھو گیا۔اسکے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ صحراؤں میں پہنچ گئی، وہاں اسے بلبل پھر نظر آئی وہ بلبل کو لپکنے کو لیے بڑھی ہی تھی یکایک عقاب اس پہ حملہ آور ہوا ، اسکے چیتھڑے اڑا دیے۔شہزادی اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہوگئی۔
خواب سے بیدار ہونے کے بعد اسکے دل کو قرار نہیں ملا اور زہرہ دیوی دریاؤں ، جنگلوں ،پہاڑیوں اور وادیوں سے ہوتی ہوئی صحراؤں میں پہنچی۔ویران و بیابان صحرا میں اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ پیاس کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتی ہوئی سمندر کے کنارے پہنچ گئی۔
اسے وہی باز نظر آیا، سمندر کے کنارے پانی پی رہا تھا۔شہزادی کو دیکھ کر اڑان بھری اور وہ اس کا تعاقب کرتی ہوئی ایک جزیرے میں پہنچ گئی۔ یہاں اسکو باز نہیں ملا، وہ جزیرے میں پہاڑ پر چڑھ کر باز کو آواز دیتی رہی۔تب ہی اسکو بلبل کی آواز سنائی دی۔ اس آواز میں درد بھری موسیقیت تھی۔آواز کی سمت بھاگتے بھاگتے اسے بلبل اور باز نظر آئے۔وہ جو گہرے دوست تھے اب دشمن بن چکے تھے باز کی چونچ خون سے لتھڑی ہوئی تھی ۔محبت کا خون ہوگیا۔
زہرہ دیوی نے درد کا لبادہ اوڑھ لیا اور جل پری بن کر اس سمندر میں رہنے کا تہیہ کرلیا ۔چاند ڈوب چکا تھا۔رات آنکھیں موندے جل پری کے حسن کو تک رہی تھی۔ اکثر ان راتوں میں ہر سال بہت طوفان آیا کرتا تھا۔اور سب کچھ غرق کردیتا تھا۔ لوگ اس ماہ سمندر میں سفر نہیں کرتے تھے کہیں سمندر کی لہریں انہیں بھی غرق نہ کرلیں
آخری تدوین: