سودا زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ ۔ مرزا رفیع سودا

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ

مجھے یہ فکر ہے تُو اپنی ہرزہ گوئی کا
جواب دیوے گا کیا حق کے روبرو واعظ

خدا کے واسطے چپ رہ، اتر تُو منبر سے
حدیث و آیہ کو مت پڑھ توُ بے وضو واعظ

سنا کسی سے تُو نامِ بہشت، پر تجھ کو
گلِ بہشت کی پہنچی نہیں ہے بُو واعظ

بتوں کی حسن پرستی سے کیا خلل دیں میں
خدا نے دوست رکھا ہے رخِ نکو واعظ

ثبوتِ حق کی کریمی سبھوں پہ ہے لیکن
تری تو نفیِ کرم پر ہے گفتگو واعظ

ڈروں ہوں میں نہ کریں رند تیری ڈاڑھی کو
تبرّکات میں داخل ہر ایک مُو واعظ

ہزار شیشۂ مے اس میں تیں چھپایا ہے
تری جو پگڑی ہے یہ صورتِ سبو واعظ

قطعہ
سخن وہ ہے کہ موثر دلوں کا ہو ناداں
یہ پوچ گوئی ہے جس سے ہے تجھ کو خُو واعظ

کہا تُو مان لے سودا کا، توبہ کر اس سے
لب و دہن کے تئیں کر کے شست و شُو واعظ

(مرزا رفیع سودا)
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ قبلہ کیا چبھتی ہوئی غزل لائے ہیں۔

بہت ہی خوب غزل لائے ہیں سخنور جی
مگر نہ بدلی، نہ بدلے گی تیری خُو، واعظ
:)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ واہ قبلہ کیا چبھتی ہوئی غزل لائے ہیں۔

بہت ہی خوب غزل لائے ہیں سخنور جی
مگر نہ بدلی، نہ بدلے گی تیری خُو، واعظ
:)

بہت شکریہ وارث صاحب۔ اور شعر کے لئے بھی بہت شکریہ! خُو بدلنے کی اپنی سی کوشش جاری رکھوں گا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ! آج تو شعر پر شعر ہو رہے ہیں۔ وارث صاحب اسی زمین میں پوری غزل ہو جائے لیکن سخنور کو نکال کے۔ :)

غزل کہاں سے کہوں آپ کے بغیر حضور
ولے لے آئے جو خود جام و سبُو، واعظ

لیجیئے نکال دیا سخنور کو، لیکن 'آپ کو' کیسے نکالوں :)
 

محمد وارث

لائبریرین
نہیں فرخ صاحب، غزل کہنے کی طرف آج کل دھیان ہی نہیں جاتا، ایک آدھ شعر ہو جائے تو وہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے غزل پوری ہونے کے انتظار میں جیسے

زیست بدنام کر گیا میں بھی
اپنی موت آپ مر گیا میں بھی :)
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ سبحان اللہ یہاں تو جام و سبو کی محفل سجی ہوئی ہے اور واعظ و ساقی بھی اپنی تب و تاب کے ساتھ موجود ہیں۔ :)
 
Top