امجد اسلام امجد زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے

ماہی احمد

لائبریرین
زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے

چند بے ربط سے صفحوں میں، کتابِ جاں کے
اِک نشانی کی طرح عہدِ وفا رکھا ہے

ایک ہی شکل نظر آتی ہے، جاگے، سوئے
تم نے جادُو سا کوئی مجھ پہ چلا رکھا ہے

یہ جو اِک خواب ہے آنکھوں میں نہفتہ، مت پوچھ
کس طرح ہم نے زمانے سے بچا رکھا ہے!

کیسے خوشبو کو بِکھر جانے سے روکے کوئی!
رزقِ غنچہ اسی گٹھڑی میں بندھا رکھا ہے

کب سے احباب جِسے حلقہ کیے بیٹھے تھے
وہ چراغ آج سرِ راہِ ہوا، رکھا ہے

دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے

یاد بھی آتا نہیں اب کہ گِلے تھے کیا کیا
سب کو اُس آنکھ نے باتوں میں لگا رکھا ہے

دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں، امجد
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے
 

غ۔ن۔غ

محفلین
دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے


واہ کیا کہنے ۔ ۔ ۔
بہت ہی خوب
زبردست شیئرنگ ماہی احمد
ہم سے شئیر کرنے کے لیے بہت شکریہ
:)
 

ماہی احمد

لائبریرین
دل میں خوشبو کی طرح پھرتی ہیں یادیں، امجد
ہم نے اس دشت کو گلزار بنا رکھا ہے

واااااہ بہت عمدہ انتخاب
دن میں سائے کی طرح ساتھ رہا، لشکرِ غم
رات نے اور ہی طوفان اٹھا رکھا ہے


واہ کیا کہنے ۔ ۔ ۔
بہت ہی خوب
زبردست شیئرنگ ماہی احمد
ہم سے شئیر کرنے کے لیے بہت شکریہ
:)
شکریہ :)
 
Top